China Apna Yaar Hai
Irshad Ahmad Arif98
انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری میز پر سب لذت کام و دہن میں مشغول تھے کہ اچانک ڈاکٹر تھانگ فنگ شنگ نے سوال کیا اور صحافیوں کو پریشانی بلکہ پشیمانی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ سارے سینئر پاکستانی صحافی ایک دوسرے کی طرف دیکھا کیے۔ یہ چائنا ریلوے کنسٹرکشن کمپنی کے سربراہ کی طرف سے ترتیب دیا گیا عشائیہ تھا۔ بیجنگ کے ایک ایسے ریستوران کا انتخاب کیا گیا جہاں سنکیانگ کے حلال کھانے مقامی ذائقے کے ساتھ دستیاب ہیں۔ ریستوران پہنچے تو سکیورٹی کے انتظامات سخت پائے، شہر کے کسی دوسرے ہوٹل اور ریستوران میں ایسی سکیورٹی دیکھی نہ سنی۔ ظفر الدین محمود سے پوچھا تو پتہ چلا کہ چونکہ یہاں زیادہ تر مسلمان گاہک آتے ہیں لہٰذا سکیورٹی غیر معمولی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر تھانگ فنگ شنگ بیجنگ یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے سربراہ ہیں۔ اردو زبان بولتے اور پاکستان سے عشق کرتے ہیں۔ کئی بار پاکستان آ چکے اور انتخاب عالم کی طرح زندگی اردو زبان کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ مجاہد بریلوی نے عوامی جمہوریہ چین میں پہلی بار آمدکا ذکر چھیڑا اور بتایا کہ جب 1987ء میں آغا حسن عابدی نے بیجنگ میں ایک سیمینار کیا تو وہ بھی شریک ہوئے۔ تھانگ کو سب یاد تھا، بولے "مگر یہ سوچئے کہ آج سے اکتیس سال قبل چین کہاں تھا اور آج کہاں ہے"؟ 1960ء، 1970ء اور 1980ء کے عشرے میں پاکستان جانے والا ہر چینی حکمران’ دانشور اور صحافی واپسی پر اپنے دوست ملک کی ترقی، خوشحالی اور علمی و ادبی فتوحات کے گن گاتا واپس آتا۔ پاکستان سے وفود چین آتے تو ہم میں سے ہر ایک ان کے لیے نہ صرف چشم براہ ہوتے بلکہ ان کے علم و فضل ذہانت اور حب الوطنی سے مرعوب نظر آتے، ہم پاکستانیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے۔ مگر اب؟ ہم کیا کہتے ایک دوسرے کو دیکھا اور گریبان میں جھانکنے کے لیے سر جھکا لیا۔ دوسرے دن بیجنگ سے شنگھائی پہنچے تو مزید پریشانی اور ڈھیر ساری پشیمانی، جب پتہ چلا کہ شنگھائی1984ء سے کراچی کا برادر شہر ہے۔ انگریزی اصطلاح میں Sister City۔ شنگھائی کا ایک وفد پاکستان کی ترقی اور کراچی شہر کی کاسمو پولیٹن حیثیت کا نظارہ کرنے آیا تو حبیب بنک پلازہ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وفد کے ارکان کو یقین ہی نہ آیا یہ کئی منزلہ عمارت واشنگٹن، نیو یارک کے بجائے کراچی میں ہے اور اسے مقامی ماہرین نے تعمیر کیا۔ چینی ارکان نے وطن واپس جا کر رپورٹ دی کہ شنگھائی کو کراچی کی طرح جدید اور ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے ہمیں پاکستانی ماہرین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چینی اہلکارحسرت سے کہتے کہ کاش ہم شنگھائی کو کراچی کے ہم پلہ بنا سکیں۔ چینی حکومت اور شنگھائی کی بلدیہ نے کراچی کی نقل کی یا واشنگٹن، نیو یارک اور لندن کو رول ماڈل بنایا یہ بحث عبث ہے کہ آج شنگھائی کثیر المنزلہ عمارتوں کا جنگل ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت شنگھائی میں ہے اب امریکی شکاگو کے سیئرٹاور پہ فخر نہیں کر سکتے جبکہ ہم پاکستانی ماضی کو یاد کر کے صرف شرمندہ ہو سکتے ہیں وہ بھی صرف وہی جنہیں وطن کی بربادی کا دکھ اور ترقی معکوس کا احساس ہے۔ میں 1999ء میں پچاس سالہ تقریبات آزادی کے موقع پر بیجنگ آیا تھا۔ انیس سال بعد بیجنگ ایئر پورٹ پر اُترا تو دنیا ہی بدلی پائی، کہاں وہ پرانی طرز کا ایئر پورٹ اور ایئر پورٹ سے شہر تک فیروز پور روڈ طرز کی کھلی مگر جگہ جگہ پیوند لگی سڑک اور کہاں موجودہ جہازی سائز چمکتی دمکتی روڈ، جس کے دونوں طرف سبزہ و گل کی چادر بچھی ہے اور بلند قامت اشجار کا ہجوم۔ 1999ء میں بیجنگ کی سڑکوں پر گاڑیاں کم تھیں، سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور چنگ چی رکشے زیادہ۔ اب مہنگے ماڈل کی گاڑیاں ہیں، درآمدی اور مقامی سازو سامان سے بھرے کئی منزلہ شاپنگ مال اور مغربی طرز کا لباس پہنے مرد و خواتین، پستہ قد چینی کہیں دکھائی نہیں دیتے اور سازشی قصے کہیں سننے کو نہیں ملتے۔ کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما اور غربت مکائو پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہنگ چنگ وائی سے ہم نے غربت مکائو پروگرام کی کامیابی کا سبب پوچھا تو بولے نسخہ سادہ ہے۔ مخلص، پرعزم اور عوام دوست قیادت اور میرٹ پر فیصلے۔ 1981ء میں یہ پروگرام ہم نے شروع کیا تو غربت عروج پر تھی اور وسائل محدود مگر پارٹی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں نے مل کر دن رات محنت کی اور ایک ارب پچیس کروڑ کی آبادی میں سے اب صرف تین کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو 2020ء میں بہتر طرززندگی گزاریں گے اور پھر ہم خط غربت کا معیار مزید بہتر بناتے ہوئے ہر شہری کو وہ تمام سہولتیں فراہم کریں گے جن کا وہ تصور کرتے ہیں۔ چین کے دو شہروں کو دیکھ اور صحافیوں، دانشوروں، سرکاری حکام اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کی باتیں سن کر دل تو بہت کڑھا مگر یہ سوچ کر حوصلہ بڑھا کہ ایک کاہل، اور استعماری طاقتوں کی سازشوں کا ہدف قوم پرعزم اور مخلص قیادت کے میرٹ پر لئے گئے دلیرانہ فیصلوں سے تیز رفتار ترقی کے اہداف حاصل کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں جنہیں 1985ء سے پہلے کوریا، چین، ملائشیا اور کئی دیگر ممالک کے قائدین اور عوام رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے اور نقش قدم پرچلنے کی تمنا کرتے۔ برق رفتار ترقی کے پیچھے قیادت کی بصیرت ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل اور خود کفالت و خود انحصاری کا جذبہ۔ میں نے ڈاکٹر ہنگ سے پوچھا کہ چین کے غربت مکائو پروگرام کے لیے کسی عالمی مالیاتی ادارے سے مدد لی؟ بولے ابتدا میں شائد لی ہو مگراب کبھی نہیں۔ ترجیحات واضح تھیں، ارادہ مضبوط اور اخلاص بے پایاں۔ ہر شہری کو خوراک، لباس، تعلیم، صحت، روزگار، گھر، بنیادی شہری سہولتوں، بجلی، صاف پانی، گیس، فون کی فراہمی کے لیے پھر جو بن پڑا ہم نے کیا۔ ہنگ نے یہ بتانے میں بھی عار محسوس نہ کی کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق غربت مکائو پروگرام کامیاب ہے اور اعداد و شمار خوش کن مگر ہم پورے پروگرام کا آڈٹ کر رہے ہیں، سروے کرائے جا رہے ہیں کہ کہیں سرکاری افسروں اور پارٹی کارکنوں نے صرف کاغذی کارروائی تونہیں کی۔ اس پروگرام کے تحت شہریوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنااور کارآمد شہری بنانا ہے، مستقل دست نگر اوربھکاری بنانا نہیں، جیسے ہمارے ہاں چلنے والا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ ایک بار امداد لینے کی لت لگ گئی توپھر ہاتھ پائوں ہلانے کی زحمت کون کرے۔ چینی وزارت خارجہ کی بریفنگ میں مقامی، غیر ملکیوں اور بھارتی صحافیوں نے سی پیک کے بارے میں سوالات اٹھائے تو ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے اور امریکہ یا آئی ایم ایف کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دو ممالک کے باہمی معاملات میں دخل اندازی کرے یا پوچھے کہ دوطرفہ معاملات کی نوعیت کیا ہے۔ گلیوں، بازاروں، سرکاری دفتروں اور کاروباری اداروں میں پاکستان اور اہل پاکستان سے محبت و اپنائیت کا وہی عالم ہے جو برسوں پہلے تھا۔ عام دکانوں نہیں بلکہ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بھی نرخ زیادہ بتا کر کم قیمت پر مال فروخت کرنے کا وہی انداز جس کا مشاہدہ میں نے 1999ء میں کیا۔ برادرم ہارون الرشید کو ایک سینری پسند آئی تو مادام نے قیمت دو سو اسی یوان بتائی ہارون صاحب اور حبیب اکرم زیادہ قیمت سن کر چل پڑے تو میں نے چالیس یوان کی آوازلگائی اور پھر سودا طے ہو گیا۔ خوشنود علی خان اور حبیب اکرم کے ساتھ بیجنگ اور شنگھائی میں شاپنگ کے لیے نکلا تو یہی تجربہ ہوا۔ سترہ سو یوان کا بیگ پونے دوسو یوان میں خرید کر بھی دھڑکا لگا رہا کہ کہیں زیادہ یمت تو نہیں دے بیٹھے۔ سو بتاتے تو شائد بات بن جاتی۔ عمران خان ملک میں غربت کے خاتمے کا پروگرام شروع کرنے والے ہیں۔ کاش وہ ایک بار چینی بھائیوں بالخصوص ڈاکٹر ہنگ سے مشورہ کر لیں اور شنگھائی کی برق رفتار ترقی کے معماروں کے تجربات کو سامنے رکھیں۔ ان کے اپنے ناتجربہ کار مشیر تو کچھ بھگ گل کھلا سکتے ہیں۔ میرا اشارہ ان مشیروں کی طرف ہے جن کے بارے میں حبیب جالب نے برسوں قبل مشہورزمانہ نظم مشیر کہی تھی، امریکہ و یورپ سے مرعوب مشیر عمران خان کو بھی یہی مشورہ دیں گے۔ ؎چین اپنا یار ہےاس پہ جاں نثار ہےپر وہاں ہے جو نظاماس طرف نہ جائیواس کو دور سے سلام