ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب "عدالت میں سیاست" پڑھ رہا تھا، تونسہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ غلام نظام الدین کے ایک مقدمہ کا ذکر ہے جس کا فیصلہ آ چکا تھا اور نظرثانی کی درخواست پر بحث بھی مکمل ہو چکی تھی مگر خواجہ غلام نظام الدین نے خواب میں آنے والے ایک بزرگ کی ہدائت پر جناب ایس ایم ظفر کو وکیل کیا اور ہارا ہوا کیس جیت لیا، حیرت انگیز واقعہ اور مقدمہ کی تفصیل ایس ایم ظفر کی زبانی آپ بھی سنیے، لکھتے ہیں:
"ہوا یہ کہ اسلام آباد میں گرمیوں کے دن تھے اور میں سپریم کورٹ پاکستان کی بنچ نمبر ایک میں اپنے ایک مقدمہ کی باری کا انتظار کر رہا تھا جو کہ زیر سماعت مقدمہ کے بعد کسی وقت آنے والی تھی۔ میرے ساتھ کی نشست پر میرے ایسوسی ایٹ سید زاہد حسین ایڈووکیٹ موجود تھے۔ اچانک ایک صاحب صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے، نہایت تمیز سے میرے ساتھ گیلری میں آ کر کھڑے ہو گئے اور دھیمے بلکہ سرگوشی کے انداز میں میرا نام لیا اور دریافت کیا کہ آپ ہی ایس ایم ظفر ہیں۔ میں نے قدرے دُرشتی سے کہا "ہاں فرمائیے"ان کے ہاتھ میں گٹھڑی تھی۔ میرے ڈیسک پر رکھ کر کہنے لگے، اس میں رقم ہے، یہ رقم آپ رکھ لیں۔ ہم آپ کو وکیل کرنا چاہتے ہیں بقایا فیس بعد میں طے ہو جائے گی۔
میں ان صاحب کی طرف مڑ کر دیکھا۔ لگتے تو معقول آدمی تھے لیکن جو کچھ وہ کہہ رہے تھے مجھے عجیب لگا۔ اس بار میں نے سمجھانے کے موڈ میں بڑے احترام سے کہا "محترم نہ آپ نے مجھے اپنا مقدمہ دکھایا ہے اورنہ میں نے مقدمہ لینے کی حامی بھری ہے، میں آپ کی یہ رقم کیسے لے لوں"؟ اس پر انہوں نے کہا "اللہ قسم آپ ہمارے وکیل ہو چکے ہیں" میں رقم واپس نہیں لوں گا۔ یہ کہہ کر وہ اپنی گٹھڑی چھوڑ کر کورٹ روم سے تیزی سے نکل گئے۔ میں تذبذب میں تھا۔ بہرحال میں نے سید زاہد حسین کو یہ گٹھڑی دی اور کہا کہ یہ جو صاحب میرے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے، مجھے کچھ ذہن سے خالی نظر آئے ہیں، آپ میری مانیں اور ان کو تلاش کرکے معلوم کریں کہ اصل ماجرہ کیا ہے۔
سید زاہد حسین نے کہا کہ یہ صاحب آپ سے ملنے سے پہلے میرے پاس بھی آئے تھے اور جب آپ کے متعلق دریافت کر رہے تھے تو میں نے ان سے وجہ پوچھی، اس پر انہوں نے بتایا کہ ان کی اپیل جو نچلی عدالتوں کے خلاف تھی وہ بھی خارج ہو چکی ہے اور آج اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست ہے جس میں وہ آپ کو وکیل کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے زاہد صاحب کو یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کے قاعدے کے مطابق نظرثانی کی درخواست وہی وکیل کر سکتا ہے جو پیشتر اس مقدمہ کی اپیل کی بحث کر چکا ہو اور بحث بھی وہی کر سکے گا، گویا ہم اس میں پیش ہو ہی نہیں سکتے۔ زاہد حسین نے کہا اور مشکل یہ ہے کہ وہ نظرثانی آج ہی لگی ہوئی ہے اور اس وقت جس مقدمہ میں بحث ہو رہی ہے۔ اس کے بعد ان کی نظرثانی درخواست کی باری ہے۔ میں نے زاہد صاحب سے کہا کہ یہ گٹھڑی اٹھائو، آئو باہر ان صاحب کو تلاش کرتے ہیں۔ زاہد نے کہا کہ سر میں نے پہلے ہی ان کو منع کیا تھا کہ وہ آپ سے نہ ملیں۔ لیکن؟ کورٹ روم سے باہر وہ صاحب اپنے ایک ہمراہی کے ساتھ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے یوں لگ رہا تھا کہ وہ کوئی دعا پڑھ رہے ہیں۔
اس بار میں نے محترم کو سپریم کورٹ کے قاعدے کا حوالہ دے کر ذرا سختی سے کہا کہ آپ وقت ضائع نہ کریں اور اپنی یہ رقم واپس لے لیں۔ انہوں نے گٹھڑی کو ہاتھ لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میری بات تو سن لیں۔ فرمانے لگے، میں تونسہ شریف کا سجادہ نشین ہوں۔ مزار شریف کی زمین کا مقدمہ ہے، جس میں مجھے ہر عدالت سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب نظرثانی کی درخواست کی ہے لیکن وکیل صاحب کہتے ہیں کہ کامیابی کے زیادہ چانس نہیں ہیں۔ اسی پریشانی میں، میں سویا ہوا تھا تو سحری کے قریب ایک بزرگ خواب میں نظر آئے، وہ کہنے لگے پریشان نہ ہو، تم ایک وکیل اور انہوں نے ان کا نام سید محمد ظفر فرمایا، کو اپنا مقدمہ دے دو۔ اللہ کامیاب کرے گا۔ مجھے اب پتہ چلا کہ آپ کا نام ایس ایم ظفر ہے۔ اس لئے میں نے گستاخی کی اور آپ سے مل کر آپ کے نام کی تصدیق چاہی۔
میں نے ان کی گٹھڑی ان کے ہاتھ تھمائی اور کہا یہ خواب کی بات اپنی جگہ لیکن اس وجہ سے آپ کی رقم لینے کو تیار نہیں۔ یہ کہہ کر میں کورٹ روم میں اپنی نشست پر آ گیا۔ میرے پیچھے پیچھے وہ صاحب آئے اور اپنی گٹھڑی زاہد حسین کی نشست پر رکھتے ہوئے کہنے لگے، ہمیں حکم ہوا ہے کہ مقدمہ آپ کے سپرد کر دیں۔ ہم حکم عدولی نہیں کر سکتے لہٰذا آپ کی امانت آپ تک پہنچ گئی ہے۔ اب بشارت دینے والے بزرگ جانیں اور آپ جانیں۔ عجب مجبوری کا عالم تھا۔ میں کہاں دوبارہ ان صاحب کی تلاش میں باہر جاتا یا محض ان کے خواب کی داستان سن کر مقدمہ لے لیتا؟
دل میں کئی طرح کے وسوسے پیدا ہوئے لیکن جس یقین سے وہ گفتگو کر رہے تھے اور اپنی طرف سے رقم میرے حوالے کرنے پر یہ سمجھ رہے تھے کہ اب انہوں نے خواب میں دی ہوئی ہدایت پر عمل کر لیا ہے، اس کی وجہ سے کچھ ان سے ہمدردی سی بھی ہوگئی تھی۔
میں نے زیر بحث مقدمہ کا اندازہ لگایا تو معلوم ہوا کہ پہلے زیر سماعت مقدمے کی بحث اختتام پر پہنچ گئی ہے اور کسی وقت بھی عدالت اگلا مقدمہ جو کہ ان صاحب کی درخواست نظرثانی تھی کو بحث کے لئے بلا لے گی۔ گھبراہٹ میں زاہد صاحب سے کہا کہ ان کے زیر ریویو فیصلہ کی نقل تو پڑھنے کے لئے دیں۔ اگر کوئی نکتہ قابل بحث نظر آئے تو ان کے وکیل کی امداد کر دینا اور اگر نظرثانی کسی نکتہ پر قابل بحث قرار دے دی جائے اور فریق ثانی کو نوٹس جاری ہو جائے تو پھر ریویوٹیشن میں پہلے وکیل کی جگہ دوسرا وکیل پیش ہو سکے گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو یہ گٹھڑی ان کو ہر حالت میں واپس کر دینا۔ لیکن وقت کہاں تھا۔ مقدمہ زیر بحث میں وکیل کہہ چکے تھے کہ میں اپنی بحث مکمل کر چکا ہوں۔
اچانک یکے ازجج صاحبان نے وکیل محترم سے سوال کیا کہ آپ نے مقدمہ کے ایک پہلو پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ بس اب وہ سنہرا موقع ہمارے ہاتھ آیا، جس میں ہم نے نظرثانی کی درخواست اور فیصلہ پر سرسری نظر ڈالی۔ میں نے زاہد صاحب سے کہا کہ اس مقدمہ میں چند دستاویزات ہیں جن کا حوالہ تو فیصلہ میں دیا ہے لیکن ان دستاویزات کی تشریح پر عدالتی رائے نہیں آئی، اگر ان کو سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ یاد ہو جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی دستاویز کی صحیح تشریح نہ ہو تو نظرثانی ہو سکتی ہے۔
اللہ بھلا کرے زاہد حسین کا کہنے لگے وہ فیصلہ تو اتفاق سے وہ آج ہی PLDمیں پڑھ رہے تھے۔ میں نے کہا جلدی سے وہ حوالہ لائبریری سے منگوائیں اور ان کے وکیل کی اس بابت توجہ دلائیں۔ PLDکی کتاب آنے میں دیر ہو رہی تھی اور میں جج صاحبان اور وکیل کے درمیان سوال جواب سن رہا تھا جو بلا وجہ طوالت پکڑ رہے تھے۔ زاہد حسین نے کتاب (PLD) کے آنے سے پہلے تونسہ شریف کے وکیل کو بحث کے لئے اپنا نکتہ بتانا شروع کر دیا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جب زاہد حسین نے ان کو اپنی معاونت کرنے کا ذکر کیا تو وکیل محترم فطری طور پر ان کو سننے کے لئے تیار نہ ہو رہے تھے لیکن جب انہوں نے بھی سپریم کورٹ کی دستاویزات پر تشریح کے متعلق فیصلہ پڑھا تو وہ تیار ہو گئے۔ خدا خدا کرکے زیر سماعت مقدمہ کی بحث ختم ہوئی، جج صاحبان نے عدالت میں لگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا، عدالت کا وقت ختم ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا، جج صاحبان بھی تھکے تھکے لگ رہے تھے۔
تونسہ شریف کی نظرثانی کے وکیل مقدمہ کی آواز پر روسٹرم پر آئے اور وہی نکتہ ابتدائی بحث کے طور پر بیان کیا دو منٹ نہیں ہوئے اور جج صاحبان نے کہا "وکیل سائل نے اہم دستاویزات" کے اندراج کی تشریح پر اعتراض اٹھایا، نظرثانی بحث کے لئے منظور کی جاتی ہے"۔ (جاری ہے)