Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bas Naam Rahe Ga Allah Ka

Bas Naam Rahe Ga Allah Ka

احتساب عدالت نے العزیزیہ کیس میں میاں نواز شریف کو سات سال قید اور ساڑھے تین ارب روپے جرمانہ کی سزا سنائی تو مجھے حضور سرور کائناتﷺ کی حدیث یاد آئی۔"اے اللہ بے شک میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری دی ہوئی نعمت کے زائل ہونے، تیری عافیت کے چھن جانے، تیرے اچانک عتاب اور ہر طرح کی ناراضگی سے"لاریب وہ خالق و مالک دنوں کے اُلٹ پھیر پر قادر ہے اور اقوام و افراد کے دن یونہی بدلتے ہیں۔ 2016ء کا سورج طلوع ہوا تو پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ عمران خان انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمشن کے زخم خوردہ تھے جس نے 2013ء کے انتخابات اور نواز حکومت کو ایک لحاظ سے کلین چٹ دے دی تھی۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے بعد ملکی فضا تبدیل ہو گئی تھی اور نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب بنانے کے لئے کسی احتجاجی یا سیاسی تحریک کی گنجائش کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ عمران خان نے دلبرداشتہ ہو کر یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب وہ خیبر پختونخواہ میں حکومت کی کارگزاری بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔ فروری اور مارچ کے مہینوں میں بیشتر سیاسی پنڈت اور دانشور قوم کو یہ بھاشن دینے لگے تھے کہ میاں صاحب 2018ء تک اطمینان سے حکومت کریں گے، انہیں کوئی سیاسی یا اقتصادی چیلنج درپیش نہیں اور مسلم لیگ 2018ء کا الیکشن جیت کر 2023ء تک حکمرانی کرے گی مگر وہ جو کہتے ہیں :سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں سارے تجزیے، سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور میاں نواز شریف کا اقتدار 2018ء کا سورج دیکھ سکا نہ مسلم لیگ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکی۔ اپریل کے پہلے ہفتے پانامہ پیپرز منظر عام پر آئے۔ شریف فیملی کے خلاف عمران کے ہاتھ ایک نیا موضوع لگا اور معلوم نہیں کس احمق مشیر کے کہنے پر میاں صاحب پہل کا روائتی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہوئے اور اعلان کر دیا کہ لندن میں ایون فیلڈ کے مہنگے فلیٹس ان کے خاندان نے جائز ذرائع سے خریدے اور ہمارا خاندان ہر طرح کی عدالتی تحقیقات کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ موصوف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایون فیلڈ جائیدادوں کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمشن بنانے کا عندیہ ظاہر کیا اور چند روز بعد پارلیمنٹ میں بھی اپنے موقف کو دہرایا، بس پھر کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے۔ وہ دن اور آج کا دن میاں صاحب صفائیاں پیش کر رہے ہیں اور کوئی مان کر نہیں دیتا۔ پانامہ پیپرز منظر عام پر آنے کے بعد میاں صاحب چاہتے تو مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر کے بازی پلٹ سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ الیکشن ہار جاتے اگرچہ یہ بھی مشکل تھا کیونکہ عمران خان نئے انتخابات کے لئے تیار تھے نہ اس وقت تک میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات کی خلیج گہری تھی اور نہ ووٹرز کسی تبدیلی کے موڈ میں نظر آتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) متحد تھی اپوزیشن منتشر اور تحریک انصاف کنفیوزڈ۔ تاہم الیکشن ہار کر بھی وہ سیاست میں موجود رہتے، خاندان بدنامی اور قید و بند سے بچ جاتا اور صاحبزادگان مفرور قرار نہ پاتے۔ میاں صاحب دراصل بدلے ہوئے حالات کا درست اندازہ لگا سکے نہ انہیں میڈیا کی طاقت کا ادراک تھا۔ 1990ء کے عشرے میں کواپریٹو سکینڈل سامنے آیا تو انہوں نے ایک عدالتی کمشن سے کلین چٹ لے کر اقتدار کی سیاست جاری رکھی، 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا تو جوڑ توڑ کے ماہر اور حسب منشا فیصلے حاصل کرنے میں طاق سیاستدان نے ایک بار پھر جوڈیشل کمشن کا پتہ پھینکا جسے عمران خان نے اچک لیا اور جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن بن گیا۔ مسلم لیگی حکومت نے چالاکی یہ کی کہ مرضی کے ٹی او آرز بنوا کر کمیشن کے ہاتھ باندھ دیے اور خلاف فیصلہ آنے پر بھی عمران خان احتجاج کی پوزیشن میں نہ رہے۔ میاں صاحب نے یہی پتہ پانامہ سکینڈل کی شدت کو کم کرنے کے لئے پھینکا، طاقت کے گھمنڈ یا غلط مشیروں کی صحبت نے انہیں کوئی معقول نصیحت سننے کی مہلت دی نہ مستقبل بینی کا موقع۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد بھی وہ دستیاب باعزت اور باوقار آپشنز استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ کوٹ لکھپت جیل میں میاں صاحب کو فرصت کے لمحات میسر ہوں اور انہیں غور و فکر کا موقع ملے تو بآسانی سوچ سکتے ہیں کہ اگر وہ ڈان لیکس کے بم کو ٹھوکر مارنے سے قبل عام انتخابات کا اعلان کر دیتے یا ڈان لیکس منظر عام آنے کے بعد مسلم لیگ کی قیادت میاں شہباز شریف کو سونپ کر اپنی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد مریم نواز کی قیادت پر اصرار کرتے تو اس پریشانی سے بچ نہیں سکتے تھے جو آج صرف انہیں نہیں پورے خاندان کو لاحق ہے؟ ۔ اقتدار چھن گیا، وفادار اہلیہ کے آخری ایام کسمپرسی میں گزرے، بدنامی کا سامنا ہے۔ صاحبزادگان تک باپ کی ڈھال بننے پر تیار نہیں اور بدترین مخالف عمران خان ان کی غلطیوں سے فائدہ اٹھا کر کرسی اقتدار پر براجمان ہے۔ قوم کا غالب حصہ کرپشن کے الزامات کو درست مانتا اور عمران خان کے بیانئے سے اتفاق کرتا ہے۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کو سول بالادستی کے بانس پر چڑھایا وہ ڈھنگ کا احتجاج کرنے کے قابل ہیں نہ اپنے قائد کی صفائی دینے کی پوزیشن میں۔ بیشتر خود اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں۔ یہ کرپشن کے الزامات اور عدالتی فیصلوں کا نتیجہ اور حالات کی ستم ظریفی ہے کہ میاں صاحب کا سرپرست سعودی عرب عمران خان کی حکومت کو مضبوط و مستحکم دیکھنے کا آرزو مند ہے اور قطر تعلقات بڑھانے کا خواہشمند۔ آصف علی زرداری کی حالت میاں صاحب سے زیادہ پتلی ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے الزامات کی زد میں ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے حکومت کے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ دولت اور غلبے کی ہوس انسان کو کیسے اندھا کر دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹائون گروپ پر مشتمل تکون کے بارے میں جو کہا وہ پنجاب اور سندھ کے ان بدنصیب عوام کے لئے چشم کشا ہے جو اب بھی اپنی محرومیوں کے اسباب جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور جن کی اگلی نسلیں بھی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ کیس کا فیصلہ اور جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ قوم نے جن شخصیات اور خاندانوں پر اعتماد کیا اور انہیں باربار اقتدار کی کنجی پکڑائی وہ اس قدر ڈھیٹ، سنگدل، دھن دولت کے پجاری اور اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے قوم کا کل تباہ کرنے کے عادی تھے کہ الامان والحفیظ۔ احتسابی عمل میں ایک پہلو البتہ حکومت، معاشرے اور قومی اداروں کے لئے فکر مندی کا ہے کہ وائٹ کالر میں ملوث افراد کو مہنگے اور قابل وکیلوں کی خدمات دستیاب ہیں جبکہ نیب، ایف آئی اے اور دیگر سرکاری ادارے محدود وسائل کی بنا پر سستے قانونی ماہرین سے استفادے پر مجبور۔ کیا بار کونسلیں اور بار ایسوسی ایشنز کسی ضابطہ اخلاق کے تحت ملک منیر، اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، خواجہ حارث، شاہد حامد کو بدنام زمانہ لٹیروں اور منی لانڈرز کی معاونت سے باز رکھ سکتی ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر عوامی ردعمل حوصلہ افزا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہزاروں جتن کر دیکھے عوام تو درکنار اپنے جیالوں اور متوالوں کو بھی سڑکوں پر نہ لاسکیں۔ اخلاقی جواز سے محروم کوئی نعرہ عوام کو اکسا سکتا ہے نہ داناسیاسی کارکن پولیس و رینجرز کی لاٹھیاں کھانے پر آمادہ ہوں گے۔ اندرون و بیرون ملک جائیدادیں، اثاثے اور بنک اکائونٹس سابقہ حکمرانوں کی ہوس زر اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی چغلی کھاتے اور ہر باشعور کو یقین دلاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اگر خاندانی سیاست کے چنگل سے نکل کر میدان میں اتریں تو مستقبل میں اپنی بقا کی جنگ خوش اسلوبی سے لڑ پائیں گی ورنہ کھیل ختم پیسہ ہضم:بس نام رہے گا اللہ کا