Chachundar
Irshad Ahmad Arif83
پہلی بار ایک مضبوط سکینڈل اپوزیشن کے ہاتھ لگا ہے۔ جلد بازی میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کو پروپیگنڈے کا موقع فراہم کیا۔ منڈا/مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی 2004ء سے جاری ہے۔ جولائی 2010ء میں نوشہرہ تباہ کن سیلاب کا نشانہ بنا تو دسمبر 2010ء میں سپریم کورٹ نے شہریوں کے جان و مال کی تباہی میں انتظامیہ کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر منڈا مہمند ڈیم مقررہ مدت میں مکمل ہوتا تو نوشہرہ، چارسدہ اور دیگر علاقے تباہی سے بچ سکتے تھے۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور میں بھی ڈیم کی تعمیر کا آغاز نہ ہو سکا۔ الزام یہ لگتا رہا کہ غیر ملکی سرمایہ کار اور تعمیراتی ادارے پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو سب سے پہلے حکمرانوں کے گماشتے انہیں گھیر گھار کر کک بیکس کی راہ پر لاتے اور اتنی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کہ انہیں بھاگ نکلنے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔ امریکہ میں رجسٹرڈ ایک فرم سے وابستہ شخص کا دعویٰ ہے کہ انہیں جاتی امرا میں شرف بازیابی بھی بخشا گیا مگر بات بن نہ سکی۔ فریقین رضا مند تھے مگر معاملہ اسلام آباد کورٹ میں زیر سماعت ہونے کے باعث وفاقی حکومت کو ٹھیکہ ایوارڈ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ کوئی بڑا پراجیکٹ شروع کرکے عوام سے واہ واہ کرانے کی خواہش یا حکمرانوں کی ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھا کر واپڈا نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ ایوارڈ تو کر دیا مگر تعمیراتی کنسورشیم میں وفاقی مشیر عبدالرزاق دائود کی زیر ملکیت ڈیسکان کی شمولیت عمران خان اور حکومت کے گلے کا وہ چھچھوندر ہے جسے نگلنا آسان نہ اُگلنا ممکن۔ ایک طرف پانی ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے جس کے قومی معیشت پر مثبت اثرات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا دوسری طرف وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کی کمپنی کو ملنے والا ٹھیکہ ہے جس پر غیر شفافیت اور مفادات کے تصادم کا الزام لگ رہا ہے۔ ابھی تک اپوزیشن رزاق دائود کا نام لے کر مفادات کے تصادم کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ جب اُسے اے ایم زیڈ او(A M Z O) چائنا پاور اور اسلان (قطری فرم) پر مشتمل کنسورشیم کو نظر انداز کرنے کا علم ہوا تو ایساطوفان کھڑا کریگی کہ الامان والحفیظ۔ یہ درست ہے کہ ٹینڈر کے لئے درخواستیں مسلم لیگی دور حکومت میں طلب کی گئیں۔ اس وقت تک کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ عمران خان اقتدار میں آ کر عبدالرزاق دائود کو مشیر تجارت مقرر کریں گے۔ بجا کہ ڈیسکان ایک معتبر اور تجربہ کار فرم ہے اور جس چینی کمپنی سے مل کر یہ ڈیم تعمیر کرنا چاہتی ہے اس کے شیئرز ستر فیصد ہیں، عبدالرزاق دائود ڈیسکان سے مستعفی ہو چکے ہیں اور اب ان کا تعمیراتی کمپنی سے کچھ لینا دینا نہیں، لیکن یہ سب فنی اور تکنیکی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہو تو تاثر یہ ہے اور تاثر ہمیشہ حقیقت پر حاوی رہتا ہے کہ عبدالرزاق دائود ڈیسکان کے حقیقی مالک اور عمران خان کے مشیر ہیں اور پراجیکٹ کا حقیقی فائدہ انہیں پہنچے گا۔ میاں نواز شریف نے بھی احتساب عدالت اور دیگر فورمز پر ہمیشہ یہی موقف اختیار کیا کہ ان کا بچوں کے کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں اور لندن، سعودی عرب اور دبئی کی جائیدادیں، ملیں اور دھن دولت دادا سے پوتوں کو منتقل ہوئے، مگر عوام نے تسلیم کیا نہ عدالتوں نے۔ بالآخر میاں صاحب سزا یاب ہوئے۔ عبدالرزاق دائود مشیر مقرر ہونے کے بعد مسلسل حکومت کی نیک نامی اور ساکھ کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سی پیک پر اُن کے متنازعہ بیان نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو متاثر کیا اور آرمی چیف کو بیجنگ جا کر چینی قیادت کو مطمئن کرنا پڑا۔ حکومت میں شامل ایک طبقہ اُن سے غیر مطمئن ہے جبکہ مہمند ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ ڈیسکان کو ملنے پر تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اقتدار سنبھال کر مفادات کے تصادم اور سرکاری ٹھیکوں میں شفافیت کے فلسفے سے تو بہ تائب ہو چکے ہیں، انہیں اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز افراد کے کاروبار سے غرض ہے نہ اس تاثر کی پروا کہ عمران خان کا کوئی وزیر، مشیر، دوست اور جماعتی ساتھی اپنے عہدہ و منصب کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہا ہے یہ حقیقت نہیں تاثر ہے مگر بہت ہی جاندار اور لائق توجہ تاثر کہ ڈیسکان عبدالرزاق دائود کی کمپنی ہے اور حکومت نے اس کمپنی کو ٹھیکہ دے کر دوست نوازی کی ہے۔ جہانگیر ترین کی نااہلی، بابر اعوان کے خلاف نیب کے ریفرنس، زلفی بخاری کی دوہری شہریت، پرویز خٹک، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان اور سینئر وزیر عاطف خان کی نیب طلبی پر اپوزیشن نے خوب اودھم مچایا مگر بات بنی نہیں کہ مقابلہ زرداری خاندان اور شریف خاندان کے حوالے سے منظر عام پر آنے والے سکینڈلز سے تھا مگر مہمند ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ ڈیسکان کو دے کر حکومت نے اپنے مخالفین کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں، انہیں منفی پروپیگنڈے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور چیئرمین واپڈا کی وضاحتیں عوام کو مطمئن کر سکتی ہیں نہ عبدالرزاق دائود کے ترجمان کا بیان۔ فیصل واوڈا نے وضاحت کیا کرنی تھی صحافیوں سے لڑکراپنی اور حکومت کی پوزیشن مزید خراب کی، تحریک انصاف کے وزیروں کو کب یہ احساس ہو گا کہ حکومت ملنے کا مطلب جوابدہی کے احساس سے عاری ہونا نہیں اور اُڑتے تیر کو بغل میں لے کر وہ اپنا بھلا کر رہے ہیں نہ اپنے قائد محترم کا۔ مہمند ڈیم وقت پر مکمل ہونا چاہیے کہ عوام کو آٹھ سو میگاواٹ سستی بجلی ملے گی اندازاً چار روپے فی یونٹ اور ہزاروں ایکڑ زرعی رقبے کے علاوہ پشاور کے عوام کو پینے کا پانی، مگر اس قیمت پر مفادات کے تصادم اور سرکاری معاہدوں میں غیر شفافیت قابل قبول نہیں۔ ایک ایسی حکومت جو برسر اقتدار ہی ان نعروں پر آئی اور جس کا قابل فخر سرمایہ کرپشن، اقربا پروری، دوست نوازی اور بے ضابطگی کے مہلک کلچر کے خلاف دلیرانہ جدوجہد ہے وہ فنی اور تکنیکی نوعیت کی وضاحتوں سے منفی پروپیگنڈے کے طوفان کا سامنا کیسے کر سکتی ہے؟ آزاد اور مُنہ زور میڈیا، فعال عدلیہ اور زخم خوردہ اپوزیشن کا مقابلہ اخلاقی برتری اور اصول پسندی سے ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔ شفافیت اور میرٹ پر سمجھوتہ کر کے موجودہ حکومت اپنے آپ کو سابقہ حکومتوں سے مختلف اور منفرد کیسے قرار دے گی۔ شفافیت، میرٹ اور اخلاقی برتری کے سوا اس کا اثاثہ کیا ہے؟ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے حکمران بے چارے غلطیاں بھی نئی نہیں کرتے، مکھی پر مکھی مارتے ہیں۔ عمران خان کم از کم یہ کام تو نہ کریں۔ رزاق دائود کی خاطر اپنی نیک نامی پر دھبہ نہ لگائیں۔ تحریک انصاف کے عہدیدار اور کارکن بے چارے چند مشیروں کا دفاع کریں یا خان کی غریب پروری، حب الوطنی اور جرأت مندی کا ڈنکا بجائیں؟ ایک وقت میں ایک ہی کام اچھا ہے انہیں طلال چودھری، دانیال عزیز اور آصف سعید کرمانی نہ بننے دیں۔