Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aqal Kul Aor Har Fun Mola

Aqal Kul Aor Har Fun Mola

اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترنے کی درفنطنی چھوڑنے والے صحافی ایوی شراف کا شکریہ کہ اس نے ہمارے فارغ بیٹھے سیاستدانوں، دانشوروں اور سوشل میڈیا کے مجاہدین صف شکن کو چوبیس گھنٹے مصروف رکھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ حکومت کے مخالفین نے بات کا بتنگڑ بنایا اور قوم کا وقت ضائع کیا یا حکومتی ترجمانوں نے جھوٹ بولا؟ اس معاملے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ بیرون ملک بیٹھا کوئی بھی شخص سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سطح پر انتشار پھیلا سکتا ہے قرآن مجید نے خبر کو تصدیق کے بغیر آگے بڑھانے سے منع کیا اور رسول اکرم ﷺ نے منافق کی ایک نشانی یہ بھی بتلائی کہ وہ سنی سنائی باتوں کو بلا تصدیق پھیلاتا ہے مگر ہم کلمہ گو اور عشق رسول ﷺ کے دعویدار کبھی پروا نہیں کرتے۔ موجودہ حکمران سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بل بوتے پر مقبول ہوئے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے البتہ ان دنوں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے برگشتہ اور سوشل میڈیا کو امرت دھارا سمجھتے ہیں مگر اسرائیلی طیارے کے واقعہ نے سوشل میڈیا کی قلعی کھول دی اور باور کرایا کہ یہ کتنا بڑا فتنہ ہے جبکہ ریگولر میڈیا بالخصوص پرنٹ میڈیا اتنی جلدی ایوی شراف کے فریب کا شکار ہوتا نہ بغیر تصدیق اس خبر کو آگے بڑھاتا۔ چند برس قبل یو ٹیوب نے گستاخانہ مواد پھیلانا شروع کیا تو پاکستان نے اس پر پابندی لگا دی، حکومت کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ یوٹیوب اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف گستاخانہ مواد نہ پھیلانے کی یقین دہانی کرائے مگر ذات رسالت مآب ﷺ سے مسلمانوں کے تعلق کی نزاکت اور حساسیت سے بے خبر ایک طبقہ نے پابندی کی مخالفت کی۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف عالم اسلام میں آواز بلند ہوئی تو یہی طبقہ اظہار رائے کی آزادی کا علم لے کر کھڑا ہو گیا۔ بھلا ہو آسٹریلوی عدالت کا جس نے ایک گستاخ رسول خاتون کو سزا سنائی اور عدالت انصاف نے اپیل پر یہ فیصلہ برقرار رکھا۔ فیصلے میں لکھا کہ " آزادی اظہار رائے کا دائرہ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور مقدس شخصیات کی گستاخی تک وسیع نہیں، یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ جس کی اجازت کوئی مذہب، شخص اور ادارہ نہیں دے سکتا۔"چین نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا کر اپنی قوم کو امریکہ و یورپ کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور اندرون ملک فسادی عناصر کے شر سے محفوظ رکھا۔ چین نے فیس بک، ٹوئیٹر اور واٹس ایپ کے متبادل سے عوام کو ذہنی تفریح کا موقع فراہم کیا جبکہ ہم مغرب کے اندھے مقلد، اظہار رائے کے مادر پدر آزاد تصور کے ہاتھوں اپنے لیے گڑھا کھودنے، پوری قوم اور ریاست کے گرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ قوم بالخصوص نوجوان نسل کی تربیت کا خیال نہ سوشل میڈیا کے مضر پہلوئوں کی نگرانی کا اہتمام اور نہ فسادی عناصر سے نمٹنے کی کوئی تدبیر۔ ایوی شراف نے شرارت کی جو کامیاب رہی کل کلاں کو اس سے بڑی شرارت ہو گی اور ہم سر پیٹتے رہ جائیں گے۔ ورنہ یہ کامن سینس کی بات تھی کہ کسی اسرائیلی شخصیت کو پاکستان کی اہم ہستی سے ملنا ہو تو وہ استنبول، قطر اور دبئی میں بآسانی مل سکتی ہے، اسے اسرائیلی جہازمیں پاکستان آنے اور کسی کو یہاں بلانے کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اسرائیلی وزیر خارجہ سے استنبول میں ملے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی مگر یہاں سوچنے کی فرصت کسے؟ سوشل میڈیا کی اس حشرِ سامانی کا مزہ چکھنے کے بعد حکومت بالخصوص وزارت اطلاعات و نشریات کو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے خلاف اپنے معاندانہ طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کے علاوہ ان عناصر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے جو حکومت سے اپنا حساب چکتا کرنے کے لیے بنگالیوں کی ریشہ دوانیوں میں مددگار ہیں اور قومی مفاد کو دائو پر لگانے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ یہی عناصر آزمودہ دوست چین اور سی پیک کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے میں پیش پیش ہیں اور چینی قیادت بار بار وضاحتوں پر مجبور ہے۔ پاک چین تعلقات کے حوالے سے معروف سفارت کار سلطان محمد خان نے اپنی کتاب "چمن پہ کیا گزری" میں ایک دو واقعات ایسے بیان کیے ہیں جو آپ بار بار پڑھنے اور حرز جان بتانے کے قابل ہیں، مگر دورہ چین کی تیاریوں میں مصروف حکمرانوں کو کتاب پڑھنے کی فرصت نہ سنجیدگی سے کچھ سوچنے کی توفیق، سلطان محمد خان لکھتے ہیں " پاکستان کی تازہ فوجی ضروریات کے بارے میں گفتگو کے دوران وزیر اعظم چواین لائی کے مترجم نے ان کے الفاظ کا ترجمہ اس طرح کیا"ہم ممکنہ طریقے سے مدد کریں گے" چواین لائی نے مترجم کو ٹوک دیا اور کہا "نہیں نہیں مدد نہیں، بلکہ تعاون، کبھی امداد کا لفظ استعمال مت کرنا، ہم کون ہیں جو مدد کریں، ہم کوئی بڑی طاقت نہیں " چو نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا چین کی قیادت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دوست ممالک کو چین جو کچھ بھی دیگا اس کا ریکارڈ نہ رکھا جائے تاکہ آئندہ نسلیں ایسے دوست ممالک کے ساتھ رعونت سے پیش نہ آئیں "۔ نومبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو، چواین لائی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سلطان محمد خان لکھتے ہیں "گفتگو کے بعد بھٹو نے لقمہ دیا کہ وہ عنقریب وزیر اعظم ہونے والے ہیں جس کے بعد وہ پاکستان میں سوشلسٹ اقتصادیات و معیشت رائج کریں گے۔ چواین لائی نے حیرت زدہ ہو کر کہا کہ جب ان کی پارٹی نے چین میں سوشلزم کو رائج کیا تو چین کی صنعتی بنیادیں پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم تھیں پھر بھی ان کو بے شمار مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان نئے مسائل پیدا کرنے سے گریز کریگا۔ بھٹو کو صلاح دی کہ پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ بھٹو کو یہ مشورہ گراں گزرا مہمان خانے کی طرف جاتے ہوئے کہا "چواین لائی بھلا پاکستان کے بارے میں کیا جانیں "بھٹو چینی وزیر اعظم کے دانشمندانہ مشورے کو مان لیتے اور تعلیم و صنعت کی نیشنلائزیشن کا تباہ کن اقدام نہ کرتے تو آج شائد پاکستان سنگا پور اور ملائشیا سے بہتر حالت میں ہوتا۔ چواین لائی نے ایک مشورہ یحییٰ خان کو بھی دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کا سیاسی حل مگر وہ بدمست فوجی آمر کے پلے نہ پڑا جبکہ سلطان محمد خان کے بقول صدر لیو شائوچی نے 1966ء میں مشرقی پاکستان میں بدترین حالات کی خبر دی اور وزیر خارجہ چن ژی نے 1970ء کے اواخر میں بھارتی مداخلت کی پیش گوئی کی جو پاکستانی قیادت کے پلے نہ پڑی لیو شائو چی ایوب خان کے خلاف مہم جوئی کو پاکستان اور چین کے خلاف امریکی ریشہ دوانی سمجھتے اور مشرقی و مغربی پاکستان میں موجود ملک دشمن عناصر سے خبردار کرتے رہے مگر ہم نے ایک نہ سنی۔ ہمارے دوست رئوف طاہر گزشتہ روز بتا رہے تھے کہ چند ماہ قبل بیجنگ سے واپسی فلائٹ میں ان کے شریک سفر ایک باوردی اہلکار مسلسل امریکی عقل و دانش، دفاعی ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کاورد کرتے اور چینیوں کو محض نقال قرار دیتے رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان دورہ بیجنگ میں چینی قیادت سے صرف معاشی پیکیج طلب کرتے ہیں یا چینی قیادت کی دانش و بصیرت سے رہنمائی لیتے اور ترقی و خوشحالی کا وہ فارمولا مانگتے ہیں جس نے چند عشروں میں ایک افیونی قوم کو اقوام عالم کی پہلی صف میں لاکھڑا کیا، جس کی تیز رفتار ترقی دنیا کے لیے حیرت انگیز ہے۔ عمران خان کے ہمراہی چاہیں تو چین سے سوشل میڈیا کے مفاسد سے بچنے کی ترکیب معلوم کر سکتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے مگر اس کی اُمید کم ہے کیونکہ ہمارے سیاسی رہنما اپنے آپ کو عقل کل سمجھیں نہ سمجھیں ان کے خوشامدی مشیر اور حاشیہ نشین انہیں ہر فن مولا باورکرا دیتے ہیں ایوی شراف نے مگر گزشتہ روز ہماری سیاسی و صحافتی اشرافیہ کی عقل و دانش کاپردہ چاک کیا۔ کاش ہم چین سے کچھ سیکھ سکتے۔