Bakamal
Irshad Ahmad Arif102
ہفتہ رفتہ کراچی اور کوئٹہ میں گزرا۔ تجاوزات کے خاتمے کی مہم سے کراچی بے چین و مضطرب ہے اگر یہ مہم قبضہ مافیا کے خلاف چلتی، گلیاں اور سڑکیں اپنی اصل حالت میں بحال ہوتیں اور غریب و متوسط طبقے کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا تو ہر طبقہ فکر خیر مقدم کرتا۔ ابتدا میں مہم کا نشانہ قبضہ گروپ بنا مگر پھر سیاسی مخالفین زد میں آگئے۔ کراچی میں یہ تاثر عام ہے کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور سندھ حکومت کے ارباب اختیار اپنے اپنے مخالفین سے 2018ء کے انتخابات میں بے وفائی کا بدلہ لے رہے ہیں۔ ایک گلی میں اگر دکانیں اورتھڑے مسمار ہو رہے ہیں اور دوسری گلی میں برقرار تو کون مہم کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ قرار دے گا۔ رہائشی آبادیوں میں تھڑے کے ساتھ اگر دیوار بھی گرا دی جائے تو کون داد دے سکتا ہے جبکہ گرائی جانے والی بلڈنگوں کا ملبہ موقع پر پڑا ٹریفک جام کا باعث بن رہا ہے۔ پیپلز پارٹی، سندھ حکومت اور ایم کیو ایم تجاوزات کے خلاف اس مہم کا ذمہ دار وفاقی حکومت اور عدالت عظمیٰ کو قرار دے کر مہر بلب ہیں اور تحریک انصاف ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہے۔ خاموشی سے ایک پیغام متاثرین کو دیا جا رہا ہے کہ "بھائی" کے دور میں لوگوں کو بے روزگار کرنے کی ایسی مہم چل سکتی تھی نہ غریب کو گھر سے بے گھر کرنے کی کسی کو جرأت۔ بے عیب منصوبہ بندی اور موثر نگرانی سے مہم کو ہر لحاظ سے مفید اور نتیجہ خیز بنایا جا سکتا تھا مگر اس طرف دھیان کسی نے نہیں دیا اور صنعتی و معاشی دارالحکومت میں پیدا ہونے والی بے چینی کا احساس تاحال مفقود۔ کوئٹہ پرسکون ہے۔ اتحادی حکومت کرپشن اور بدانتظامی پر قابو پانے کی سعی و تدبیر کررہی ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرنے والی قوتیں حکومت کا بھر پور ساتھ دے رہی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) اور مخلوط حکومت میں اختلاف رائے کی جو خبریں قومی میڈیا کی زینت بنتی ہیں وہ کسی بحران کا پیش خیمہ نہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر ظہور بلیدی کے مابین سپیکر ہائوس کا تنازعہ ختم ہو چکا ہے اور جناب سپیکر جب چاہیں سپیکر ہائوس میں شفٹ ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ جام کمال وفاق پرست سیاسی خاندان کے چشم و چراغ اور دیانت دار شخص ہیں، وزیر اعلیٰ ہائوس میں ان کا بچپن گزرا اور یہاں پل بڑھ کر جوان ہوئے، وفاقی وزیر مملکت کے طور پر اچھی شہرت کمائی اور روایتی سرداروں والی خوبو، ان میں نہیں۔ انہیں شدت سے احساس ہے کہ بلوچستان کے وڈیروں نے اپنی نااہلی، عوام دشمنی اور کرپشن کے سبب صوبے کو اس حال تک پہنچایا کہ اب پینے کا پانی دستیاب ہے نہ روزگار اور تعلیمی و طبی سہولتوں کے لئے وسائل۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا خوشدلانہ تعاون انہیں حاصل ہے اور اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں تعلیم مکمل کر کے بلوچستان واپس آنے والے نوجوانوں کی کمک بھی، جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی محرومیوں کا ذمہ دار اقتدار و وسائل پر قابض وڈیروں اور امریکہ و بھارت کے آلہ کار قوم پرست باغیوں کو سمجھتے اور ان سے نمٹنے کی تدبیریں سوچتے ہیں۔ کوئٹہ کی صحافت دو طرفہ دبائو میں ہے علیحدگی پسند اور باغی آزاد منش اور وفاق پرست صحافیوں کی جان کے درپے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں تو دہشت گرد علیحدگی پسند گروپ نے اخبارات کی تقسیم ناممکن بنا دی تھی جو کمانڈر سدرن کمانڈ اور آئی جی ایف سی کی کوششوں سے ممکن ہوئی جبکہ صوبائی حکومت کا مالی بحران صحافیوں کے لئے بے روزگاری کا باب واکر رہا ہے۔ جس صوبے میں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار اور علیحدگی پسندوں، دہشت گردوں اور باغیوں کی مار دھاڑ کی وجہ سے معطل ہوں وہاں میڈیا سرکاری اشتہارات پر انحصار کر سکتا ہے۔ ریاستی ادارے وفاق اور صوبے میں اعتماد کی بحالی اور اقتصادی و معاشی شعبے کی فعالیت وبہتری کے لئے کوشاں ہیں۔ کوئٹہ میں خوف کی وہ کیفیت نظر نہیں آتی جس کا اڑھائی تین سال پہلے بلوچستان میں راج تھا۔ رات کو شہر میں گھومتے ہوئے ہمیں کسی نے احتیاط کا مشورہ نہیں دیا، کوئٹہ کی پروازوں میں مسافروں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور فراریوں کے بڑے کمانڈر اہم سول و فوجی شخصیات سے رابطوں میں مصروف ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ بڑھا اور آواران و خضدار جیسے ماضی کے شورش زدہ علاقوں میں امیدواروں نے کھل کر انتخابی مہم چلائی، چند سال قبل جن تعلیمی اداروں میں پاکستان کا نام لینا جرم تھا، اب وہاں سبز ہلالی پرچم لہراتا اور اسمبلی میں ہر روز قومی ترانہ پڑھا جاتاہے۔ بلوچستان کو خشک سالی سے بچانا، تعلیم و صحت کے اداروں کو فعال، روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت اور فوج کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ وفاق سے ملنے والے مالیاتی وسائل اگر دیانتداری سے خرچ ہوں، جام کمال انتظامیہ کو خدمت خلق پر آمادہ کر سکیں، سرمایہ کاروں کو حقیقی تحفظ ملے اور جاری منصوبے تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھیں تو اگلے سال بلوچستان میں تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہوں گے، کیونکہ زمین زرخیز ہے، حالات سازگار ہیں اور سیاسی موسم خوشگوار۔ عمران خان ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے محروم، مظلوم اور کمزور طبقات کو بھولتے ہیں نہ بلوچستان کو۔ انوار الحق کاکڑ اور سرفراز بگتی اسلام آباد کی کان نمک میں پہنچ کر نمک نہ ہوگئے جس کا زیادہ امکان نہیں، جام کمال نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور ریاست کی رٹ بہرصورت بحال اور عوام کی حالت زار بدلنے کی خواہش مند قوتوں نے قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کو ترقی و خوشحالی کا ماڈل بنانے کی جدوجہد جاری رکھی، وڈیروں کی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہوئیں تو استحکام اور ترقی کی منزل دور نہیں۔ اختر مینگل حکومت کے ساتھ ہیں اور جام حکومت کا اثاثہ۔ جام کمال اختر مینگل سے ربط و ضبط کی ڈوری ٹوٹنے نہ دیں، بلوچستان کے حوالے سے 2018ء، 2017ء سے بہتر تھا، 2019ء کو بہتر ثابت کرنا جام صاحب کا کمال ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں اور سرپرستوں کے بارے میں ثابت کریں کہ واقعی باکمال ہیں۔