مولانا فضل الرحمن پھر برہم ہیں، صرف حکومت نہیں، اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پر بھی۔ کل انہوں نے یہ راز افشا کیا کہ ان سے وزیر اعظم سمیت تین استعفوں کا وعدہ کیا گیا تھا جو قانون سازی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے غیر مشروط تعاون کے باعث ایفا نہ ہوا۔ وعدہ کس نے کیا تھا اور ضامن کون ہے؟ کسی نے پوچھا بھی تو مولانا نے بتایا نہیں، البتہ چودھری پرویز الٰہی سے فرمائش ضرور کی کہ وہ ان کے حوالے سے جو امانت سینے میں لئے پھرتے ہیں اسے اب افشا کریں۔ مولانا کا دھرنا ختم ہوا تو اپوزیشن جماعتوں اور ہمنوا میڈیا نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ عمران خان کی حکومت اب چند دنوں کی مہمان ہے، مولانا کو یقین دہانی کرا دی گئی ہے 31دسمبر سے قبل عمران خان کی حکومت ختم اور دو دیگر طاقتور افراد بھی مستعفی، نئے انتخابات ہوں گے جس میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت نمایاں کامیابی حاصل کرے گی۔ میری طرح کے جن لوگوں نے ان افواہوں سے اختلاف کیا، انہیں بے خبری کا طعنہ ملا، 31۔ دسمبر تک انتظار کرنے کو کہا گیا، 31۔ جنوری بھی گزر گئی، حکومت اپنی جگہ برقرار ہے اوروزیر اعظم تو کیا کسی دوسرے یا تیسرے طاقتور فرد کا استعفیٰ نہیں آیا۔ اپوزیشن میں البتہ پھوٹ پکڑ چکی ہے، دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے، رہبر کمیٹی کہیں نظر نہیں آتی اور مولانا مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کا نام سننے کے روادار نہیں کہ ان جماعتوں نے مولانا کو دھوکہ دیا اور ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔
عمران خان کے لئے اپوزیشن پہلے بڑا چیلنج تھی نہ اب ہے، مولانا فضل الرحمن نے متحدہ اپوزیشن تشکیل دے کر جو بلف کھیلا اس کا فائدہ بھی شریف اور زرداری خاندان کو ہوا مولانا کے حصہ میں صرف وعدہ فردا آیا۔ مولانا کی نئی تحریک کا انجام بھی شائد اکتوبر والی تحریک سے مختلف نہ ہو:
تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلا لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق، گئے، وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
مگر عمران خان اور ان کے ساتھی اپوزیشن کے انتشار اور مولانا کی احتجاجی تحریک کی ناکامی کو اپنی کامیابی سمجھیں، یہ خوش فہمی ہے۔ انسان دوسروں کی غلطیوں نہیں اپنے حسن عمل کے سہارے جیتا اور آگے بڑھتا ہے، اپوزیشن کی غلطیوں کو اچھال کر عمران خان نے انتخاب جیت لیا اور اقتدار حاصل کیا۔ کامیاب حکمرانی کے لئے وہ اپنی اور اپنی ٹیم کی اہلیت و صلاحیت اور احسن کارگزاری کے محتاج ہیں، گورننس سب سے بڑا چیلنج ہے اور مہنگائی و بے روزگاری ناقص طرز حکمرانی کے انڈے، بچے۔ جب تک عمران خان اور ان کے اہالی موالی گورننس کو اولیں ترجیح نہیں سمجھتے، ہر سطح پر اچھی حکمرانی کا بندوبست نہیں کرتے، مافیاز کا مقابلہ ممکن ہے نہ عوام کو مطمئن کرنا آسان۔
وفاقی اور دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی کابینہ کی مثالی کارکردگی عوام کے سامنے ہے، اپوزیشن نے رکاوٹیں ڈالیں، مافیاز نے قدم قدم پر روڑے اٹکائے اور تاجر برادری و بیورو کریسی کے ایک بڑے حصے کو استعمال کیا مگر ان پہاڑ جیسی رکاوٹوں کا ادراک، ان سے نبردآزما ہونا کس کی ذمہ داری تھی؟ ادارہ جاتی اصلاحات کس کا درد سر تھا؟ ڈاکٹر عشرت حسین کی کمیٹی نے تین ماہ کا کام سترہ مہینے تک کیوں لٹکائے رکھا اور بار بار ردوبدل سے بیورو کریسی میں بے یقینی کی کیفیت کس نے پیدا کی؟ آٹے اور چینی کے مصنوعی بحران میں کپتان کے اپنے قریبی ساتھیوں کا کوئی کردار تھا یا نہیں؟ ان سوالات کا جواب وزیر اعظم کے ذمے ہے جو فی الحال اپوزیشن مانگ رہی ہے، بالآخر عوام مانگیں گے۔ ڈیڑھ سال بعد وزیر اعظم نے مہنگائی پر فوکس کیا ہے دیر آید درست آید لیکن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط مانتے وقت وزیر اعظم کی ٹیم کو یہ احساس کیوں نہ ہوا کہ مہنگائی کا طوفان آئے گا اور معیشت کی سست روی، قوم کی چیخیں نکلوا دے گی۔ ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں، سمگلروں اور ان کے سرپرست بیورو کریٹس و سیاستدانوں سے چشم پوشی کا سبب کیا تھا؟ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ یقینا وزیر اعظم کو مل چکی ہو گی، حقائق منکشف ہونے کے بعد عوام ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے منتظر ہیں جو بلا امتیاز و بلا تفریق ہو اور چھوٹی مچھلیوں نہیں، بڑے بڑے مگرمچھوں کے خلاف کہ یہ عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کا بنیادی نکتہ رہا اورریاست مدینہ کا طرہ امتیاز۔
مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور جنوری میں حکومت کے اتحادیوں کے علاوہ تحریک انصاف کے اندر اضطراب و بے چینی میں کوئی ربط اور تال میل تھا یا نہیں؟ پتہ چلانے کی سنجیدہ کوشش ہوئی تو عمران خان کی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہو گا اور وہ کمیں گاہ کی طرف دیکھیں گے تو ان کی اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حکومت فوری خطرات سے دوچار ہے اور تیس سال تک لوٹ مار میں مصروف افراد اور خاندان ایک بار پھر اس بدقسمت قوم کی گردن پر سوار ہونے والے ہیں۔ میرا خیال ہے نہیں، بالکل نہیں، مہنگائی کے خاتمے کے لئے عمران خان کو جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں وہ ثمر بار اس صورت میں ہو سکتے ہیں کہ سخت مانیٹرنگ کا تسلی بخش نظام وضع کیا جائے۔ رجسٹرڈ تنوروں کو سستے آٹے کی فراہمی، یوٹیلیٹی سٹورز کے علاوہ پرچون دکانوں پر گھی، دالیں، چینی، چاول دیگر اشیائے خورو نوش کی سستے داموں فروخت کے لئے پندرہ سولہ ارب روپے کی سب سڈی احسن اقدام ہے لیکن موجودہ انتظامیہ سے خیر کی اُمید رکھنا خود فریبی ہے۔ شہباز شریف کے دور میں سرکاری سرپرستی میں سستے تندوروں کا تجربہ ناکام رہا اور یوٹیلیٹی سٹورز گزشتہ کئی عشروں سے قومی خزانے پر بوجھ ہیں، میری رائے میں عمران خان ہمت کریں مانیٹرنگ کے لئے فوجی جوانوں کی خدمات حاصل کرلیں تاکہ یہ پندرہ سولہ ارب روپے واقعی مہنگائی میں کمی کے لئے استعمال ہوں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح افسروں اور ان کے لاڈلے سرکاری اہلکاروں کی جیبیں بھرنے کے لئے نہیں۔ ہماری بیوروکریسی قومی دولت کو حلوائی کی دکان سمجھ کر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کی عادی ہے۔ وسیع تجربہ رکھتی ہے اور حکمرانوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتی، خان صاحب کے جن ساتھیوں نے آٹے اور چینی کے بحران میں دیہاڑی لگائی وہ اب پیچھے کیوں رہیں گے کہ مہنگائی کے خاتمے کی سکیم بلی کے بھاگوں، چھینکا ٹوٹا، بہتی گنگا میں اشنان کیوں نہ کریں۔ ایک اندیشہ ہے، اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں کمی کے اقدام کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے ناکام بنا دیا جائے گا، نیکی برباد گناہ لازم۔ حکومت اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کمی اور بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ موجودہ سطح پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو ساری سازشی کہانیاں دم توڑ دیں گی، یہی عمران خان کا اصل امتحان ہے۔