Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Anaad, Insaf Par Bhari Rahe Ga?

Anaad, Insaf Par Bhari Rahe Ga?

عزت مآب جج صاحبان کا اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر، صدقِ دل سے اٹھائے گئے حلف کا اہم ترین جُملہ ہے "میں تمام لوگوں کے ساتھ، کسی خوف یا رعایت کے بغیر اور کسی رغبت اور عناد کے بغیر انصاف کروں گا"۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسند انصاف پر براجمان ہونے سے پہلے یہ حلف اٹھاتا ہے۔ ہر اردو لغت میں حلف کے معنی قسم کھانا ہے۔ گویا ہر جج اپنے مذہب، عقیدے یا نظریے کے مطابق قسم کھا کر یہ عہد کرتا ہے کہ انصاف کا وظیفہ سرانجام دیتے ہوئے وہ سائل کے بارے میں اپنے ذاتی جذبہ و احساس کو ایک طرف رکھ دے گا۔

کیا سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں مَنصَب سے برطرف کرکے عمر بھر کی نااہلی کی مہر لگا دینا، جج صاحبان کے حلف کی درست عکاسی کرتا ہے؟"سسلین مافیا" اور "گاڈ فادر" جیسی متعفن گالیوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو کیا یہ مضحکہ خیز فیصلہ اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والے متعدد فیصلے عناد، میں لتھڑے ہوئے نہ تھے؟

"سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ" کا فیصلہ آ گیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دو تہائی جج صاحبان کی اکثریت سے ایکٹ کو درست قانون قرار دے دیا گیا۔ یوں قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کر لی گئی ہے۔ اس اصول کا طے پا جانا بھی نہایت مثبت پیش رفت ہے کہ عدلیہ کے صوابدیدی اختیار (184/3) کے تحت سزا پانے والے شخص کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ تاہم سات کے مقابلے میں آٹھ جج صاحبان کا فیصلہ ہے کہ اپیل کا حق موثر بہ ماضی نہیں ہوگا۔

184/3 کے تحت دی جانے والی سزا کو حتمی قرار دینے اور ملزم کو اپیل کے حق سے محروم رکھنے والے دو عالی مرتبت جج صاحبان مسلسل وکلا کو زچ کرتے رہے کہ اگر آئین سازوں نے دستور میں اپیل کا حق نہیں دیا تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے یہ حق کیسے دے سکتی ہے؟ پچاس برس پہلے آئین سازوں کے حاشیہئِ وہم و گماں میں بھی کہاں ہوگا کہ برسوں بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے بڑی بارگاہئِ عدل میں کچھ ایسے نابغے بھی جلوہ افروز ہوں گے جو اپنے صوابدیدی اختیار کا ڈھول پیٹتے ہوئے، تین بار کے منتخب وزیراعظم کا ہانکا لگا کر اپنی شکار گاہ میں لائیں گے، زیرِ زمین گروہوں جیسی خفیہ کاری کے ذریعے نامی گرامی شکاریوں کا غول تلاش کرکے اُسے جے آئی ٹی کا نام دیں گے، شکاریوں کی بندوقوں کا نشانہ "شکار" پر مرکوز رکھنے کے لیے تین جج صاحبان اونچی مچان پر بیٹھ کر مسلسل نگرانی کرتے اور راہنمائی فرماتے رہیں گے، محصور شکار کی تذلیل کے لیے بغض و عناد میں لت پت جُملے کستے رہیں گے، کروڑوں روپے خرچ کرکے دنیا بھر میں ملزم کی کرپشن کے کھرے تلاش کرتے رہیں گے اور جب رائی برابر کرپشن، معمولی سی بدعنوانی، اپنے عہدے کے غلط استعمال کا رتی بھر ثبوت نہ پائیں گے تو بھیڑیے اور میمنے کی روایتی کہانی کی نظیر دوہراتے ہوئے حکم صادر کریں گے، "تم نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس لیے خائن، ہو لہٰذا وزیر اعظم نہیں رہ سکتے اور زندگی کی آخری سانس تک سیاست کا رُخ بھی نہیں کر سکتے"۔ عناد کی آگ اسی پر

ٹھنڈی نہیں ہو جاتی، نیب کو نادر شاہی حکم جاری ہوتا ہے کہ اس شخص پر مقدور بھر ریفرنس دائر کرو۔ احتساب عدالت کو حکم دیا جاتا ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرو (تاکہ انتخابات سے پہلے وہ جیل میں ہو)، نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والے ایک جج کو ہی جی الیون میں واقع احتساب عدالت کی چھت پر بطور مانیٹر جج بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ احتساب عدالت، عناد کی وہ رسیاں کاٹ کر شکار کو رہا نہ کر دے جن میں جکڑنے کے لیے انہوں نے بڑی تگ و دو، بڑی محنت کی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے حلف کے پُرزے بھی اڑا دئیے اور اپنے اللہ سے باندھے گئے عہد و پیماں کو بھی جنسِ کوچہ و بازار بنا دیا۔

