Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Zeena Zeena

Zeena Zeena

تاریخ یہ کہتی ہے کہ تبدیلی رفتہ رفتہ اور بتدریج ہی آتی ہے۔ ادراک اور شعور کے ساتھ، زینہ زینہ۔

کچھ ہڑتال پر ہیں، کچھ نے اعلان کر رکھا ہے، کچھ پر تول رہے ہیں۔ جاگیردارانہ عہد سے ایک ضرب المثل پنجاب میں چلی آتی ہے " کام جوان کی موت ہے "۔ اہلِ زر کے لیے ٹیکس محض ٹیکس نہیں ہے، جرمانہ اور سزا ہے۔ قرآنِ کریم کہتاہے : آدمی میں مال کی محبت بہت شدید ہے۔ فارسی کہاوت یہ ہے " ہیچ خیر از بندہء زر کش مجو " دولت کی محبت پالنے والوں سے خیر کی توقع کم رکھنی چاہئیے۔ سرکارﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے : جوں جو ں ابنِ آدم کی عمر بڑھتی ہے، زندہ رہنے کی خواہش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ فرمایا: سونے کی ایک وادی اگر آدمی کے پاس ہو تو دوسری کی تمنا کرے گا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا: جائیدادیں نہ بناؤ، دنیا سے تمہیں محبت ہو جائے گی۔

دنیا کی محبت ایک عجیب مرض کو جنم دیتی ہے۔ اسے وہن سمجھا جاتا ہے، یعنی موت کا خوف۔ تاریخ کا سبق یہ ہے، عصری مشاہدہ بھی یہی کہ کاروبار کرنے والوں میں بھی فروغ پاتے ہیں، دولت کی محبت میں جو اندھے نہیں ہو تے۔ حکم چلانا جن کی لازمی ترجیح نہیں ہوتی۔ جو جانتے ہیں کہ آخری تجزیے میں آدمی سب برابر ہوتے ہیں۔ زندگی سبھی پہ یکساں مہربان یا نامہربان ہوتی ہے۔ اقتدار اور زر سے مسرت اور دکھ کی صرف شکل بدلتی ہے کمی یا اضافہ نہیں ہوتا۔ دولت سے اشیا خریدی جا سکتی ہیں، مسرت اور سکونِ قلب نہیں۔ بل گیٹس قطار میں کھڑے ہو کر برگر خریدتا ہے۔ نواز شریف اور زرداری کے لیے گلاس میں پانی بھی خادم ڈالتے ہیں۔

میاں صاحب کی یادداشت عرصہ ہوا مرجھا چکی۔ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے ساتویں بار نام پوچھا تو وہ خاموش رہا۔ موصوف اس پر خفیف ہوئے لیکن غور کرنے کی توفیق نہیں کہ ایسا ہوا کیوں۔ کراچی کے سابق میئر، خلقِ خدا کے خدمت گزار نعمت اللہ خاں 85برس کے ہیں۔ جسم ڈھے گیا مگر حافظہ روشن ہے۔ تکلف، تصنع، ریا سے پاک زندگی گزارنے والوں پر اللہ کی رحمت ہو۔

دونوں ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھانے کی کوشش میں تیسری بار زرداری صاحب کامیاب ہوئے۔ میزبان نے ان سے کہا : اپنے ساتھ آپ نے کیا کیا۔ دولت اور لوگوں نے بھی بہت کمائی۔ ان میں بہت سے شادماں بھی ہیں، ہنستے کھیلتے، کھاتے پیتے۔ لگ بھگ سات برس ہوتے ہیں، آدھی رات بیت چکی تھی، ایوانِ صدر سے سپہ سالار اشفاق پرویز کیانی کو ٹیلی فون موصول ہوا۔ دیر تک زرداری صاحب گفتگو کرتے رہے۔ بہت بعد میں جنرل نے کسی سے کہا : اندازہ لگائیے، کتنی دیر؟ اس نے کہا، یہی بیس پچیس منٹ؟ بولے:بلکہ پورے 120منٹ۔

انہی دنوں اسلام آباد سے ایک کال صدر اوباما کو بھی موصول ہوئی تھی۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا : بے سروپا، بے ربط اور بے معنی۔ جنرل کیانی سے کی جانے والی گفتگو بھی ایسی ہی تھی۔ ایک دوست سے انہوں نے کہا : دو گھنٹے میں بس اتنا میں سمجھ سکا کہ موصوف کو مستقبل میں جھانکنے کا دعویٰ ہے۔ حال ان کا یہ ہے کہ سامنے کی سچائی بھی دیکھ نہیں سکتے۔ ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ چالاکی اور حکمت میں فرق کیا ہے۔

امام شافعیؒ نے فرمایا تھا : اپنی رائے کو سو فیصد میں درست سمجھتا ہوں لیکن سو فیصد ہی یہ امکان تسلیم کرتا ہوں کہ غلط ثابت ہو جائے۔ شافعیؒ وہ تھے، جنہوں نے کہا تھا : جھوٹی تو کیا، عمر بھر میں نے سچی قسم بھی نہیں کھائی۔ شافعیؒ وہ تھے، جن کے جنازے نے مدتوں دنیا کو حیرت میں ڈالے رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ حدِ نظر تک انسان ہی انسان تھے۔ بہت سے یہ بھی نہ بتا سکے کہ انہیں اطلاع ملی کیسے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ٹھیک اس وقت دل اس مقام کے لیے بے تاب ہوا۔

چالیس برس ہوتے ہیں، فیصل آباد کا ایک مشہور صنعت کار نیند کی لذت سے محروم ہو گیا۔ وہ کہا کرتا تھا : میری ساری دولت کوئی لے لے اور اس کے بدلے میں نیند کی نعمت عطا کر دے۔ امام ابو یوسفؒ نے ہارون الرشید سے پوچھا :امیر المومنین صحرا میں اگر آپ پھنس جائیں۔ حلق پیا س سے خشک ہونے لگے، جان خطرے میں پڑ جائے تو ایک پیالہ پانی کی کس قدر قیمت چکانے کے لیے آپ تیار ہوں گے؟ "آدھی سلطنت " متلون مزاج اور جلد باز حکمران نے کہا۔ امام ؒکا دوسرا سوال یہ تھا : پانی اگر جسم سے خارج نہ ہو سکے۔ درد سے اگر آپ تڑپ رہے ہوں؟ ہارون الرشید نے جواب دیا: باقی آدھی سلطنت۔"تو آپ کی پوری سلطنت کی قیمت پانی کا ایک پیالہ ہے۔"

سود پر پابندی کی آیات نازل ہوئیں تو آپؐ نے ان کا اطلاق نہ فرمایا۔ ممانعت کا فرمان حجۃ الوداع کے موقع پر جاری کیا۔ فرمایا: جاہلیت کے سب زمانے میرے قدموں تلے ہیں۔ آج سے سارے سود میں باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کا۔ صاف ظاہر ہے کہ بعض لوگوں نے اس سے پہلے سرمائے پر نفع کا کاروبار جاری رکھا۔ علم ہونے کے باوجود ریاست نے مداخلت نہ کی۔

آخر کیوں؟ قرآنِ کریم کا حکم واضح تھا اور بہت سخت۔ سود ایک لعنت ہے، اللہ اور رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ۔ سرمایہ پرستی بدترین طرزِ زندگی ہے۔ اگر آپؐ نے ڈھیل دی تو ظاہر ہے کہ مہلت اللہ نے دی تھی۔ جو تمام انسانوں کا مالک اورپروردگار ہے۔ جو اپنے بندوں کو ان کی مائوں سے زیادہ جانتا ہے۔ جس کا ارشاد یہ ہے کہ جسے حکمت عطا کی گئی، اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ سب سے زیادہ وجیہ اور فصیح ہی نہیں، سب سے زیادہ دانا بھی پیغمبر ہی ہوتے ہیں اور سب اہلِ حکمت سے زیادہ صاحبِ حکمت، ختم المرسلینؐ۔

اندازِ فکر کی تبدیلی، خاص طور پر جن کا تعلق اجتماعی مزاج سے ہو، وہ رفتہ رفتہ، بتدریج رونما ہوتی ہیں۔ انقلاب احمقوں کا شیوہ ہے۔ دو ہزار سال پہلے ایران کے مزدک سے لے کر انقلابِ فرانس، انقلابِ روس و چین اور انقلابِ ایران تک آدمیت کو کبھی کسی سے کچھ نہ ملا۔ انتشار، خوں ریزی اور باہمی آویزش۔ بھوک سے تب نجات پائی، جب کمیونزم سے جان چھڑائی۔

برصغیر سخت گیر حکمرانوں کو ٹیکس ادا کرنے کا عادی ہے۔مغل حکمران چوتھ وصول کیا کرتے تھے، عملاً تقریباً ایک تہائی۔ رنجیت سنگھ پنجاب کے کاشتکاروں سے آدھا حصہ اڑا لے جاتا۔ مالیہ، آبیانہ یا نقد آمدن کا حصہ، انگریز سرکار کو ٹیکس ادا کرنے سے کوئی انکار نہ کر سکتا۔ برصغیر کے نہری نظام اور ریلوے ٹیکس کی اسی آمدن سے بنے تھے۔ صرف پاکستان کا نہری نظام چار سو بلین ڈالر کا ہے۔ 14اگست 1947ء کے بعد من مانی کو ہم نے آزادی سمجھ لیا۔ آزادی حالانکہ ڈسپلن کے ساتھ ہوتی ہے ورنہ حیوانیت۔ ٹیکس ادا کرنے کے ہم عادی نہیں، من مانی کے ہیں۔ ریاست جبر کرتی ہے، شہری ریاست کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان کا تعلق اثبات اور صحت مندی پہ استوار نہیں۔ سرمایہ پرستی ایک لعنت ہے اور خوف کا ہتھیار استعمال کر کے ٹیکس کی بندش بھی۔ سرمایہ دار بلیک میلنگ پر تلے ہیں اور حکومت کو راستہ معلوم نہیں۔

تاریخ یہ کہتی ہے کہ تبدیلی رفتہ رفتہ اور بتدریج ہی آتی ہے۔ ادراک اور شعور کے ساتھ، زینہ زینہ۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.