Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yaadon Ki Baarat

Yaadon Ki Baarat

ہم سب کا نغمہ خام ہے۔ اس لیے کہ دل میں ہم اسے تھامتے نہیں۔ سینچتے نہیں۔ درحقیقت ہماری کوئی منزل ہی نہیں۔ صرف تمنائیں ہیں اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ یہ خاکداں انسانی تمناؤں کی چراگاہ ہرگز نہیں۔

موضوع سوجھا توجوش ملیح آبادی یاد آئے۔ غیر معمولی یاداشت کا وہ زبان دان، نصف صدی تک اردو شاعری کے آسمان پر جو دمکتا رہا۔ "یادوں کی بارات" شاعر کی کتاب کا عنوان ہے۔ پچاس برس پہلے جواں سال افتخار عارف نے، جس کے بارے میں کہا تھا: خواہشات کو خبریں بنا دیا۔ خود افتخار عارف ان دنوں شعر کے افق پہ طلوع ہو رہے تھے۔ نادرِ روزگار سلیم احمد مرحوم نے جواں سال کے بارے میں کہا تھا:ہم عصر اب دیکھیں گے کہ ہاتھی کا روٹ کیا ہوتاہے۔ اپنے عہد پہ چھائے فیض احمد فیضؔ کی رائے بھی یہی تھی۔

جوش ملیح آبادی گرجے بہت، کڑکے بہت اور زمانوں تک۔ ہیبت ان کی بہت تھی، چرچا ہر زبان پہ لیکن وہ بادلو ں میں جیے، آسمانوں پہ پرواز کی۔ اس کرّہء خاک کو بس ایک وسیع و عریض دستر خوان سمجھتے رہے، جس پر شیشے کے ظروف میں ہمہ رنگ مشروب دھرے ہوں۔ جوشؔ کے برعکس، جن کا تعلق ایک خوشحال خاندان سے تھا، افتخار عارف ایک کمزور لیکن شائستہ پسِ منظر سے اٹھے تھے۔ تعلیم لکھنو میں پائی، عملی زندگی کا آغاز پاکستان میں کیا۔ وہ شہر جس کے مکین مسافروں کو دعا یہ دیتے ہیں "غمِ حسین کے سوا خدا تمہیں کوئی غم نہ دے"۔

غم سے کس کو چھٹکارا ہے۔ پیمبروں کو بھی نہیں۔ کتاب کہتی ہے: ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک سے، مالوں، جانوں اور ثمرات کے زیاں سے۔ اور خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کے لیے کہ مصیبت انہیں پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔

اکاون برس پہلے جوش ؔ سے طالبِ علم کی ملاقات چٹان بلڈنگ کے زینے پر ہوئی۔ معصوم چہرے اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ سیڑھیاں وہ چڑھ رہے تھے اور ناچیز اتر رہا تھا۔ "آغا شورش کاشمیری کا کمرہ کہاں ہے؟"ٹی وی پر انہیں دیکھا تھا۔ ان کی جسارت پہ حیران ہوتا رہا۔ کچھ دن پہلے آغا صاحب نے ان کے بارے میں لکھا تھا

جوش برق ہوس کا کڑکا ہے

جوش ستر برس کا لڑکا ہے

میرا خیال تھا کہ آغا صاحب کچھ زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہرہ نہ کریں گے۔ بے پناہ جذباتی آدمی تھے اور بعض چیزوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی۔ چند ماہ پہلے مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی، جو اب بھٹو کے ہاتھ پہ بیعت کر چکے تھے، آئے تو لجاجت کے باوجود آغا نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اندازہ ہوا کہ جوش ملیح آبادی کے ہاتھ میں جادو ہے۔ کچھ دیر میں آغاصاحب کے کمرے سے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ گونجتی خوش دلی اور شادکامی جو جذبات سے بنے لوگوں میں ہوتی ہے۔

