Basant. Jashan Bahar Ya Khooni Tehwar
Irshad Ahmad Arif87
یہ بزدار حکومت کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی؟ بسنت جشن بہار ہے یا خونی تہوار؟ فیصلہ 2005ء میں ہوچکا، حکومت، عدلیہ اور عوام نے بالآخر مان لیا کہ پتنگ بازی اب تفریح نہیں اور بسنت موسم کی تبدیلی، شگوفے پھوٹنے اور کھیتوں میں سرسوں کے پھول کھلنے کا استعارہ نہیں، ہلڑبازی، فائرنگ اور چھتوں اور سڑکوں پر رقص بسمل کا نام ہے دھاتی تار کے سامنے ریاستی اداروں کی بے بسی کی علامت۔ بسنت لاہور اور پنجاب کے دو تین شہروں میں صدیوں سے منایا جارہا ہے۔ بعض مذہبی حلقوں کے اعتراض کے باوجود کسی نے اسے ہندوانہ تہوار مانا نہ منانے والوں کو روکنے کی سعی کی۔ پتنگ بازی ویسے بھی چین سے آئی اور یہ غریب و متوسط طبقے کی سستی تفریح تھی۔ لوگ اپنی چھتوں پر ہمسایوں سے اٹھکیلیاں کرتے اور من چلے گلیوں بازاروں میں پتنگیں لوٹ کر اپنی راہ لیتے، مہم جوئی، تفریح اور جیتنے کا احساس انہیں شاد رکھتا، ہر سال ایک آدھ جان ضرور جاتی مگر اسے بسنت یا پتنگ بازی کا نتیجہ نہیں غیر ذمہ داری کا شاخسانہ قرار دے کر بھلا دیا جاتا۔ خونی کھیل میں یہ اس وقت تبدیل ہوا جب موسمی تہوار کو جنرل پرویز مشرف کی حکومتی سرپرستی ملی اور کارپوریٹ کلچر کا تڑکا لگا۔ جنرل پرویز مشرف دور حکومت میں پہلی بار اس موسمی تہوار کو سرکاری سرپرستی ملی، کمانڈو صدر لاہور آتے اور ان کے اعزاز میں بسنتی محفلیں سجائی جاتیں مجرا، موسیقی، شراب نوشی اور کھابے محفل کو چار چاند لگاتے ایسی ہی ایک محفل کے بارے میں یاروں نے مشہور کیا کہ موصوف نے سر پر مئے ار عوانی کا خم رکھ کر داد رقص دی۔۔ جنرل کے میزبانوں کی دیکھا دیکھی دوسرے امیرزادوں نے بھی شبانہ محفلوں کا آغاز کیا اور یوسف صلاح الدین کی حویلی سے نکل کر ڈیفنس، گلبرگ، ماڈل ٹائون اور دیگر مہنگے علاقوں میں واقع بڑے گھر اور فارم ہائوسز ہنگامہ ہائوہو کا مرکز بنے۔ چھتوں پر چراغاں، فائرنگ اور دھاتی تار کے ساتھ پتنگ بازی سے خلق خدا پر کیا گزرتی، اس کا احساس ہمارے نو دولتیوں کو کبھی تھا نہ ہوا۔ 2003ء میں پہلی بار لاہور، گوجرانوالہ، قصور اور فیصل آباد میں فائرنگ اور دھاتی ڈور سے اموات کا عدد درجن سے بڑھا اور 2005ء میں چار درجن سے آگے چلا گیا۔ لاہور میں اس وقت کے ناظم میاں عامر محمود نے اس کے خلاف آواز بلند کی اورپابندی کا سوچااور پھر عدالت عالیہ نے پابندی عائد کی مگر فوجی آمر کی سرپرستی کی وجہ سے عدالتی فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ تاہم یہ آخری بسنت تھی جو حکومتی سرپرستی میں منائی گئی۔ اس قدر زیادہ اموات نے حکومت، معاشرے اور میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اگلے سال پنجاب حکومت کو عدالتی فیصلے کی پابندی کرنا پڑی 2009ء میں گورنر راج کے دوران گورنر سلمان تاثر نے ایک بار پھر بسنت کا شوشہ چھوڑا مگر شدید عوامی ردعمل نے ان کی یہ حسرت پوری نہ ہونے دی۔ میاں شہباز شریف کے دونوں ادوار میں پابندی برقرار رہی۔ تحریک انصاف کی بزدار حکومت کو ایک بار پھر یہ شوق چرایا ہے۔ اگر بسنت، شوقین مزاج پنجابیوں کی تفریح کا ذریعہ رہے، لوگ چھتوں پر، پارکوں میں پتنگ بازی کریں، منچلے پتنگیں لوٹیں، کھابے کھائیں اور "بوکاٹا" کی صدائیں گونجیں تو کسی کو اعتراض نہ پابندی کی ضرورت لیکن اگر یہ تہوار، کارپوریٹ کلچر کے زیر سایہ اشرافیہ کی خرمستیوں کا ذریعہ بنے، شراب و شباب کی محفلیں سجیں، ساری ساری رات فائرنگ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے، فائرنگ اور دھاتی تار سے لاشیں گریں، ہر گلی محلے میں ٹرانسفارمرز کی کم بختی آئے، واپڈا کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے، کمسن معصوم بچوں کے گلے کٹیں، مائوں کی گودیں اجڑیں اور ایک بے حس و سنگدل طبقے کی مسرت و شادمانی درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھا دے تو؟ ۔ پرویز مشرف، چودھری پرویز الٰہی، میاں شہباز شریف کی حکومتیں اور پنجاب کے اضلاع لاہور، قصور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ کی پولیس و انتظامیہ دھاتی تار کی خریدوفروخت روک سکی نہ پتنگ بازی کو چند پارکوں تک محدود رکھا جا سکا اور نہ فائرنگ پر قابو پانا ممکن۔ اگر عمران خان اور عثمان بزدار کی حکومتیں اس قابل ہیں تو بسم اللہ۔ مگر یقین کسے اور کیسے آئے؟ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ تازہ ترین اطلاع یہ کہ پنجاب کی پولیس اور بیورو کریسی اس خونی تہوار کے حق میں نہیں۔ ماضی کے تجربات کے پیش نظر وہ یہ ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہے کہ ایک مخصوص طبقے سے واہ واہ کرانے کے لئے بسنت اور پتنگ بازی کا کریڈٹ تو تبدیلی کی علمبردار حکومت لے اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی، معصوم جانوں کے ضیاع اور قانون شکنی کا الزام اور متاثرہ خاندانوں کی بد دعا ودشنام پولیس و بیورو کریسی کا مقدر بنے۔ پولیس اور بیورو کریسی معاشرے کی مزاج شناس ہے، اور متوقع نتائج سے باخبر۔ جانتی ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ پر اسے عوام، میڈیا اور عدالتوں کا سامنا اپنے بل بوتے پر کرنا ہے فیصلہ ساز کبھی اس کا ساتھ دیتے نہ ذمہ داری اپنے سر لیتے ہیں۔ اگر 2005ء کی طرح بسنت قانون شکنی کی زد میں آئی تو نتائج اسے بھگتنے پڑیں گے حکمران بھی اس کی گردن ناپیں گے اپنے پروں پر پانی ہرگز پڑنے نہیں دیں گے۔ فروری ابھی دور ہے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کمیٹی بنادی ہے۔ ممکن ہے کمیٹی فی الحال یہ رسک نہ لینے کی معقول تجویز پیش کرے یا پھر دو چار مخصوص مقامات پر محفوظ پتنگ بازی کا دانش مندانہ مشورہ دے لیکن اگر ماضی کی طرح مادر پدر آزاد بسنت کی اجازت دے کر حکومت نے اس مخصوص طبقے سے داد تحسین سمیٹنے کی کوشش کی جو شغل میلے کو مقصد حیات سمجھتا اور انسانی جانوں کی قیمت پر اپنے بے قابو جذبات کی تسکین کا سامان کرتا ہے تو یہ قوم کے علاوہ اپنے ساتھ زیادتی کرے گی۔ حکومت کے پائوں ابھی تک ڈھنگ سے جمے نہیں، اقتصادی و معاشی بحران چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون کے باوجود ٹلا نہیں۔ اسد عمر کی پھرتیاں مہنگائی کو روک پائی ہیں نہ قومی معیشت میں استحکام کی صورت نظر آتی ہے۔ ڈالر کی بے ثباتی ہی روزانہ ایک نیا بحران پیدا کرتی ہے، پارٹی میں دائیں اور بائیں دیندار اور لادین، جدت پسند و قدامت پسند گروہ کے مابین کشمکش جاری ہے، ہندو رکن اسمبلی رمیش کمار نے شراب کی پابندی کا بل پیش کیا تو تحریک انصاف کے کئی ارکان نے اپنے ساتھی کے بجائے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دے وزیر اطلاعات فواد چودھری رمیش کمار کو سستی شہرت کا رسیا بتلاتے ہیں اور جواباً رمیش کمار ٹی وی پروگرام میں اپنے رفیق کار کے بیان کو رات نو بجے بعد کی بات قرار دیتے ہیں جس کا مذکور ہی کیا؟ ۔ ایسے میں بسنت منانے کا شوشہ چھوڑ کر پنجاب حکومت نے ایک نئی مصیبت اپنے گلے ڈال لی ہے۔ بسنت منائی اور خدانخواستہ جانی نقصان ہوا تو اپوزیشن حکومت کو جینے دے گی نہ خوشی سے دھمال ڈالنے والا میڈیا اور نہ عوام معاف کریں گے، اگر عوامی ردعمل اور نتائج و عواقب کا اندازہ لگا کر حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا تو ایک اور یوٹرن کا اضافہ ہو گا۔ عآغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائیبجا کہ معاشرے کو تفریح چاہیے مگر مفاسد سے پاک تفریح کے مواقع تلاش کیوں نہیں کئے جاتے؟ ۔ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے انہیں دہرانے پر اصرار کیوں؟ کیا حکومت عوام کو یہ ضمانت دے گی کہ اگر اشرافیہ کی اس تفریح کے دوران خدانخواستہ ایک بھی گردن کٹی، ایک بھی لاش گری ایک بھی گود اجڑی تو اس کا ذمہ دار وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہو گا اور ایف آئی آر اس خونی تہوار کی اجازت دینے والوں کے خلاف کاٹی جائیگی۔ اگر حکومت یہ رسک لینے کے لئے تیار ہے تو فروری کا انتظار کیوں؟ ابھی سے پابندی ختم کریں اور پھر جو ہو سو ہو…ہمیں میدان وہمیں گو