Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Allah Ki Allah Hi Jane (2)

Allah Ki Allah Hi Jane (2)

کہیں سے وہ گٹھڑی والے صاحب نمودار ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کرکے اور بشارت کے برحق ہونے کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں مبارکباد پیش کی ہم نے مقدمہ لے لیا۔ بقایا فیس بھی طے ہوگئی۔ پہلی بار اجنبی کا نام خواجہ غلام نظام الدین معلوم ہوا۔ وہ تونسہ شریف گدی کے صرف جانشین ہی نہیں تھے بلکہ خدمت گزار بھی تھے۔ غلام نظام الدین خود صوفی مزاج کے تھے اور غیبی امداد کے بے حد قائل تھے۔ دوران مقدمہ اور اس کی تیاری کے وقت ان کی روحانی معلومات اور قصے توجہ طلب رہے۔

نظرثانی منظور ہو جانے کے بعد یہ مقدمہ اسی سال سردیوں میں عدالت میں زیر بحث آ گیا۔ ہمارے مدمقابل وکیل جناب گل زریں کیانی سابق جج ہائی کورٹ تھے اور ہمارے ایسوسی ایٹ سید زاہد حسین اس عرصے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہو چکے تھے۔ ہم تو زاہد حسین کی اس تعیناتی کو ان کی قابلیت اور شرافت کی وجہ قرار دیتے تھے لیکن خواجہ صاحب اکثر کہتے تھے کہ اب بزرگوں کا ہاتھ ان کی (زاہد) پشت پر ہے۔ ابھی تو اور ترقی کریں گے۔

سید زاہد حسین کی جگہ چوہدری بشیر احمد ایڈووکیٹ نے سنبھال لی جو حال ہی میں سرکاری ملازمت(متروکہ وقف املاک کے سیکرٹری) سے فارغ ہو کر میرے ساتھ شریک سفر ہوئے تھے۔ یوں ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا۔ لیکن صوفی نظام الدین اور ان کے ایک ساتھی کو جنہیں وہ چاچا کہتے تھے اور ہم نے بھی ان کو انکل کہنا شروع کر دیا کا مقدمہ میں کامیابی پر پورا یقین تھا کہ ہمارے ذہن میں بھی کامیابی کا یقین پختہ ہوگیا۔

گل زریں ایڈووکیٹ ایک ذہین، محنتی اور مشکل حریف تھے، ان کے مقدمات کی تیاری کو احترام سے دیکھا جاتا تھا، انہوں نے اس مقدمہ میں خصوصی تیاری کر رکھی تھی۔ ابتدائی بحث میں انہوں نے ہمیں ایل بی ڈبلیو(LBW) کرنے کے لئے ایک ابتدائی عذر اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں تونسہ شریف کی جانب سے جو مختار نامہ پیش ہوا ہے اس میں مختار کو اپیل کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

گل زریں کتابوں کے انبار لے آئے تھے اور یہ ثابت کرنے میں تقریباً کامیاب ہو رہے تھے کہ سپریم کورٹ سے ہماری اپیل بمعہ نظرثانی اس نکتہ پر فارغ ہو جاتی کہ اپیل ہی ناقص اور ایسے فرد نے داخل کی ہے جسے اپیل کرنے کا اختیار نہ تھا۔ ان کے پیش کردہ نظائر کا عدلیہ پر مثبت تاثر واضح تھا۔

ہم نے عدالت سے بحث کے لئے وقت مانگا اور بار بار مختار نامہ کو پڑھا، اس میں واقعی اپیل کا کہیں ذکر نہ تھا۔ مقدمہ ہاتھ سے جاتا دکھائی دیتا تھا۔ صوفی صاحب دعائوں میں مصروف تھے لیکن انکل نے کہا کہ یہ دیکھیں مختار نامہ میں درج ہے کہ مختار عام کو مزار شریف کی جائیداد کے انتظام اور انصرام کا حق دیا گیا ہے۔

میں نے چوہدری بشیراحمد سے کہا مختار نامہ پر کالی سیاہی سے لفظ انصرام پر نشان لگائو لیکن انکل سے پوچھا کہ انتظام تو روز مرہ کے معاملات سے متعلقہ ہو سکتا ہے۔ انصرام بھی شائد اسی سے ہی منسلک ہو۔ انکل جو کسی حد تک عربی اور فارسی سے مانوس تھے اور مقدمہ کی تیاری کی تھکاوٹ کے دوران ہمیں فارسی، میں صوفی کلام سے محظوظ کرتے تھے، کہنے لگے "انصرام" کی علیحدہ حیثیت ہے۔

رات کے بارہ بج چکے تھے، سردی کی شدت بھی تھی میں نے کہا انصرام کے معنی کسی اچھی اردو ڈکشنری میں دیکھنے ہوں گے۔ صبح ہماری بحث تھی اور جج صاحبان نے مشکل سے ہمیں مہلت دی تھی۔ مزید التوا کی گنجائش نہیں تھی۔

میں نے کہا آئو ہم کسی کتابوں کی دکان میں اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ میریٹ ہوٹل کے کمرے جہاں ہم اس مقدمہ کی تیاری کر رہے تھے، بکھرے ہوئے کاغذات چھوڑ کر لابی میں آئے۔ میں نے چوہدری بشیر احمد سے کہا آپ لابی میں ہوٹل منیجر سے میرا نام لے کر کہیں کہ کسی ٹیکسی کو فوراً ہوٹل پہنچنے کے لئے فون کر دیں۔