آغا صاحب دو کیفیات کے آدمی تھے۔ فکرِ سخن، محو ِ ریاضت یا شعلہء جوالہ۔ اس روز ان کی تیسری جہت دریافت ہوئی۔ مروت بھی بے پناہ تھی۔ ایک اعتبار سے وہ جوش جیسے ہی تھے لیکن دوسرے اعتبار سے بالکل مختلف۔ اپنی زندگی ناؤ نوش میں غرق نہ کی۔ اتنا اور ایسا لکھا کہ اب تک باقی ہے اور مدتوں باقی رہے گا۔ خاص طور پر ان کی دو کتابیں، خودنوشت، "بوئے گل، نالہء دل، دودِ چراغِ محفل"۔ یہ عشروں زخم سہتی زندگی کی روداد ہے، جو مسافت اور زندانوں میں بیتی یا خطابت میں۔ نثر نگار اور شاعر بھی وہ بڑے تھے، اصلاً مگر خطیب ہی۔ جذبات سے مغلوب، انگریز سامراج کو للکارتے اورسٹیج سے اتر کر زنجیرپہن لیتے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی استعمار کی اولاد سے برسرِ پیکار رہے۔ ان کی خودنوشت کے آخری اوراق میں ایک ملال جھلکتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کی حمایت کیوں نہ کی۔ اس میں مگر کوئی کلام نہیں کہ نواب زادہ نصر اللہ خاں مرحوم کی طرح، وطن سے ٹوٹ کر محبت کی۔ نواب صاحب ہی کی طرح مسلم لیگیوں سے مگر کراہت تھی۔ بعض اوقات بہت بڑے لوگ بھی اس نکتے کو پا نہیں سکتے کہ دانا وہ ہے جو تقدیر پہ راضی ہو۔ فرمایا "کبھی ایک چیز سے تمہیں کراہت ہوتی ہے حالانکہ ہوتا وہ خیر ہے۔ کبھی ایک چیز کو ٹوٹ کر تم پسند کرتے ہو، حالانکہ تمہارے لیے شر اس میں پوشیدہ ہوتاہے۔ ٹیپو کے ذکر میں اسی سطحی عقل کا اقبالؔ نے ذکر کیا تھا۔

روزِ ازل مجھ سے کہا یہ جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے ملے تو ساحل نہ کر قبول

عظیم اکثریت ساحل کی عافیت میں بسر کرتی ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ چراغ وہ بنتے ہیں جو منجدھار میں اتر سکیں اور یکسوئی سے اتریں۔ بے کنار وہی ہو سکتے ہیں، جو عقل کو چراغ سمجھیں، منزل نہیں۔ آغا کی آخری سے پہلی کتاب میں سطحی دانش کی دیواریں دریا برد ہیں۔ یہ حج کا سفر نامہ ہے۔ کیسا شاندار عنوا ن اس کا رکھا "شب جائے کہ من بودم"۔ حافظہ آغا صاحب کا بھی کمال تھا۔ ہزاروں شعر ازبراور برمحل استعمال۔ کتاب کا پہلا باب مکّہ سے آغاز کرتا ہے، رئیس المتغزلین حسرتؔ موہانی کے شعر سے

یہ ذوقِ سجدہ کہاں پہ مجھ کو لے آیا

جہاں اپنی جبیں اپنی جبیں محسوس ہوتی ہے

اسی غزل کا دوسرا شعر یہ ہے

جوانی مٹ گئی لیکن خلش عہدِ جوانی کی

جہاں محسوس ہوتی تھی، وہیں محسوس ہوتی ہے

حسرت موہانی سے اپنی پہلی ملاقات اور اس شعر کا پسِ منظر ایک دن آغا جی نے بیان کیا تھا۔ یہ کہانی پھر کبھی۔ اپنا اپنا اندازِ فکر ہوتا ہے، اپنا اپنا طرزِ احساس۔ زہیر بن ابی سلمہ کو عمر فاروقِ اعظم ؓ اشعر الشعرا کہا کرتے۔ سب شاعروں سے بڑا شاعر۔ جنابِ علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا گیا تو ارشاد کیا: شہسواروں نے اپنے گھوڑے مختلف سمتوں میں دوڑائے ہیں۔

جوش ملیح آبادی اور افتخار عارف کا موازنہ مضحکہ خیز ہوگا مگر یہ بات کہ جوش ترنگ کے آدمی تھے۔ خود کو شاعرِ انقلاب کہلانا پسند کرتے۔ اپنے زمانے پہ چھا جانے کی آرزو میں بے تاب۔ افتخار عارف نے زخم سہے اور گداز پایا۔ نقاد تو کیا، یہ ناچیز تو شاعری کا اچھا طالبِ علم بھی نہیں۔ اس کا تاثر بہرحال یہ ہے کہ افتخار عارف جوش ملیح آبادی سے لمبی عمر پائیں گے۔ اپنے بیشتر ہم عصروں سے زیادہ۔ مسجدِ قرطبہ کے لافانی درو بام کے بیچ ایک نکتہ اقبال پہ آشکار ہوا تھا۔ باقی اس ہنر کا جمال رہتا ہے، قلب و جاں کا خلوص اور گداز جسے خونِ جگر سے سینچنے پر آمادہ کرے۔ مدتوں پہلے خود سے مخاطب ہو کر کہا تھا:

بلبلِ شوریدہ نغمہ ہے ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

ہم سب کا نغمہ خام ہے۔ اس لیے کہ دل میں ہم اسے تھامتے نہیں۔ سینچتے نہیں۔ درحقیقت ہماری کوئی منزل ہی نہیں۔ صرف تمنائیں ہیں اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ یہ خاکداں انسانی تمناؤں کی چراگاہ ہرگز نہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.