ارطغرل ڈرامہ پاکستان میں بعض لوگوں کی ویسی ہی چڑ بنتا جا رہا ہے جیسی چین امریکی صدر ٹرمپ کے لیے، ٹرمپ کا معاملہ یہ ہے کہ جب ووہان میں کورونا وائرس نے سر اُٹھایا اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس موذی مرض کے عالمی وبا میں بدلنے کا اندیشہ ظاہر کیا تو امریکی صدر نے عوامی جمہوریہ چین کا مذاق اڑانا شروع کر دیا، ڈاکٹر فاوچی نے جو ان دنوں امریکی صدر کے مشیر تھے، ڈبلیو ایچ او کے مؤقف کی تائید کی تو امریکی صدر اس پر بھی چڑھ دوڑے، اسے چین سے مرعوب اور امریکی ریاست و قوم کی سائنسی علوم پر دسترس سے لاعلم قرار دیا۔ ٹرمپ یہ ثابت کرنے میں مگن ہے کہ کورونا کی وبا چین نے جان بوجھ کر پھیلائی اور امریکی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار چین ہے۔ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں چینی صحافی کے سوال پر صدر ٹرمپ جس طرح ہتھے سے اکھڑے اور سوال کو بے ہودہ قرار دے کر پریس کانفرنس چھوڑ گئے یہ امریکی صحافیوں کے لیے بھی حیران کن تھا، کچھ بعید نہیں کہ اگلی کسی پریس کانفرنس میں چین کا لفظ سنتے ہی صدر ٹرمپ مائیک اٹھا کر صحافی کو دے مارے یا گالم گلوچ پر اتر آئے۔ جب کسی چیز کو انسان اپنی چڑ اور چھیڑ بنا لے تو لوگ مزہ لینے کے لیے اسے دہراتے اور خود محظوظ ہوتے، متعلقہ شخص کو تنگ کرتے ہیں۔
چین ایک زمانے میں سارے امریکیوں کی چڑ اور چھیڑ رہا، قدرت اللہ شہاب مرحوم نے شہاب نامے میں ایک امریکی عہدیدار کا واقعہ لکھا ہے جو اسلام آباد کے دورے پر آیا تو صدر محمد ایوب خان نے اس کے استقبال کے لیے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ایئر پورٹ بھیجا، ان دنوں پاکستان کی دنیا بھر میں غیر معمولی عزت اور ساکھ تھی، امریکی عہدیداروں کو پروٹوکول ان کے منصب کے مطابق ملتا تھا بعد ازاں تو نوبت با ینجا رسید کہ پاکستان کا فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صدر کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کا ایوان صدر میں استقبال اور وزیر خارجہ کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کیا کرتا تھا، وزیر اعظم نواز شریف وزیر خارجہ جان کیری کے دفتر جا کر ملے اور صدرآصف علی زرداری نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار سارا پالن کے معانقے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب امریکی عہدیدار کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لا رہے تھے کہ زیرو پوائنٹ کے مقام پر اچانک یہ افسر گھٹنوں میں منہ دبا کر او مائی گاڈ او مائی گاڈ پکارنے لگا۔ شہاب صاحب کو تشویش ہوئی کہ شاید گورے کو دل کا دورہ پڑا ہے یا وہ کسی اور تکلیف میں مبتلا ہے مگر زیرو پوائنٹ کا موڑ مڑنے کے بعد یہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، پتہ چلا کہ عہدیدار کی یہ حالت زیروپوائنٹ پر نصب پی آئی اے کی پیگنگ کے لیے فلائٹ کا جہازی سائز بورڈ دیکھ کر ہوئی، جب قدرت اللہ شہاب نے وجہ معلوم کی تو گورا بولا آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ چین اور پیگنگ ہماری کتنی بڑی چڑ اور چھیڑ ہے۔
پاکستان میں ترکی ڈرامے اردو ڈبنگ کے ساتھ ایک عرصے سے چل رہے ہیں۔ ایک فضول اور بے ہودہ ڈرامے "عشق ممنوع" نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے تھے، ڈرامے میں بھتیجے کو سگی چچی یا تائی کے ساتھ عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔"میرا سلطان" ڈرامہ بھی پرائیویٹ چینلز پر چلااور میاں نواز شریف اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ ترک صدر طیب رجب اردوان سے ملاقات میں اس کا ذکر لے بیٹھے، سوچا یہ ہو گا کہ اپنے ملک کے ڈرامے کی تعریف سن کر ترک صدر ممنون و مسحور ہوں گے مگر طیب اردوان نے "بکواس" کہہ کر ٹال دیا۔ ان ڈراموں پر کسی ترقی پسند، لبرل، سیکولر کی "رگِ مقامیت" پھڑکی نہ کسی کو مقامی ہیرو یاد آیا، سب دیکھا کیے مگر جونہی پاکستان ٹیلیویژن نے ارطغرل دکھانا شروع کیا ساری زندگی "فن اور ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی" کا راگ الاپنے والے سیاستدان، ادیب، فنکار اور دانشور گرم توّے پر کھڑے ہو کر مقامی ہیرو، مقامی ثقافت اور مقامی ڈرامے دکھانے کا مطالبہ کرنے لگے، حالانکہ اس ڈرامے کے کرداروں کا لباس اس سے ملتا جلتا ہے جو بلوچستان، گلگت بلتستان، چترال اور آزاد کشمیر میں خواتین پہنتی ہیں، ارطغرل، سلیمان شاہ اور دیگر کی زبان سے وہی جملے سننے کو ملتے ہیں جو ہمارے عام شہری بولتے ہیں۔ السلام علیکم، اللہ خیر کریگا، تم پر اللہ کی رحمت ہو جیسے جملے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا ذکر دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ ؎ حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی، ایک، حتیٰ کہ گھوڑے، بھیڑ بکریاں اور رہن سہن کا انداز کسی پاکستانی کے لیے اجنبی نہیں۔
کوئی احمق اگر یہ سمجھتا ہے کہ راجہ داہر، راجہ رنجیت سنگھ یا عبدالغفار خان، جی ایم سید اور عبدالصمد اچکزئی میں سے کوئی پاکستانی عوام کا ہیرو ہو سکتا ہے یا ان پر ڈرامے بننے اور چلنے چاہئیں تو وہ عوام کی نفسیات کے واقف ہے نہ جذبات و احساسات سے آگاہ۔ بہن سے شادی کرنے والا راجہ داہر ایک نوجوان عرب محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا کہ اس کے ظالمانہ طرز حکمرانی سے سندھ کے عوام نالاں تھے اور بیرونی حملہ آور کی آمد و کامرانی سے خورسند۔ محمد بن قاسم کو سندھ کے عوام نے پرنم آنکھوں سے رخصت کیا اور موت کی خبر ملنے پر سوگ منایا جبکہ جی ایم سید اور اس کے ہمنوائوں کی مسلسل پروپیگنڈا مہم کے باوجود آج تک سندھی عوام راجہ داہر کا نام لینا پسند نہیں کرتے، ہمت ہے تو کوئی لیڈر اور اس کاپیروکار اپنے کسی بچے کا نام داہر رکھ کر دیکھ لے، قاسم نام کے سندھی تو ہزاروں میں ہیں یہی حال رنجیت سنگھ اور دیگر نام نہاد مقامی ہیروز کا ہے۔ پاکستان میں ٹیپو سلطان، حیدر علی اور دیگر مسلمان ہیروز کے نام پر ڈرامے بنے، چلے اور خوب مقبول ہوئے، مگر کسی نے راجہ داہر، رنجیت سنگھ، جی ایم سید، عبدالغفار پر توجہ کیوں نہ دی؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ ناپسندیدہ کردار ہیں اور کوئی شخص مردود کرداروں پر کبھی سرمایہ کاری نہیں کرتا، دشمن البتہ اپنے مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ بھارت اور افغانستان نے عبدالغفار اور اس کے خانوادے پر ہمیشہ سرمایہ کاری کی، تفصیلات جمعہ خان صوفی کی کتاب "فریب نا تمام" میں درج ہیں جس کو ولی خان کا خانوادہ آج تک جھٹلا سکا نہ اے این پی کا کوئی دانشور اور لیڈر۔ ارطغرل ایک چھوٹے سے خانہ بدوش قبیلے کا نوجوان سردار ہے مگر اپنی غیر معمولی ذہانت، بصیرت، شجاعت، رحمدلی، منصف مزاجی اور راست فکری کے بل بوتے پر ایک ایسی سلطنت کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے جس کا پرچم کئی صدیوں تک دنیا کے تین براعظموں پر لہراتا رہا، کمال اتاترک کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں اس بنا پر پذیرائی ملی کہ اس نے بدترین حالات میں ترکی کی آزادی برقرار رکھی اگرچہ عثمانی سلطنت کے مقابلے میں یہ ہزیمت خوردہ چھوٹی سی ریاست ہے جبکہ ارطغرل نے عظیم عثمانی سلطنت کے بیج بوئے۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں، قائد اعظمؒ نے پاکستان کی صورت میں ایک جدیدریاست کی تشکیل بھی کم و بیش انہی اصولوں اور خطوط پر کرنا چاہی جو ارطغرل جیسے رومان پسند، اسلام کے دلدادہ اور حضور اکرمﷺ کے شیفتہ نوجوانوں کے مدنظر تھے، ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظمؒ کے بعد کردو گلو ٹائپ رہنمائوں نے پاکستان کو ہائی جیک کر لیا۔ پاکستانی ناظرین کو ارطغرل ڈرامے میں عظمت رفتہ کی جھلک ملتی، نشاۃ ثانیہ کی امید نظر آتی اور اپنے قابل فخر ماضی سے جڑے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے، یہی ہمارے لبرل، سیکولر دوستوں کی چڑ اور چھیڑ ہے۔ عمران خان نے قوم کو ارطغرل ٹائپ دو تین مزید ڈرامے دکھا دیئے، ہر ڈرامے، فلم میں ساس بہو کی باہمی سازشوں، اپنی بھابی، بہو سے معاشقے اور نوجوان نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت، غیرت و حمیت سے بیگانہ کرنے والے مناظر سے اکتائے ناظرین نے بھرپور پذیرائی بخشی تو بعض دوستوں کا وہی حال ہو گا جو ٹرمپ کا چین کے ذکر پر ہوتا ہے۔