چوہدری صاحب منیجر ہوٹل سے بات کہہ کے باہر آئے اور کہنے لگے کہ ٹیکسی کے آنے میں آدھا گھنٹے تک تاخیر ہو سکتی ہے یعنی آدھی رات ہو گزرے گی۔ کونسی دکان کھلی رہ سکتی ہے۔ چند منٹ ہی گزرتے تھے کہ ایک ٹیکسی ہوٹل کے دروازہ پر، جہاں ہم مایوس کھڑے تھے، رکی اور اس سے مسافر اتر رہے تھے۔ میں نے دوڑ کر ٹیکسی والے سے بات کی۔ میں، چوہدری بشیر احمد اور انکل گاڑی میں بیٹھے، سر پٹ سپر مارکیٹ روانہ ہوئے۔

"مسٹر بک" کی دکان پر پہنچے تو دیکھا کہ دکان بند ہے اگرچہ ایک صاحب شٹر کو تالہ لگا رہے ہیں۔ ان کو "مسٹر بک" کے مالک ڈاکٹر یوسف سے اپنی دوستی کا حوالہ دے کر دکان کھلوائی اور وہ اندر سے فیروز اللغات کا نیا ایڈیشن لے کر باہر آئے۔ ہم نے قیمت ادا کی اور شکریہ ادا کرکے دوبارہ ہوٹل آئے۔ "انصرام کے معنی پڑھے، میں نے نعرہ مارا، کام ہوگیا، انصرام کے معنی وسیع تر تھے۔ "ہر قدم اٹھانا" بھی اس میں شامل تھا۔

چوہدری صاحب نے بھی نعرہ مارا، یہ تو معجزہ ہوگیا ہے۔ صبح واقعی معجزہ ہوا۔ ابتدائی اعتراض مسترد ہوگیا اور زریں کیانی جو اپنے اس نکتہ ابتدائی پر پُرامید تھے، وہ میرٹ کی بحث میں کامیاب نہ ہو سکے۔ نظرثانی ہمارے مؤکل کے حق میں منظور کر لی گئی۔

خواجہ غلام نظام الدین سے ابھی تک تونسہ شریف کی زیارت کا وعدہ پورا نہ کر سکا تھا، وہ اکثر فون کرکے یاد دلاتے ہیں، ہم بھی کسی خواب یا بشارت کا انتظار کریں گے۔ (انشاء اللہ)۔ آج جب میں اس مقدمہ کے واقعات قلمبند کر رہا ہوں تو کئی سوالات میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔

1۔ خواجہ غلام نظام الدین کو خواب میں ایک بزرگ کا ان کو وکیل کرنے کی ہدایت اور یہ کہ وکیل کا نام سید محمد ظفر ہوگا جو کہ میرے والدین نے میرا نام درج کرایا تھا اور اسی نام سے میرا شناختی کارڈ بنا ہے لیکن میری وکالت کی شہرت تو ایس ایم ظفر کے نام سے ہوئی تھی۔ خواب میں بزرگ نے غلام نظام الدین کو میرا بطور وکیل کے معروف نام کی بجائے، میرے پیدائشی نام کا حوالہ کیسے دیا؟

2۔ پھر خواجہ غلام نظام الدین مجھ تک اسی دن کس طرح پہنچے، جب ان کی نظر ثانی عدالت کے سامنے لگی ہوئی تھی۔

3۔ یہ بھی عجیب واقعہ تھا کہ نہ پہلے کوئی علیک سلیک نہ واقفیت لیکن ایک خطیر رقم ایک سائل میرے حوالے کر جاتا ہے جسے یہ بتا دیا گیا تھا کہ میں مقدمہ میں پیش نہیں ہو سکتا۔

4۔ میرے لئے آج یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ جو مقدمہ زیر بحث تھا اور جس میں وکیل محترم یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بحث مکمل کر چکے ہیں وہ اچانک طوالت کیوں پکڑ جاتا ہے اور میرے ایسوسی ایٹ کو مہلت مل جاتی ہے کہ وہ متعلقہ PLDحاصل کر لے جس پر نظرثانی برائے بحث منظور ہو جانی ہے۔

5۔ ٹیکسی کا انتظار تھا اور ٹیکسی خود سامنے آ جاتی ہے۔ یہ اتفاقیہ تھا یا کوئی قوت اسے موقع پر لے آئی تھی۔ یہ ایک الجھن ابھی تک حل نہیں ہو سکی۔

6۔ نہ صرف ایک ہاری ہوئی اپیل سنی گئی بلکہ منظور ہوئی، نچلی عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیے گئے اور غلام نظام الدین کا نظرثانی کی درخواست کے منظور ہونے کے بعد کہنا کہ سید زاہد حسین کو اب بزرگوں کی حمایت حاصل ہے وہ مزید ترقی کریں گے۔ الحمد للہ، درست ثابت ہوئی۔ زاہد حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے بلکہ سپریم کورٹ کے جج بھی رہے۔

7۔ یہ کہ گل زریں ایڈووکیٹ کو اپنے ابتدائی اعتراض کے منظور ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ان کی میرٹ پر تیاری نامکمل تھی جس کی وجہ سے وہ اکھڑے اکھڑے رہے اور کامیاب نہ ہوئے۔

جب ان تمام سوالوں کی سیریل میرے ذہن میں چلتی ہے تو سوائے اس کے اور کیا کہوں کہ اللہ کی اللہ ہی جانتا ہے۔ (ختم شد)