Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Akhir Kab Tak?

Akhir Kab Tak?

اب کیا فائدہ؟ خاندان کے سات افراد پہلے قتل ہو چکے تھے۔ خاتون تاج بی بی کا شوہر، تین بیٹے، دو بیٹیاں اور داماد۔ مقدمے کی پیروی کے جرم میں بیوہ اور بیٹی کا دن دیہاڑے عدالت کے باہر قتل تازہ اضافہ ہے ؎نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوایہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہواہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ساری بھاگ دوڑ اس وقت شروع ہوتی ہے جب نقصان کا ازالہ ممکن نہیں رہتا۔ اس کیس میں صرف تاج بی بی کا خاندان ہی تہہ تیغ نہیں ہوا، دو پولیس اہلکار بھی قتل ہو چکے ہیں۔ کہانی تاج بی بی کے سر پھرے بیٹے نعیم اکبر، اس کے مدمقابل ارسلا خان، آصف سے شروع ہوتی ہے۔ گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے معاملے پر نعیم اکبر، ارسلا خان اور آصف کے مابین دشمنی کا آغاز ہوا۔ پہلا مقتول ارسلا خان تھے جس کا الزام حنیف اور شوکت پر لگا۔ نعیم اکبر خان نے روش بدلی نہ مخالفین کی آتش انتقام بجھی جس کے نتیجے میں نعیم اکبر کا بھائی عبداللہ خان قتل ہو گیا۔ حنیف اور شوکت کی گرفتاری کے لئے پولیس نے چھاپہ مارا توملزموں نے فائر کھول دیا اور دو پولیس اہلکار موقع پر جاں بحق ہو گئے ایک بار پھر گرفتاریاں، مقدمات، جیل یاترا اور رہائی کے بعد دشمنی کا لامتناہی سلسلہ۔ پولیس، مقامی سیاسی قیادت اور برادری چاہتی تو پہلے وقوعہ یا کم از کم پہلے قتل کے بعد دونوں خاندانوں میں صلح صفائی کی تدبیر کر سکتی تھی۔ آصف اور نعیم اکبر کی آوارگی اور منہ زوری کا سدباب اہل خانہ کی ذمہ داری تھی۔ مگر پولیس، برادری اور اہل محلہ میں سے کسی نے اپنا فرض ادا نہ کیا۔ قرآن مجید میں قصاص کو زندگی اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ قانونی طریقہ کار کے مطابق قرار واقعی سزا انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرتی اور ماضی کی تلخیاں بھلا کر آغاز نو کی ترغیب دیتی ہے۔ معاشرے کو قصاص کے فوائد کسی نے گنوائے نہ انتقام اور دشمنی کے نقصانات سے کبھی دانشمندانہ انداز میں آگاہ کیا۔ مذہبی رہنما، علمائ، دانشور، منصف، حکام اور سماجی کارکن ہر ایک اپنی دنیا میں مگن اور کسی واقعہ کے ظہور پذیر ہونے پر مرثیہ خواں۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ پولیس کی بنیادی ذمہ داری صرف قتل، ڈکیتی، چوری، اغوا کے مرتکب افراد کو گرفتار کر کے سزا دلانا نہیں، ایسے واقعات کی قبل ازوقت روک تھام ہے۔ اگر ارسلا خان، آصف اور نعیم اکبر کے خلاف شکائت ملنے پر پولیس کارروائی کرتی، ان کی منہ زوری کو حکمت اور طاقت سے روکتی، اہل خانہ اور اہل محلہ کو نتائج و عواقب سے آگاہ کرتی اور نوبت ارسلا خان کے ساتھ تکرار، تلخ کلامی اور قتل تک نہ پہنچتی تو کیا پھر بھی ایک ہی خاندان کے نو قتل ہوتے اور آصف، حنیف، ارسلا خان ملک عدم کو سدھارتے؟ چلو بالفرض اگر ابتدا میں کوتاہی ہوئی تو پہلے قتل کے بعد قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے تھے۔ خاندانی دشمنی کا دائرہ وسیع نہ ہونے دیا جاتا، قاتل چھوٹ کر واپس آتے نہ نعیم اکبر کو دوبارہ کسی سے زیادتی کی جرأت ہوتی تو پھر بھی تاج بی بی کو اپنے باقی بیٹوں بیٹیوں اور داماد کی موت کا صدمہ سہنا پڑتا اور بالآخر خود بھی ایندھن بنتیں؟ میرا خیال ہے نہیں۔ پے درپے قتل ہوتے رہے، جیتے جاگتے انسان گاجر مولی کی طرح کٹتے، مرتے رہے۔ پولیس روزنامچے کا پیٹ بھرتا رہا اور پولیس کے بددیانت و خائن اہلکار خون کے اس کاروبار سے منافع کماتے رہے حتیٰ کہ پورا خاندان دیرینہ دشمنی کی آگ میں بھسم ہو گیا، مبینہ طور پر غلطی ایک انسان کی تھی۔ ، سزا پورے خاندان نے بھگتی اور اب جبکہ تاج بی بی کے پاس گنوانے کے لئے کچھ رہا نہ ارسلا خاں کے خاندان کو ملنے والی سزائوں سے مقتولوں کی داد رسی ممکن، پولیس متحرک ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے اس اندوہناک واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے مگر عاب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیتقتل و غارت گری، پولیس کی نااہلی اور نظام انصاف کی ناکامی کا یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ جس زرعی معاشرے میں معصوم بچے غذائی قلت سے مرتے، ہر سال لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گرانے والی قوم کے انسان، جانور اور پرندے پانی نہ ملنے کے سبب پیاس و افلاس کے صحرائوں میں بھٹکتے اور موت کا چارہ بنتے ہوں اور جہاں محدود اقلیت مال مست اور اکثریت فاقہ کش ہو وہاں جہانیاں پولیس کو کیا پڑی تھی کہ وہ پرانی دشمنیاں مٹا کر اپنا مال پانی بند کرائے۔ ہمارے ایک دوست نے بچوں کے ڈاکٹر سے پوچھا کہ وہ والدین کو تلقین کیوں نہیں کرتے کہ گھر میں چاکلیٹ، ٹافیاں اور چپس نہ لایا کریں تاکہ بچوں کے گلے اور معدے خراب نہ ہوں تو بولے پھر میرا کلینک کیسے چلے گا؟ ۔ یہی حال پولیس کا ہے معاشرے میں دنگا فساد، لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کا خاتمہ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ گلی محلوں سے منشیات، جوئے اور بدکاری کے اڈوں کا سدباب اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی، شریف شہریوں کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت اس کے فرائض منصبی میں شامل، مگر ہو کیا رہا ہے؟ پنچائتی نظام ہم نے دفن کر دیا۔ بلدیاتی اداروں کی ثالثی کونسلیں صرف عائلی معاملات تک محدود اور پولیس طاقتوروں کی وفادار و تابعدار، کمزوروں کے لئے ڈرائونا خواب ہے۔ اعظم سواتی کے معاملے میں آئی جی اسلام آباد سے وفاقی حکومت نے جو "حسن سلوک" کیا اسے دیکھ کر پولیس مجبور لگتی ہے لیکن اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اپنے فرائض سے پہلو تہی اور اپنے خاندان کے مقدمات کی پیروی کرنے والی خواتین کی حفاظت نہ کرنا سنگدلی ہے۔ تاج بی بی اور عاصمہ خاندان کے سات افراد کے قتل کی مدعی تھیں اور دیرینہ دشمنی کی بنا پر دونوں کی جان کو خطرہ مگر مقامی پولیس نے پروا نہ کی۔ آر پی او اب یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ مقتول ماں بیٹی کو تحفظ فراہم نہ کرنے کا سبب کیا تھا؟ اگر پتہ چل بھی جائے تو فائدہ؟ تبدیلی کی خواہش مند حکومت برسر اقتدار ہے، اسٹیبلشمنٹ بھر پور تعاون کر رہی ہے اور عدلیہ پہلی بار عوام دوستی کے مشن پر ہے مگر ساری کدوکاوش کا مرکز و محور نمائشی اقدامات ہیں عام آدمی کو تھانے کچہری سے شکایات ہیں، وہ محرر تھانہ، پٹواری اور ریڈر سے شاکی ہے۔ مقدمات کے اندراج، سماعت اور فیصلوں میں تاخیر اس کا بنیادی مسئلہ ہے اور چھوٹی موٹی نوعیت کے جھگڑے کئی نسلوں کی تباہی پر منتج ہوتے ہیں مگر کسی کو فکر ہے نہ سوچ بچار کی فرصت۔ خاندان کے خاندان اجڑ چکے اور دادا کے قتل کا فیصلہ پوتے کی زندگی میں ہونے کی روائت برقرار۔ اندیشہ یہ ہے کہ جس طرح ارسلا خان اور نعیم اکبر کے خاندان کی دیرینہ دشمنی دونوں خاندانوں کو تباہ کر گئی مگر کسی مدعی اور گواہ کو تحفظ ملا نہ قانون کے مطابق سزا کی نوبت آئی تاج بی بی اور عاصمہ کا قتل بھی بالآخر تھانے، کچہری کی فائلوں میں گم ہو جائے گا اور انتقام کی آگ دونوں خاندانوں کو عشروں تک جلاتی رہے گی۔ تاج بی بی اور عاصمہ کا قتل الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا اور ہر سطح پر نوٹس لیا گیا مگر صرف پنجاب نہیں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے اور بھلا دیے جاتے ہیں۔ طاقتور دھونس دھاندلی سے چھوٹ جاتے ہیں اور کمزور وکیلوں کی فیسیں، سفارش نہ ہونے کی وجہ سے جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں۔ مدعی اور گواہ ختم کر کے مقدمہ کمزور کرنا اس معاشرے کی ایسی قبیح اور انسانیت سوز روائت ہے جسے صرف تعلیم، شعور اور قانون کی حکمرانی سے ختم کیا جا سکتا ہے، قصاص میں زندگی ہے مگر تعلیم کا فروغ، قانون کی حکمرانی اور قصاص کے فول پروف نظام کا بندوبست ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے نہ کسی حکومت کا دردسر اور نہ معاشرے میں احساس و ادراک کہ آخر کب تک گھر اجڑے رہیں گے، خون بہتا رہے گا اور انتقام کا جذبہ پروان چڑھا کر ہم انسانوں کے معاشرے کو درندوں کی چراگاہ بنائے رکھیں گے۔ آخر کب تک؟ ۔