Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Baat Chal Nikli Hai (3)

Baat Chal Nikli Hai (3)

شاہ محمود قریشی کی جنرل اسمبلی میں تقریر سن کر صرف وہ مایوس ذہن لوگ جل بھن کر رہ گئے پاکستان سے جو متنفر ہیں، قومی زبان اردو جنہیں بھاتی نہیں اور بھارت کی بدخوئی سن کر جن کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ عام پاکستانی خوش ہے اور طویل عرصہ بعد وہ اپنے آپ پر، اپنی پاکستانی شناخت اور قومی زبان پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اقوام عالم کو باور کرایا کہ "ہم "بھی مُنہ میں زبان رکھتے ہیں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔ گونگے ہیں نہ اظہار کے سلیقے سے محروم۔ وہ زمانے لد گئے جب بھارتی حکمران اقوام عالم کے سامنے جھوٹ بولتے، ہمیں لتاڑتے اور ہم آئیں بائیں شائیں کر کے رہ جاتے۔ عوامی جمہوریہ چین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر سینئر صحافیوں کے ایک وفد کو رنگا رنگ تقریبات میں مدعو کیا گیا۔ جناب الطاف حسن قریشی، رحیم اللہ یوسفزئی، نصرت مرزا، صدیق بلوچ مرحوم اور کئی دوسرے سینئر صحافی وفد کا حصہ تھے۔ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں ہماری گائیڈ اور ترجمان لی فنگ انگریزی میں ترجمانی کے فرائض انجام دیتی۔ ایک سے زائد مرتبہ میزبانوں نے گلہ کیا کہ پاکستانی وفود چین آمد پر اردو زبان کو ذریعہ اظہار کیوں نہیں بناتے جبکہ بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم ہے اور وہاں پڑھنے پڑھانے والے طلبہ و اساتذہ کی یہ خواہش رہتی ہے کہ انہیں ترجمانی کا موقع ملے، ایک تو اپنے دوست ملک پاکستان کے سرکاری حکام، صحافیوں، دانشوروں اور صنعتکاروں و تاجروں سے تبادلہ خیال کر سکیں دوسرے ان کی اردو بولنے اور سمجھنے کی استعداد میں اضافہ ہو۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سن کر شرمندگی ہوتی اور یہ شرمندگی مزید بڑھ جاتی جب وزیر خارجہ سطح کے لوگ بھی ہمارے وفد میں شامل منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے والے صحافیوں کے کسی سوال کا جواب انگریزی میں دینا گوارا نہ کرتے اور اپنی قومی زبان میں ترجمان کے ذریعے ہم سے مخاطب ہوتے۔ یہ غالباً عظیم چینی رہنما مائوزے تنگ کا قول ہے کہ "چینی ایک عظیم زبان ہے اور ہم گونگے نہیں " مائو کے ساتھی چو این لائی مغربی جامعات کے تعلیم یافتہ تھے مگر انہوں نے کبھی انگریزی میں اظہار خیال نہیں کیا۔ یہی حال عربوں، فرانسیسیوں، جرمنوں، ایرانیوں اور روسیوں کا ہے۔ برصغیر میں غلامانہ خو غالب ہے اور ہم اپنی زبان، اپنے لباس اور اپنی ثقافت حتیٰ کہ عقیدے کے بارے میں بھی احساس کمتری کا شکار ہیں، ورنہ دنیا عربی، فارسی، اردو، ہندی غرض دنیا کی ہر زبان سمجھتی ہے۔ برسوں تک ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے جنرل اسمبلی میں اپنی انگریزی دانی سے امریکی اور یورپی رہنمائوں کو متاثر کرنے کی بھونڈی کوشش کی مگر کسی نے ان کی بات پر کان نہ دھرے۔ انہی دنوں نریندر مودی اور سشما سوراج گنجلک ہندی میں اظہار مافی الضمیر کرتے رہے۔ کوئی معترض ہوا نہ بدمزہ اور نہ ان کی انگریزی سے عدم واقفیت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ نریندر مودی سے پہلے بھارتی وزیر اعظم دیوی گوڑا بھی ہندی میں اظہار خیال پر داد پا چکے، مگر ہمارے کسی حکمران نے سبق نہ سیکھا۔ اقوام عالم کے نمائندے جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل میں کسی رہنما کی خطابت سے حظ اٹھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں نہ انگریزی دانی کے اضافی نمبر دینے کے لیے تقریر توجہ سے سنتے ہیں۔ انسان کا درست موقف ہی دوسرے کو متاثر کرتا ہے اور سچائی موقف کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ کشمیر، دہشت گردی اور دیگر کور ایشوز پر پاکستان کا موقف بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط اور قابل فہم ہے۔ بھارت کو ایک فیصد بھی یقین ہو کہ وہ ان ایشوز پر پاکستان کے موقف کو جھٹلا کر عالمی ہمدردیاں حاصل کر سکتا ہے تو وہ میز پر آنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور شدہ قرار دادوں سے وہ ہمیشہ بھاگا۔ جب ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں نے بھارت کو عظیم ریاست، عظیم معیشت اور عظیم دماعی قوت سمجھ کر برادر خورد کا طرز عمل اختیار کیا، بھارتی حکمرانوں کا دماغ خراب ہو گیا۔ وہ ہم سے روائتی برادر خورد کا سلوک کرنے لگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سگ باش برادر خورد مباش۔ پاکستان کے تن آسان، نالائق اور مرعوب حکمرانوں کو باور یہ کرایا گیا کہ سوویت یونین اقتصادی و معاشی کمزوری کی وجہ سے ٹوٹ گیا لہٰذا پاکستان بھی پوری توجہ معیشت پر دے جو بھارت کی بالادستی قبول کئے اور مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھے بغیر ممکن نہیں۔ حالانکہ سوویت یونین امریکی گماشتے گوربا چوف کی بزدلی اور کم ہمتی کے سبب ٹوٹاورنہ 1988ء میں اس کے ایٹم بم روئی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے نہ کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوا نہ کھیت اجڑے اور نہ محنت کش روسی عوام نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ گوربا چوف کی ہمت جواب دے گئی تو سپر پاور خاک کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر کو بعض دانشور اپنے عوام کو خوش کرنے کی سیاسی کاوش قرار دے کر یہ تاثر دینے کی سعی فرما رہے ہیں کہ وہ سفارتی حلقوں کو متاثر کرنے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہے۔ یہ عجیب و غریب منطق ہے۔ اگر کوئی وزیر خارجہ اپنی قوم کے جذبات و احساسات کو عالمی فورم پر اجاگر اور قومی موقف الفاظ چبائے بغیر بیان کرتا ہے وہ معاملات بھی دلیری سے اٹھاتا ہے جنہیں منہ پر لانے سے ماضی کے حکمران شرماتے لجاتے اور چپ رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے، تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی باضمیر شخص متاثر نہ ہو۔ بھارت کی دریدہ دہنی اور پاکستان دشمن بیانئے کا ترکی بہ ترکی جواب دینا آخر رائیگاں کیسے جائے گا اور بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر اقوام پاکستان کے بارے میں اپنی رائے پر نظرثانی کیوں نہیں کریں گی؟ بالخصوص وہ اقوام جو ہماری خاموشی کو نیم رضا یا اعتراف جرم سمجھ کر بھارتی غلط بیانی پر یقین کر بیٹھی تھیں۔ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی اور کلبھوشن نیٹ ورک کا ذکر کرکے شاہ محمود قریشی نے یہ باور کرایا کہ خطے میں بدامنی کا ذمہ دار بھارت ہے اور وہ پاکستان کے علاوہ جموں و کشمیر میں اپنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے منفی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ میرے خیال میں شاہ محمود قریشی نے ماضی کے حکمرانوں اور ریاست کی طرف سے کفارہ ادا کیا یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام اور حریت کانفرنس کے قائدین اس تقریر سے خوش ہیں اور سید علی گیلانی نے یہ کہہ کر پاکستانی وزیر خارجہ کی تعریف کی کہ پاکستان نے کشمیریوں کے محسن ہونے کا حق ادا کر دیا البتہ پاکستان میں بھارت کے شردھالو پریشان ہیں۔ طویل عرصے بعد پاکستان عالمی برادری کے سامنے بھارت کے بخیے ادھیڑ رہا ہے اور بھارتی حکمرانوں میں بات سننے کا یارا نہیں۔ یہ عمران خان کی پراعتماد شخصیت اور جرات مندانہ انداز فکر کا اعجاز ہے، بہتر بلکہ مثالی سول ملٹری تعلقات کا نتیجہ یا امریکہ سے کلیتاً مایوس پاکستان کی ہر چہ بادا بادحکمت عملی کا شاخسانہ؟ وجہ کچھ بھی ہو پاکستان اس حد تک تو بدل چکا کہ اس کا وزیر خارجہ اب سشما سوراج کے سامنے بچھا جا رہا ہے نہ وزیر اعظم اپنے ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کے لیے بے تاب اور نہ دفتر خارجہ گونگا بہرا۔ جو قوم اپنے آپ کو گونگا سمجھنے سے انکار کر دے اسے سچ بولنے اور کھری کھری سنانے سے کون روک سکتا ہے؟ آج بھارت نہیں روک پایا، کل شائد امریکہ بھی:بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے