Aj Akhan Waris Shah Nu
Irshad Ahmad Arif82
خوش فہمی علاج ہے نہ مایوسی حل۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آتے آتے آئے گی۔ پرعزم، مستقل مزاج اور دلیر قیادت یہ سنگ میل طے کر سکتی ہے مگر بھارت کو یہ کب نصیب ہو گی؟ پاکستان میں امن اور تجارت کی خواہش میں مبتلا دو حکمرانوں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو قوم اور اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی مول لینی پڑی۔ زرداری کا خیال تھا کہ ہر پاکستانی کے دل میں ہندوستانی بستا ہے اور میاں نواز شریف فوج کے مشورے کی پرواہ کئے بغیر نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں جا پہنچے باقی تاریخ ہے۔ بھارت میں ستر سال سے محض چہرے بدلے۔ دل و دماغ بڑے ملک کی چھوٹی قیادت کا یکساں رہا۔ جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، واجپائی اور نریندر مودی میں سے کسی نے مسئلہ کشمیر پر موقف بدلا؟ ۔ صرف پاکستانی اور کشمیری نہیں ہندوستانی مسلمانوں کو حسن سلوک کا مستحق گردانا؟ اور پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی خواہش سے دستبردار ہوا؟ ۔ کرتار پور کاریڈور پاکستان کے جرات مندانہ موقف اور قیام امن کے لئے پہل کا آئینہ دار ہے لیکن ایک روز قبل سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی تقریر اور بدھ کے روز وزیر خارجہ سشما سوراج کا بیان جوابی خیر سگالی کا مظہر ہے؟ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سارک سربراہ کانفرنس ایک بار ملتوی ہو چکی دوسری بار بھی بھارت شرکت پر آمادہ نہیں اور مذاکرات کے لفظ سے اُسے چڑ ہے۔ عمران خان کیا محض نوجوت سنگھ سدھو کے بیانات، ہر سمرت کور بادل کی جذباتی تقریر اور مقدس مقام کی زیارت کے لئے جمع ہونے والے سکھ یاتریوں کی خوشی سے یہ آس لگا بیٹھے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام امن چاہتے ہیں باہمی تجارت اورغربت کا خاتمہ؟ کرتار پور کاریڈور کے معاملے میں پاکستان کی پیشکش کو بھارت نے طوعاً و کرہاً قبول کیا وہ بارہ کروڑ سکھوں کے مذہبی جذبات میں مزید ہیجان برپا کرنے کے قابل نہ تھا، انکار سے خالصتان تحریک مضبوط ہوتی جو دوبارہ سر اٹھا چکی۔ پاکستان میں مغربی اور مشرقی پنجاب کے ملاپ کی بات آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے۔ صرف ہضم نہیں ہوتی بعض لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔ گزشتہ شب وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھارتی صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو نوجوت سنگھ سدھو یہی راگ الاپتے اور داد پاتے رہے مگر بھارت میں کبھی اس سوچ کو پذیرائی ملی نہ دونوں طرف کے پنجابیوں کے پرجوش باہمی رابطوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری وفود بالخصوص حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے عرس پر جانے والے زائرین چشم دید گواہ ہیں۔ پاکستان میں بعض حلقوں نے خوش فہمی پال رکھی ہے اور یہ تاثر عمران خان کی تقریر سے بھی ابھرا کہ بھارتی عوام تو پاکستان سے خوشگوار تعلقات کے لئے مرے جا رہے ہیں مگر سیاسی و فوجی قیادت رکاوٹ ہے یہ بھی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی عوام کے جذبات و احساسات اور سیاسی میلانات کا حقیقی اظہار انتخابات میں ہوتا ہے اور مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان کے بدترین دشمن نریندر مودی کی انتخابی کامیابی، وزیر اعظم کے منصب تک رسائی بھارتی عوام کے بارے میں اس پروپیگنڈے کا پول کھول دیتی ہے کہ وہاں پاکستان کے لئے محبت کا زم زم بہہ رہا ہے۔ بھارت میں پاکستان ہر عام اور ضمنی انتخاب کا گرم ترین موضوع ہوتا ہے اور جو سیاستدان پاکستان کو ملیا میٹ اور بھارتی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی بات کرے کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔ پاکستان میں البتہ عرصہ دراز سے بھارت انتخابی مہم کا موضوع نہیں بنا اور بھارتی شہریوں کے ساتھ پاکستان میں وہ سلوک کبھی نہیں ہوا جو پاکستانیوں کے ساتھ بھارت میں ہوتاہے۔ ہم تو اس قدر فراخدل واقع ہوئے ہیں کہ گزشتہ شب حضوری باغ تقریب میں مقررین نے بادشاہی مسجد میں گھوڑے باندھنے والے سکھ حکمرانوں بالخصوص مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کی سمادھی کا ذکر فخر سے کیا، سکھوں کی بہادری کے قصے بھی سنائے، احمد شاہ ابدالی کو غیر ملکی حملہ آور بھی قرار دیا مگر حضوری باغ کے سامنے موجود مزار اقبالؒ کے تذکرہ سے گریز کیا جس پر رانا عظیم بولے کیا علامہ صاحب یہاں سے چلے گئے۔ بھارت سے تعلقات کی بہتری کے اقتصادی و معاشی فوائد سے کسی کو انکار نہیں۔ کرتار پور کاریڈور سے سکھ برادری میں خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوئے، یہ پاکستان کی نیک نیتی کا ثبوت ہے اور دونوں ممالک کے مابین فاصلے مٹانے کی مناسب تدبیر، لیکن کرتار پور کاریڈور کو دونوں ممالک میں قربتیں بڑھانے اور نفرتیں مٹانے کا نقطہ آغاز سمجھنے کی ضرورت ہے نہ اس اقدام سے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیابی کا امکان۔ سُشماسوراج نے مذاکرات اور سارک کانفرنس میں شرکت کو خارج ازامکان قرار دیدیا اور مودی حکومت کی اجازت کے بغیر ایک لفظ لکھنے اور بولنے سے قاصر بھارتی میڈیا نے افتتاح کے موقع پر پاکستان کے خلاف مکروہ پروپیگنڈا سے رائے عامہ اور حکومت کے عزائم ظاہر کر دیئے۔ ماضی کی زنجیریں توڑنا بھارتی عوام اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ پاکستانی عوام تو کب کی توڑ چکے۔ پاکستانی عوام ماضی کے اسیر ہوتے تو کبھی کسی سردار جی کو لاہور میں خوش آمدید نہ کہتے کہ 1947ء میں انتہا پسند اور بے رحم ہندو قیادت کی شہ پر واہگورو کے خالصوں نے لاہور سے دلی تک مسلمان مہاجروں کے ساتھ جو سفاکانہ سلوک کیا، معصوم خواتین کی عصمتیں لوٹیں اور کمسن بچوں اور بچیوں کو تہہ تیغ کیا وہ "پنجاب واسی" کبھی بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں۔ پاکستان بنانے اور مغربی پنجاب کی طرف ہجرت کرنے کے جرم میں اپنے ہی "پنجابی بھائیوں " کے اس "حسن سلوک" پر امرتا پریتم تڑپ اٹھی تھی ؎اَج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بولتے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھولاک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے ویناج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہناٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاباج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چنابکسے نے پنجاں پانیاں وچ دیتا اے زہر رلاتے اوہناں پانیاں دھرتی نوں دِتا پانی لااس زرخیز زمین دے لوں لوں پھٹیا زہرگٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں، فٹ فٹ چڑھیا قہرجتھے وجدی سی پھوک پیار دی او ونجھلی گئی گواچرانجھے دے سب ویر، اج بھل گئے اس دی جاچدھرتی تے لہو وسیا، قبراں پیاں چونپریت دیاں شہزادیاں اج وچہ مزاراں روناج سبھے کیدو بن گئے حسن عشق دے چوراج کتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اک ہورآج اکھاں وارث شاہ نوں ماسٹر تارا سنگھ کے جانشین اگرچہ پچھتائے بہت۔ ایک لیڈر نے اعتراف کیا کہ قائد اعظم کی پیشکش ٹھکرا کر ہماری قیادت نے حماقت کی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کو اپنی اپنی ریاست مل گئی ہمارے ہاتھ کیا آیا۔؟ کوئلوں کی دلالی میں مُنہ کالا۔ بھارت سے قیام امن، خوشگوار تعلقات کی خواہش اور تجارت کے فروغ کی تمنا تقاضائے وقت مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہ خواہش، خواہش ہی رہنی چاہیے کمزور ی نہ بنے۔ جلد بازی کی گنجائش ہی نہیں۔ ورنہ ہماری بے تابی اور جلد بازی کا فائدہ بھارت کو ہو گا، نقصان پاکستان کو اور دھڑن تختہ سول ملٹری تعلقات کا ہو سکتا ہے جو 1990ء کے بعد پہلی بار مثالی ہیں۔ ؎لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کامآفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا