Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bigaar Kar Banaye Ja, Ubhaar Kar Mitaye Ja

Bigaar Kar Banaye Ja, Ubhaar Kar Mitaye Ja

فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں خصوصی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر منیر نیازی مرحوم یاد آئے ؎

منیرؔاس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

دو فوجی آمروں ایوب خان اور یحییٰ خان کے بعد پاکستان کے پلّے ذوالفقار علی بھٹو ایسا جینئس پڑا، مطالعہ کارسیا، عوام کا نبض شناس اور قوم پرست مگر خودپرست و منتقم مزاج، ایوب دور کی صنعتی و تعلیمی ترقی کو ریورس گیئر لگا دیا، سیاسی کارکنوں کو کرپشن اور صنعتی کارکنوں کو کام چوری کی عادت ڈالی، جج اسی دور میں گرفتار اور بے وقار ہوئے، اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا۔ 1977ء میں ایک وقت ایسا آیا جب خان عبدالولی خان، شیر باز مزاری، پیر پگاڑا، اصغر خان، علامہ شاہ احمد نورانی، میاں طفیل اور مفتی محمود سمیت صف اول کے دیگر قائدین رہے ایک طرف دوسرے اور تیسرے درجے کا کوئی سیاستدان بھی جیل سے باہر نہ تھا۔ سب جیل میں پڑے قائد عوام کی جمہوریت پسندی کی داد دے رہے تھے۔ مخالفین کی عزت و آبرو محفوظ تھی نہ جان و مال۔ حبیب جالب نے اسی دور میں قائد عوام کے نادر شاہی حکم پر فلمسٹار ممتاز کو لاڑکانہ بلائے جانے پر کہا تھا ؎

قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا، لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو

اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلوورنہ تھانے چلو

منتظر ہیں تمہارے شکاری وہاں، کیف کا ہے سماں

اپنے جلوئوں سے محفل سجانے چلو، مسکرانے چلوورنہ تھانے چلو

حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو، ذہن پر چھائی ہو

جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلوورنہ تھانے چلو

درجنوں اخبارات و جرائد بند ہوئے اور صحافی پابند سلاسل، سیاسی قتل اور جے اے رحیم، احمد رضا قصوری، ملک سلیمان، میاں محمود علی قصوری جیسے جانثار ساتھی توہین و تذلیل سے دوچار۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے جمہوری عہد میں لوٹ مار کے ریکارڈ قائم ہوئے۔ خاندانی و موروثی سیاست کو فروغ ملا اور ملک خارجی محاذ پر بے توقیر ہوا۔ فوجی حکمرانوں کے بعد برسر اقتدار آنے والے سیاستدان ملکی ترقی، عوامی خوشحالی اور آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے تو طیب اردوان کی طرح آئین شکن اور جمہوریت مخالف جرنیلوں کو آئین کے آرٹیکل چھ کے شکنجے میں کسنے کے قابل ہوتے۔ عدلیہ بھی اگر عوامی تحریک کے بل بوتے پر بحالی کے بعد عام آدمی کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا بیڑا اٹھاتی، طاقتور اور مالدار افراد کے کیس چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مترادف دنوں میں نمٹانے کے بجائے یہ سہولت غریب، کمزور اور بے آسرا افراد کو فراہم کرتی تو پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کو خلق خدا کی خوشدلانہ تائید و حمائت ملتی اور بغض و عناد، انتقام و بدلے کا تاثر نہ ابھرتا مگر حقیقت یہ ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے اور اس میں شامل ایک غیر آئینی، غیر شرعی، غیر انسانی، غیر اخلاقی جملے نے مجرم مشرف کو مظلوم بنا دیا۔ کسی کو تفصیلی فیصلہ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ اس کے میرٹ پر بحث کرنے کی حاجت۔

