نامور قائدین اور الیکٹ ایبلز کے حوالے سے دیکھیں تو تحریک انصاف پاکستان تاش کے پتوں کا گھروندا (House of Cards) ثابت ہورہی ہے۔ جس پارٹی کے سینئر نائب صدر، سیکرٹری جنرل، صوبائی صدر اور دیگر عہدیدار تین چار دن کی جیل یاترا کے بعد بنیادی رکنیت سے مستعفی اور سیاست سے توبہ تائب ہو جائیں اسے مخالفین ریت کا گھروندا قرار دینے میں غلط نہیں۔
غنیمت ہے کہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمودالرشید، اعجاز چودھری، علی محمد خان اور شہریار آفریدی ابھی تک پابند سلاسل ہیں اور اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کی اس کرسی پر رونق افروز نہیں ہوئے جہاں بڑے بڑوں نے اپنے بقول "کسی دبائو کے بغیر" پارٹی اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ فرخ حبیب، حماد اظہر، عمر ایوب، اعظم سواتی، ڈاکٹر زرقا سہروردی، چودھری پرویز الٰہی، صداقت عباسی اور کئی دیگر بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور انہی کے دم سے تحریک انصاف کے علاوہ قومی سیاست کا بھرم قائم ہے ورنہ عمران خان کی کورکمیٹی کے بعض ارکان نے تو صرف سیاست ہی نہیں مروت اور وضعداری کی بھی لٹیا ڈبو دی تھی ؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
نکلی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آگئے
جن لوگوں نے اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے مشہور زمانہ جلسہ کو دیکھ کر سیاست کا رخ کیا یا جن کی صحافت کا آغاز حالیہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ہوا ان کے لیے یہ حیرت انگیز مناظر ہیں۔ تحریک انصاف کا کوئی عہدیدار، سابق رکن اسمبلی یا ٹکٹ ہولڈر میڈیا کے سامنے آتا، رٹا رٹایا بیان پڑھتا اور اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب دیئے بغیر گھر چلا جاتا ہے۔ ایک ہی بیان دہرانے کی رسم نئی ہے مگر پارٹی چھوڑنے اور پارٹی قائد کی ذات میں کیڑے نکالنے کی روایت پرانی ہے۔
میری عمر کے لوگوں کو بخوبی یاد ہے کہ جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پابند سلاسل ہوئے تو اس انقلابی پارٹی کے رہنمائوں نے قتل کے مقدمے میں گرفتار اپنے قائد سے کتنی جلد منہ موڑا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نوے دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو ایمل ولی کے دادا اور اسفند یار ولی کے والد گرامی خان عبدالولی خان وہ پہلے سیاستدان تھے جو "پہلے احتساب پھر انتخاب" کا نعرہ لگا کر میدان میں نکلے اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ "قبر ایک ہے اور بندے دو، ذوالفقار علی بھٹو الیکشن جیت کر اقتدار میں آ گئے تو تمہارا حشر نشر کر دیں گے۔ لہٰذا پہلے اس کا بندوبست کرو، پھر انتخاب اور انتقال اقتدار کے بارے میں سوچو" بھٹو صاحب کے دور ابتلا میں ان کے "ٹیلنٹڈ کزن" ممتاز بھٹو، "سوہنے منڈے" حفیظ پیرزادہ اور کئی دیگرپارٹی سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
میاں نوازشریف کی جدہ روانگی کے بعد مسلم لیگ تو مخدوم جاوید ہاشمی، راجہ ظفرالحق، احسن اقبال، نثار علی خان اور خواجہ سعد رفیق سمیت چند وضعدار اور سرپھروں کو چھوڑ کر پوری کی پوری مسلم لیگ قائد کے نام پر جنرل پرویز مشرف کی گود میں جا بیٹھی۔ 1997ء میں ہیوی مینڈیٹ لینے والی مسلم لیگ ن کو 2002ء میں صرف بیس نشستیں ملیں اور جیسے ملیں اس کا احوال چودھری نثار علی خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بیان کیا تھا، کسی کو تردید کی توفیق نہ ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ آج کل کے کئی سورما مسلم لیگ ق میں شمولیت کے لیے سفارشیں ڈھونڈا کرتے۔ میاں محمد اظہر اور چودھری پرویز الٰہی کے گھر وہ آستانے تھے جن پر "نوازشریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں" کا نعرہ لگانے والے متوالے مؤدب حاضری دیتے اور من کی مراد پاتے۔
