Blackmailing Kab Tak?
Irshad Ahmad Arif108
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کا بل اتفاق رائے سے منظور ہونا اچھنبے کی بات نہیں، ماضی میں بھی یہ بل ایسے ہی پاس ہوتے رہے، پنجابی میں کہتے ہیں بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں، مفادات اور مراعات کا معاملہ ہو تو ہمارے سیاستدان ہر طرح کے اُصولی، نظریاتی اور جماعتی اختلافات بھلاکر اکٹھے ہوتے اور سیسہ پلائی دیوار بن کر عوام کا خون چوستے ہیں، حیرت مگر اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ، وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی میں سے کسی نے عمران خان کے قوم سے وعدوں، کفائت شعاری کی مہم حتیٰ کہ عوامی ساکھ کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی، چند ٹکوں کی ہوس میں یہ اپنے لیڈر کو بھول گئے۔ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو فرش سے اٹھا کر اقتدار کے عرش پر بٹھا دیا، چھ ماہ سے اس کے حق میں رطب للسان اور قوم کو یقین دلا رہا ہے کہ وسیم اکرم پلس پیسے دھیلے کے بارے میں کبھی نہیں سوچے گا مگر بل میں اپنی مراعات دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی چندھیا گئیں اور اس نے عمران خان کے اعتماد کا بلیدان کر دیا، ملبہ اب اتحادیوں پر ڈالا جا رہا یا اپوزیشن پر جس نے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر یہ بل پیش کیا۔ تحریک انصاف کے بعض چالاک رہنما اسے سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ بل کی واپسی میں اصل رکاوٹ چودھری پرویز الٰہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اگر اس بل کے محرک تھے اور اسے اپوزیشن سے تعلقات آغاز کا نقطہ کار سمجھ کر سرکاری پارٹی نے قبول کیا تو عمران خان سے چھپانے کی ضرورت کیا تھی؟ اور کسی ایک انصافی رکن کو بھی اختلاف یا واویلے کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ ۔ چودھری برادران تو اتحادی ہیں اپنا اور اپنی پارٹی کا مفاد دیکھیں گے اور وہ تحریک انصاف کے ڈسپلن کے پابند نہیں۔ تاہم موجودہ تناظر میں چودھری برادران کا کردار سیاسی حلقوں میں زیر بحث ضرور ہے، بعض تجزیہ کار تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہیں چودھری برادران سے زیادہ میاں شہباز شریف کی اقتدار کی سیاست میں فاتحانہ واپسی کی اُمید نظر آنے لگی ہے اور وہ راولپنڈی و اسلام آباد کے مابین بڑھتے فاصلوں اور مقتدر حلقوں کی عمران خان سے مایوسی کی قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں استدلال ان کایہ ہے کہ عمران خان کی ٹیم معاشی محاذ پر ناکامی سے دوچار ہے، کپتان نے احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام کے راستے پر ڈال دیا ہے اور وہ اپوزیشن کے لیڈروں سے جیلیں بھر کر اپنی ناکامی چھپانا چاہتا ہے۔ این آر او کی مخالفت میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے بیانات کو بھی وہ اس پس منظر میں دیکھتے ہیں اگر میاں شہباز شریف کی طرح اگلے ہفتے دس دن میں میاں نواز شریف کی ضمانت ہو گئی اور باپ بیٹی لندن سدھار گئے تو اس بیانئے کو تقویت ملے گی میری ناقص رائے میں فی الحال یہ قیاس آرائیاں ہیں خواہشات کا عکس۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں فاصلے پیدا کرنے کی تدبیر ابھی تک کامیاب ہوئی نہ میاں شہباز شریف کی کوششیں کامرانی سے ہمکنار۔ والدہ محترمہ کی موجودگی میں وہ میاں نواز شریف سے فاصلہ پیدا کر سکتے ہیں نہ مریم نواز انہیں پارٹی کی زمام کار سنبھالنے دے رہی ہیں تو اقتدار کی سیاست میں واپسی کیوں اور کیسے؟ مقتدر حلقوں کے پاس تحریک انصاف اور عمران خان کے علاوہ آپشن کیا ہے؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی؟ جس کے کارکنوں اور لیڈروں نے 26فروری کو ایبٹ آباد میں بھارتی سٹرائیک کے بعد فوج کو بخشا نہ آئی ایس آئی کو۔ سوشل میڈیا پر دونوں جماعتوں کے جیالوں، متوالوں اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کا لب و لہجہ یکساں تھا، تضحیک آمیز اوردلآزار میاں نواز شریف کے ہمدرد اور ہمنوا تجزیہ نگاروں اور قلم کاروں نے بھی بھارتی میڈیا اورحکومتی نقطہ نظر کو سپورٹ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، حتیٰ کہ 27فروری کو دو جہاز گرا کر پاک فوج نے پانسہ پلٹ دیا۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری اقتدار میں ہوتے تو پاک فوج کو جوابی کارروائی کی اجازت دیتے؟ کرگل آپریشن اور ممبئی حملوں کے موقع پر دونوں کا انداز فکر آشکار ہو چکا۔ پنجاب کی سطح پر سیاسی پخت پخت و پزالبتہ ہو سکتی ہے اور اس میں اہم کردار چودھری پرویز الٰہی کا ہو گا، وہ بھی اس صورت میں کہ مسلم لیگ(ن) شریف خاندان کی عہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گےکی تباہ کن حکمت عملی تیاگ کر بقائے باہم کی تدبیر کرے اور مسلم لیگ(ن) و(ق) کا اتحاد عمل میں آئے۔ یہ اطلاعات تو ہیں کہ صوبے میں تحریک انصاف کواقتدار سے محروم کرنے کے لئے مسلم لیگ(ن) چودھری پرویز الٰہی کو دانہ ڈال رہی ہے مگر تاحال جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ چودھری چگنے کوتیار نہیں تاہم موجودہ حکمران اتحاد میں ان کی حیثیت جونیئر پارٹیز کی ہے، اگر مسلم لیگ متحد ہو اور وہ متحدہ مسلم لیگ کے لیڈر کے طور پر سامنے آئیں تو اسلام آباد اور راولپنڈی میں دونوں جگہ ان کی پذیرائی مختلف انداز میں ہو گی اور جوڑ توڑ کی غیر معمولی صلاحیتیں بروئے کار لا کر 2002ء کی طرح وہ پنجاب میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں، راولپنڈی میں مایوسی عمران خان کی بجائے سردار عثمان بزدار سے ہو سکتی ہے۔ جو تاحال اپنے وہ جوہر نہیں دکھا سکے عمران خان کے سوا جن کا کسی کو علم نہیں، شائد عثمان خان بزدار کو بھی نہیں۔ مختلف الخیال مسلم لیگی اگر اپنی عادت اور مزاج کے مطابق محض تحریک انصاف کو پنجاب میں نیچادکھانے، اپنی چمڑی اوردمڑی بچانے اور مقتدر قوتوں کا جی لبھانے کے لئے اتحاد کر لیں تب بھی صوبے کے اقتدار کا پکے ہوئے پھل کی طرح کسی خواہش مند کی جھولی میں گرنے کا امکان زیادہ اورقوی نہیں۔ عمران خان کے پاس پارلیمانی بلیک میلنگ کی سیاست ختم کرنے اور اپنے کسی وفادار، باصلاحیت اور قابل اعتماد ساتھی کو آگے لانے کے لئے ایک طاقتورآپشن کھلا ہے۔ چھ، آٹھ ماہ بعد پورے ملک نہیں، صرف پنجاب میں قبل از وقت انتخابات کا آپشن۔ عمران خان کی قیادت میں وفاق کے اقتدار سے لیس تحریک انصاف بآسانی منتشر، مضمحل اور مقدمات میں الجھی اپوزیشن کو چاروں شانے چت کر سکتی ہے۔ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے بیانات سے صاف لگ رہا ہے کہ وہ جعلی بنک اکائونٹس کیس میں اپنا دفاع کرنے کے قابل ہیں نہ نیب اور عدالت کے کسی سوال کا تسلی بخش جواب دینے کی پوزیشن میں۔ میاں نواز شریف نے اپنے بچائو کے لئے ووٹ کو عزت دو اور خلائی مخلوق کا چورن بیچا، بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری اٹھارہویں ترمیم اور کالعدم تنظیموں کے بارے میں شور مچا کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کامیابی اول الذکر کو ہوئی نہ موخر الذکر کے نصیب میں۔ البتہ پنجاب میں قبل از وقت انتخابات کا جوا کھیل کر عمران خان اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور مخالفین کی بڑھتی ہوئی سازشوں سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان اندرونی و بیرونی محاذ پر چھپے اور کھلے دشمنوں سے برسر پیکار ہے اور بقاو استحکام کے لئے سرگرداں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے بجائے آزمودہ کرپٹ، نااہل اور سازشی عناصر پر دائو کوئی احمق ہی لگا سکتا ہے۔ آزمودہ راآز مودن جہل است کے قدیم محاورے سے نابلد اور پرلے درجے کا ناعاقبت اندیش۔ ان قیاس آرائیوں سے عمران خان کو البتہ ایک راستہ دکھایا جا رہا ہے جس میں کامیابی کا امکان اسی سے سوفیصد تک ہے جبکہ پنجاب کا قالین عمران خان کے پائوں سے کھسکانے کے خواہش مند موجودہ سواد سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ عمران خان کے لئے چشم کشا ہے۔ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں، لیڈر کا کام ان سے فائدہ اٹھانا ہے، قدرت نے عمران خان کو اپوزیشن اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کا راستہ دکھا دیا ہے اپنانا، نہ اپنانا لیڈر کی مرضی۔