پرویز مشرف نے آئین 1999ء میں توڑا، منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی بساط الٹی، وزیر اعظم کو جیل میں ڈالا اور کسی استحقاق کے بغیر اقتدار سنبھال لیا۔ بعدازاں منتخب صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ کو استعفیٰ لئے بغیر گھر بھیج دیا۔ میاں نواز شریف کے مشیروں نے مگر فوجی آمر کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے 3نومبر کی ایمر جنسی کا جواز ڈھونڈا جب پارلیمنٹ، حکومت اور دیگر آئینی ادارے بدستور موجود و فعال تھے اور ایمرجنسی پلس کے بطن سے بھی نئے اور غیر جانبدارانہ، منصفانہ انتخابات کا شگوفہ پھوٹا، پرویز مشرف نے وردی اتاری اور ان دو پارٹیوں نے انتخابی کامیابی حاصل کی جو اس کی مخالف تھیں۔ مقدمہ قائم ہوا تو ملک میں جمہوری استحکام کے خواہش مند اور منصف مزاج حلقوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ترمیم شدہ آرٹیکل چھ کی مختلف شقوں اور روح کو پس پشت ڈال کر فرد واحد پر مقدمہ چلانے کا مقصد کیا ہے؟ پرویز مشرف کو ایمرجنسی پلس کی تجویز دینے والے وزیر اعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ، مقدمہ میں فریق نہ آئینی و قانونی جواز پیش کرنے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سمری تیار کرنے والے وزیر قانون زاہد حامد شریک جرم، حالانکہ میاں صاحب کو بار بار مشورہ دیا گیا کہ پرویز مشرف کو سنگل آئوٹ کرنے سے فوج میں شدید ردعمل پیدا ہو گا اور وہ اسے اپنے سابق باس کی توہین و تذلیل سے تعبیر کرے گی۔ میاں صاحب چاہتے تو آصف علی زرداری کی طرح "مٹی پائو" پالیسی کے تحت معاملے کو ماضی کا قصہ سمجھ کر آگے بڑھتے مگر ان پر تاریخ میں نام لکھوانے کا جنون سوار تھا، تفصیلی فیصلہ میں ایک جملے نے اعتزاز احسن جیسے شخص کو بھی بیک فٹپر کھڑا کر دیا اور وہ بھی اس کو منتقم و غیر متوازن ذہن کی پیداوار فیصلہ قرار دے کر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ محض اس جملے کی بنیاد پر سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے گی۔

اس فیصلے سے پرویز مشرف کا کچھ بگڑا نہ آئین کی بالادستی کا خواب پورا ہوا الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔ البتہ اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت اور جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت کے حوالے سے فیصلے کا مقصد دو اداروں کے مابین کشمکش، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی قیادت کو بے توقیر کرنا تھا تو بلا شبہ یہ مقصد پورا ہوا، لیکن اگر جمہوریت کا استحکام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اولین ترجیح تھی تو دوردور تک اس کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ فیصلے کے حق میں واحد دلیل دی جا رہی ہے کہ اگر بھٹو کو سزائے موت دی جا سکتی ہے، میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نااہل ہو سکتے ہیں تو پرویز مشرف کس باغ کی مولی ہے لیکن یار لوگ یہ دلیل دے کر انتقام کی دہائی دینے والوں کا بیانیہ مضبوط کرتے ہیں کہ پھر انصاف تو نہ ہوا بدلہ چکانا مقصود ہے مگر اس کا ملک و قوم کو فائدہ؟2007ء سے پاک فوج کان لپیٹ کر اپنے اصلی کام یعنی سرحدوں کے دفاع پر توجہ دے رہی ہے اور جسٹس افتخار چودھری، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کے تلخ ریمارکس کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل کے علاوہ سوشل میڈیا کے مجاہدین نے کیا کچھ نہیں کہا، بھارت کے بیانئے کی تائید نہیں کی مگر فوج کی اعلیٰ قیادت اپنے رینک اور فائلزکو یہ سمجھانے میں مصروف رہی کہ مارشل لاء لگانا آسان مگر اس سے بچنا اور جمہوریت کی نشو و نما میں حصہ دار بننا مشکل کام ہے اور ہم یہی مشکل کام مقدس فریضہ کے طور پر کر رہے ہیں لیکن فوج کے تحمل و برداشت کو کمزوری سمجھا گیا اور ایسے فیصلے آنے لگے جن پر پاکستان کے بجائے بھارت میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے، یہ جمہوریت اور آئین کی کون سی خدمت ہے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کیسی دانشمندانہ تدبیر۔؟ وکلاء اس ملک کا پڑھا لکھا، باشعور اور قانون پسند طبقہ ہے مگر ایک ڈاکٹر کی ویڈیو وائرل ہونے پر ہوش و حواس کھو بیٹھا اور پی آئی سی میں غریب مریضوں پر چڑھ دوڑا۔ کیااپنی قیادت سے عشق کرنے والے فوجی جوان ان وکیلوں سے بھی زیادہ کمزور ہیں؟ نہیں، تاثر یہ پختہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بقا و استحکام میں زیادہ دلچسپی سرحدوں پر جان کی بازی لگانے کے لئے تیار بیٹھے افسروں و جوانوں کو ہے ہم سویلین صرف انتقام، غلبے اورمخالفین کو تہس نہس کرنے کے جذبے سے مغلوب ہیں۔ چار قدم چلنے کے بعد ہم واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں، دائروں کا سفر ہمیں پسند ہے ؎

بگاڑ کر بنائے جا، ابھار کر مٹائے جا

میں ترا چراغ ہوں جلائے جا، بجھائے جا