اکیسویں صدی کی واحد سپر پاور امریکہ کا کا نمائندہ زلمے خلیل زاد عالمی میڈیا اور پچاس ممالک کے عہدیداروں، وزراء اور سفیروں کے سامنے افغان طالبان کے رکن ملّا عبدالغنی برادر کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر رہا تھا اور میرے دل و دماغ میں ایک اُلوہی وعدے نے ہلچل مچا رکھی تھی کم من فئۃٍ قلیلۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہ واللّٰہ مع الصابرین۔ (اکثر چھوٹے گروہ، بڑی بڑی جماعتوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
انیس سال قبل امریکہ نے نیٹو اور کئی دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کی تربیت یافتہ افواج، بی باون بمبار طیاروں، ڈیزی کٹر بموں، ڈرون طیاروں اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے علاوہ ہر طرح کی کمزوریوں سے پاک جاسوسی نظام کے ساتھ افغانستان پر دھاوا بولا، جارج بش جونیئر نے ببانگ دہل صلیبی جنگ کا آغاز کیا اور غیرت مند افغانوں، با حمیت طالبان کو للکارا تو اللہ تعالیٰ کی ذات اور قوت و جبروت پر بھروسہ کرنے والے خوش عقیدہ مسلمانوں کے سوا ہر ایک کو یقین تھا کہ سقوط کابل بس چند دنوں کی بات ہے۔ عہد حاضر کی عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کا مقابلہ چند ہزار پیوند لگے شلوار قمیص میں ملبوس، پھٹی جوتیوں والے، عمامہ پوشوں کے بس کی بات نہیں، افغان عوام اور مجاہدین نے دنیا کی ایک سپر پاور سوویت یونین کو شکست دی مگر یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی معاشی و فوجی تائید و اعانت کا کمال سمجھا گیا اور امریکہ نے ویت نام میں شکست کھائی تواس کا سبب سوویت یونین اور چین کی طرف سے ویت نامی گوریلوں کی پشت پناہی گردانی گئی مگر آج انیس سال بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ افغان عوام اور طالبان نے کسی دوسرے بڑے یا چھوٹے ملک کی مدد سے امریکہ کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔ جدید علوم، فنون حرب و ضرب اور سفارتی آداب سے ناواقف طالبان کے اللہ وحدہ لاشریک پر کامل بھروسے، ایثار و قربانی کے بے پایاں جذبے اور اپنی آزادی و خودمختاری کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے عزم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ؎
تیری بے علمی نے رکھ لی، بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں، اپنا دین ایمان
امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے پہلو میں ملا عبدالغنی برادر بیٹھے تھے۔ کل تک ملا عبدالسلام ضعیف کی طرح حکمران پاکستانی اشرافیہ کا معتوب امریکہ کو مطلوب اور نام نہاد عالمی برادری کا راندۂ درگاہ، پاکستان کی ایک جیل سے رہائی پا کر ملّا عبدالغنی برادر افغان وفد کا حصہ بنے اور آج وہ زلمے خلیل زاد کے ساتھ بیٹھے افغانستان میں قیام امن کی ضمانت فراہم کر رہے تھے، تلک الایام نداولہا بین الناس۔
امریکہ نے افغانستان میں فوجی کارروائی کا آغازکیا تو طالبان کی کیفیت بستی کے ان شرفا کی تھی جن پر ڈگری ہولڈر ڈاکوئوں نے جدید ہتھیاروں سے دھاوا بول دیا، مال مویشی دھن دولت کے علاوہ عزت و عصمت حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور ہمسایوں کے علاوہ عزیز و اقارب، دانشمند و دانشور انہیں مشورہ دینے لگے کہ مقابلہ کرنے کے بجائے طاقتوروں کا کہا مانیں، عزت کے بجائے روزی روٹی کی فکر کریں۔ طالبان اور افغانوں کو جھکانے کے لئے جدید ہتھیاروں کے تجربے کئے گئے، طالبان نے دوراقتدار میں امن بحال کیا، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ ہوا، وار لارڈز کی کمر ٹوٹی اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق پہلی بار افغانستان میں پوست کی کاشت صفر ہوئی، امریکی پشت پناہی سے قائم ہونے والی افغان حکومت نے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وار لارڈز، پوست اور بدامنی کا احیا کر کے طالبان کی باقیات کا خاتمہ کر دیا۔ انیس سال تک دنیا کی مہذب اقوام اور ان کی نمائندہ حکومتیں افغانستان میں امن قائم رکھ سکیں نہ ملک کو منشیات سے پاک کرنے میں کامیاب اور نہ دہشت گردی کا سدباب، الٹا امریکہ کے طفیل افغانستان میں داعش ابھری جس سے نمٹنا اب طالبان کی ذمہ داری ہے۔
افغان امن معاہدے میں پاکستان کا کردار نمایاں ہے، سولہ سترہ سال تک امریکہ نے پاکستان کو دوعملی کا طعنہ دیا اور ڈومور کا مطالبہ کیا، پاکستان اگر حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کے حوالے سے امریکی دبائو کا مقابلہ نہ کرتا، پاکستان میں ملحد و ملا کی فرمائش پر امریکہ کا بے دام غلام بن جاتا یا خود کو افغان جنگ کا چارہ بنا لیتا تو افغان عوام کو آج کا دن دیکھنا نصیب ہوتا نہ امریکہ پرامن پسپائی کی منزل حاصل کر پاتا، بھارت اس آگ کو بھڑکائے رکھنا چاہتا تھا مگر پاکستان امن کا حصہ بنا اور مذاکرات کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا، طالبان قیادت یقینا پاکستان کے اس مثبت اور جاندار کردار کا اعتراف کرے گی کہ یہی حقیقت ہے اور باقی سب افسانہ۔ افغان طالبان کی مزاحمت اور امریکہ کی پسپائی میں عالم اسلام کے لئے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ اگر کوئی قوم اپنی آزادی، خود مختاری، عزت و ناموس اور عقیدے کا دفاع کرنے پر تل جائے اور ہر قیمت ادا کرنے کے لئے آمادہ ہو تو کوئی سپر پاور اور دنیا بھر کی جملہ اقوام اور ریاستیں اس کو مرعوب کرسکتی ہیں نہ مغلوب، غیرت درکار ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے علاوہ قوت بازو پر اعتماد ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
افغان طالبان نے ثابت کیا کہ محدود وسائل میں اپنی آزادی کا تحفظ ممکن ہے اور صبر و استقامت انسان کا زادراہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت یقینی ؎
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
طالبان ایک آزمائش میں پورے اترے، امریکہ کو انہوں نے فوجی انخلا پر مجبور کر دیا۔ ماضی کے افغان مجاہدین کی طرح انہیں ایک اور چیلنج درپیش ہے۔ دیگر افغان دھڑوں اور نسلی و لسانی اکائیوں کے ساتھ پائیدار مفاہمت اور مضبوط و مستحکم حکومت کے علاوہ نظام حکومت کا قیام، گزشتہ آٹھ دن میں طالبان نے ثابت کیا کہ وہ متحد ہیں اور سیز فائر کا جال کابل حکومت پر الٹا پڑ گیا ہے۔ وہ نئے چیلنج سے عہدہ برا ہو گئے تو یہ تاریخی کارنامہ ہو گا، حکمت یار، ربانی، احمد شاہ مسعود اس آزمائش میں ناکام رہے، تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گئے۔ طالبان کو سرخرو ہونا ہے۔
افغان باقی کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