وطن واپسی پر میاں نوازشریف نے انہی متوالوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ روزانہ "قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں" کا نعرہ لگاتے، مجھے آگے بڑھنے پر اکساتے ان کے جھانسے میں آ کر میں نے قدم بڑھا دیا مگر پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ سب کے سب غائب تھے۔ سردار، وڈیرے، انقلابی اور چوری کھانے والے مجنوں سبھی، سارے واصل بہ مشرف ہو گئے ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
یہ فرق البتہ ہے کہ مسلم لیگ چھوڑنے والوں کے پاس بہانہ تھا کہ جب شریف خاندان نے جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرلی، کورنگی جیل سے جدہ کے سرور محل سدھار گئے تو ہم کیوں فوجی آمر کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوں اور صعوبتیں برداشت کریں۔ چودھری شجاعت حسین نے ایک موقع پر کہا بھی کہ نوازشریف کے پاس آپشن تھی جیل یا جلاوطنی؟ میاں صاحب نے جلاوطنی کو ترجیح دی۔ ہمیں آپشن دی گئی جیل یا ایوان اقتدار؟ ہم اقتدار میں آ گئے، آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ اب جو لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ عمران خان پر بے وفائی اور بزدلی کا الزام نہیں لگا سکتے، البتہ 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے، ڈٹے رہنے کو ہٹ دھرمی سمجھتے اور اسی باعث جدائی کو غنیمت گردانتے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان نے 9 مئی کے شرمناک واقعہ کا منصوبہ بنایا اور اپنی ٹائیگر فورس کو ٹاسک دیا یا نہیں؟ جب مقدمات چلے تو سب کچھ سامنے آئے گا۔ فی الحال چُوری کھانے والے مجنوئوں کو تحریک انصاف چھوڑنے کا معقول بہانہ مل گیا ہے اور عمران خان کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع کہ اس برگر کلاس کے بل بوتے پر کپتان ملک میں انقلاب لانا چاہتا تھا۔ اعتراض بجا مگر سیاسی پارٹیوں کی توڑ پھوڑ اور فصلی بٹیروں کی حسب روایت اڑان سے جمہوریت کتنی مضبوط ہوگی؟ اور سیاست کس قدر نیک نام؟ یہ بھی کسی نہ کسی کو سوچنا ضرور چاہیے۔ سرائیکی شاکر شجاع آبادی کس موقع پر یاد آئے ؎
جیویں میکوں آن روایا ہئی
اینویں میں وانگوں پل پل روسیں
ہک واری رو کے تھک پوسیں
ول دل ڈکھسی، توں ول روسیں
ناں ڈوکھڑے آن ونڈیسی کوئی
توں لا کندھیاں کوں، گل روسیں
بس شاکر فرق معیاد دا ہے
میں اج رونداں تو کل روسیں
سیاسی جماعتوں کے قائدین اگر میرٹ پر تنظیم سازی کریں، جماعتوں میں جمہوریت لائیں، فصلی بٹیروں کے بل بوتے پر حصول اقتدار کا آسان راستہ چھوڑ کر جدوجہد کی کٹھن راہ پر گامزن ہوں تو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں سے کسی کو یہ دن نہ دیکھنا پڑے۔ لیکن ہماری آپ کی اس خواہش کا احترام کون کرے۔ ؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
رسول اللہ ﷺ کی ایک پسندیدہ دعا قارئین کی نذر "اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے چھن جانے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے، تیری ناگہانی گرفت اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے" براہِ کرم روز کا معمول بنائیں۔