اُدھر ایک وردی پوش جرنیل، ایک جج کے گھر جا کر نواز اور مریم کے خلاف فیصلے کا تقاضا کرتے ہوئے "دو سال کی محنت" کی دہائی دے رہا تھا اور اِدھر عزّت مآب جج صاحبان، طلائی گوٹہ کناری والی سیاہ ریشمی عبائیں زیب تن کیے، محض عناد کی بنیاد پر احتساب عدالتوں کی مُشکیں کس رہے تھے کہ کہیں اُن کی محنت اکارت نہ چلی جائے۔ اگر 1973 کے آئین سازوں کے پاس کوئی ایسی دوربین ہوتی کہ وہ "بیٹے سے تنخواہ نہ لینے والے" مکروہ ناٹک اور اس کے اداکاروں کو دیکھ سکتے تو شاید وہ اس "صوابدید" ہی کو ختم کر دیتے یا پھر اسے پارلیمنٹ کے موجودہ ایکٹ سے کہیں زیادہ کڑے شکنجوں میں جکڑ دیتے۔

"اپیل کا حق دینا ہوتا تو 1973 کے آئین ساز خود کیوں نہ لکھ دیتے" کو بڑی دلیل کے طور پر دوہرانے اور وکیلوں سے پیہم استفسار کرنے والے دو جج صاحبان اُس عالی مرتبت بینچ کا بھی حصہ تھے جس کی سربراہی جسٹس بندیال کر رہے تھے اور جس نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والا رُکن نہ صرف اپنی نشست سے محروم ہو جائے گا بلکہ اس کا ووٹ بھی نہیں گِنا جائے گا۔

قطعِ نظر اس کے کہ یہ فیصلہ بھی "رغبت و عناد" میں لتھڑا ہوا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئین سازوں کا مقصد یہی تھا کہ مذکورہ رُکن اسمبلی کا ووٹ بھی نہ گنا جائے تو اُنہیں یہ جملہ لکھنے میں کیا مشکل مانع تھی؟ تب حمزہ شریف کی حکومت ختم کرنے اور تحریک انصاف کو تخت نشیں کرنے کے لیے آپ نے تعبیر و تشریح سے دس ہاتھ آگے نکل کر، آئین سازوں کی مرضی و منشا کے بالکل برعکس اپنی مرضی کا آئین لکھ لیا، اور آج عناد کی چتا میں جھونک دئیے جانے والے کسی شخص کو اپیل کا حق دیتے ہوئے آپ آئین لکھنے والوں کو نعوذ باللہ "کاتبانِ وحی" کے مقام پر بٹھا رہے ہیں؟

اس سب کچھ کے باوجود عدلیہ نے آزادی، کے نام پر اپنے گرد ایک مقدس نورانی ہالے کا حصار سا بنا رکھا ہے۔ وہ مظلوم کی داد رسی، لوگوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں تنزل سے کہیں زیادہ اپنی بے مہار آزادی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہر سوال سے آزاد۔ پارلیمنٹ سے بھی ماوریٰ۔ ڈکٹیٹروں کو خلعتِ جواز دینے میں آزاد، انہیں آئین کی چیر پھاڑ کی اجازت دینے میں آزاد، جج کے گھر جا کر دھمکیاں دینے والے جرنیل سے بازپرس نہ کرنے میں آزاد، جج کو برق رفتاری سے نمونہئِ عبرت بنا دینے میں آزاد، رغبت و عناد سے فیصلے کرنے میں آزاد، اللہ سے باندھا گیا عہدِ وفا توڑنے میں آزاد، پارلیمان کے بطن میں پڑے قانون کا سانس لینے سے بھی پہلے گلا گھونٹ دینے میں آزاد، ساٹھ ہزار زیرِالتوا مقدمات کو بھاڑ میں جھونک کر سردیوں اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں منانے میں آزاد اور تقاضا یہ کہ پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے اور چھبیس کروڑ پاکستانی اندھے عقیدت مندوں کی طرح دست بستہ اس کے حضور کھڑے رہیں۔

نوازشریف چار سالہ جلا وطنی کے بعد ان شاء اللہ 21 اکتوبر کو واپس وطن آ رہے ہیں۔ بغض، عناد اور ناانصافی کے طمانچے کھانے والے شخص کو ایک بار پھر قانون و انصاف کے مراحل درپیش ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ روا رکھے گئے "عدالتی سلوک" کی شرمناک کہانی کو پیش نظر رکھا جائے تو نوازشریف نہیں، خود عدالت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ معاملہ نوازشریف نہیں، عدلیہ کی ساکھ کا ہے۔ اس کے وقار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہد میں بھی عدلیہ کے بال و پر "غبار آلودہئِ رغبت و عناد" ہی رہیں گے اور کیا عدلیہ کے ماتھے کا داغ بن جانے والے فیصلے کسی تکنیکی موشگافی کے باعث اسی طرح اُس کی پیشانی پر چِپکے رہیں گے؟ کیا قاضی صاحب کے دور میں بھی "عناد"، انصاف پر حاوی رہے گا؟