Chiragh Sab Ke Bujhain Ge Hawa Kisi Ki Nahi
Irshad Ahmad Arif94
نیب نے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو گرفتار کر کے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو حیران بلکہ پریشان کر دیا ہے۔ پنجاب بالخصوص لاہور میں عبدالعلیم خان، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی طرح عمران خان کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ مخالفین جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان کو خان کی اے ٹی ایم قرار دے کر دل پشوری کرتے رہے۔ نیب میں زیر تفتیش ہونے کی بنا پر عبدالعلیم خان وزیر اعلیٰ نہ بن سکے ورنہ وہ اس منصب کے مضبوط ترین امیدوار تھے۔ جہانگیر ترین ان پر مہربان، عمران خان قدر دان۔ فارسی میں کہتے ہیں تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ۔ (انسان تدبیر کر رہا ہوتا ہے مگر تقدیر اس پر مسکرا رہی ہوتی ہے) شاہ محمود قریشی اپنے آپ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے مناسب ترین امیدوار سمجھتے تھے مگر اپنے ہی کارکن نے ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔ جس کے سہارے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لاڈلے بنے وہی کاروبار عبدالعلیم خان کی منزل کھوٹی کر گیا۔ گرفتاری کے بعد عبدالعلیم خان نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے منصب سے مستعفی ہو کر حقیقی جمہوریت پسندوں کے دل موہ لیے، کاش ایسی ہی سیاسی اخلاقیات کا مظاہرہ باقی سیاستدان بھی کر پاتے۔ عبدالعلیم خان چاہتے تو نیب کی حوالات یا جیل میں بیٹھ کر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی طرح جماعتی اور وزارتی معاملات چلا سکتے تھے۔ میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے تحت سیاست کے لئے تاحیات نااہل ہیں مجال ہے کہ ایک دن بھی پارٹی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کا عندیہ ظاہر کیا ہو یہی حال برادر خورد کا ہے جو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی صدارت پر براجمان ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکن مانیں نہ مانیں عبدالعلیم خان کی گرفتاری پارٹی اور پنجاب حکومت کے لئے نقصان دہ ہے۔ پنجاب اور اس کے دارالحکومت میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی دلجوئی عبدالعلیم خان کے علاوہ کرنے والا کوئی نہیں۔ عمران خان اور ان کے دیگر ساتھی حکومت کی کان نمک میں جا کر نمک ہو چکے۔ چودھری محمد سرور کارکنوں میں مقبول ہیں مگر گورنر ہائوس کو وہ تحریک انصاف کا دفتر بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے۔ سردار، عثمان بزدار ڈیرہ غازیخان میں اپنے حلقے کے کارکنوں کے لئے بمشکل وقت نکال پاتے ہیں کہ منصبی ذمہ داریوں کے علاوہ جان پہچان کا مسئلہ ہے اور سکیورٹی و پروٹوکول کا گورکھ دھندا۔ عمران خان ان کی سادگی پسندی سے متاثر ہیں مگر موصوف کا پروٹوکول دیکھ کر میاں شہباز شریف یاد آتے ہیں جو تمام تر جاہ و جلال کے باوجود اس قدر پروٹوکول کے عادی تھے نہ ملنے ملانے میں اس قدرتنگدست۔ وزیر اعلیٰ ہائوس میں تو یہ بھی مشہور ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار ڈیرہ غازی خاں کے سوا باقی علاقوں کے کارکنوں کو عموماً عبدالعلیم خان سے ملنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہ باہمی طور پر طے شدہ پالیسی تھی یا عمران خان کی ہدایت؟ واللہ اعلم بالصواب۔ بجا کہ عمران خان اپنی افتاد طبع کے باعث عبدالعلیم خان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں گے، مگر پنجاب میں تحریک انصاف کا پرسان حال کون ہو گا؟ ایک ایک کر کے عمران خان قابل اعتماد ساتھیوں کو اپنی بے نیازی، میرٹ اور قانون پسندی کی بھینٹ چڑھاتے رہے، عبدالعلیم خان کے بعد پرویز خٹک اور محمود خان کی باری آ گئی تو عمران خان کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے سے کاروبار حکومت کیسے چلائیں گے؟ اور بھان متی کا کنبہ اُن سے کب تک وفاداری نبھائے گا؟ یہ اہم سوال ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے زیادہ پریشان نظر آتی ہے۔ کچھ لیگی عبدالعلیم خان کی گرفتاری کو شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہبازاور دیگر رہنمائوں کی گرفتاری کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں اور بعض پپلیوں کے خیال میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ کل تک عبدالعلیم خان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے اب یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ نیب کمزور کیس کے ذریعے عبدالعلیم خان کی باعزت بریت کا اہتمام کرے گی جس طرح قمر الزمان چودھری کے دور میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو کلین چٹ ملتی رہی، بعض تجزیہ نگار اسے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لئے آسانی پیدا کرنے کی ترکیب اور کچھ نیب کی لانڈری سے دھل کر ان کی جگہ لینے کی تدبیر قرار دے رہے ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات اور سیاسی تعصب کی بنا پر کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں تبدیلی کا عمل واقعی جڑ پکڑ رہا ہے اور ریاست نے بلا تفریق و بلا امتیاز احتساب کے ذریعے سیاسی جماعتوں، پولیس و بیورو کریسی حتیٰ کہ عدلیہ اور فوج سے کرپشن کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جس جس نے قومی دولت لوٹی ہے وہ قانون کی گرفت میں آئیگا، تعلق اس کا خواہ حکومت سے ہو، اپوزیشن یا بیورو کریسی، فوج و عدلیہ سے عچراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سینئر وزیر اور عمران خان کے قریبی ساتھی کی گرفتاری سے نیب کی ساکھ مزید بہتر ہوئی۔ اپوزیشن کے منفی پروپیگنڈہ کو ضعف پہنچا اور احتساب کے عمل کو تقویت ملی اگر وزیر اعظم عبدالعلیم خان کو نہیں بچا سکتے تو وہ شریف خاندان سے ڈیل کی کوششوں کا حصہ کیسے بنیں گے اور کسی دبائو کو خاطر میں کیوں لائیں گے؟ یہ تبدیلی کا فیض ہے کہ میاں نواز شریف بغرض علاج لندن جانے کے بجائے سروسز ہسپتال سے پھر کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے ہیں اور انتظامیہ نے ایک سزا یافتہ شخص کے نخرے برداشت کرنے کے بجائے قانونی تقاضوں کو اولیت دی۔ ورنہ ماضی میں یہاں ہسپتال نزلہ زکام کے قیدیوں کی عشرت کدے بنے رہے کس کس کا نام لیا جائے سبھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ موجودہ حکومت بلا امتیاز احتساب کے وعدے پر قائم رہی اور ریاست کے مختلف اداروں نے بیرونی دبائو یا سیاسی مصلحتوں کے تحت کسی مرحلے پر کمزور ی و لچک نہ دکھائی تو یہ پروپیگنڈا خود بخود دم توڑ جائے گا کہ حرام کے مال کے بغیر اس ملک میں سیاست ہو سکتی ہے نہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کے بغیر کاروبار۔ پانامہ سکینڈل منظر عام پر آیا تو ہمارے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے یہ باور کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ منڈی کی معیشت اور جمہوریت میں کرپشن جرم ہے نہ منی لانڈرنگ غیر قانونی اور نہ تعلیم، صحت، روزگار کے لئے مختص بجٹ کی خرد برد غیر اخلاقی حرکت۔ قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنا جمہوری تقاضہ ہے اور اقربا پروری و دوست نوازی پارلیمانی سیاست کا حسن۔ سیاست اور جرم کے ملاپ نے پاکستان میں پارلیمانی سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔ بدترین بلیک میلنگ، قدم قدم پر سمجھوتہ اور قومی مجرموں سے رو رعایت؟ ۔ عکیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف اور حکومت نے نیب پر الزام تراشی کی نہ کسی سطح پر سینہ کوبی ہوئی جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا شیوہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ادارے مضبوط ہو رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کو فروغ مل رہا ہے۔ اگر موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو جیلوں اور ہسپتالوں میں وہی سہولتیں اور مراعات ملنے لگیں جو اس ملک کے کروڑوں غریب اور کمزور خاک نشینوں کا مقدر ہیں اور اشرافیہ کو وی آئی پی پروٹوکول کی صورت میں ناز نخرے دکھانے کا موقع ملے نہ اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس نہ کرنے کی شہہ تو بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کی واپسی مشکل نہیں۔ سعودی عرب نے نازک اندام شہزادوں کو ایک ماہ فرش پر سلایا، ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی خطیر رقم وصول کر لی، حکومت پاکستان سزا یافتہ مجرموں سے صرف وہی سلوک کرے جو جیلوں میں عام قیدیوں سے ہوتا ہے، انشاء اللہ یہ ایک ماہ میں پچیس تیس ارب ڈالر بآسانی واپس کریں گے اور ٹی وی پر اعتراف جرم بھی۔ موجودہ انسانیت سوز اور غیر مساوی طبقاتی نظام میں تو یہ ایک دمڑی واپس کرنے سے رہے۔ جب وی آئی پی رہائش، خوراک، علاج اور سفر سرکاری خرچ پر دستیاب تو جیب ڈھیلی کیوں کریں۔؟ این آر او کی خبریں گرم ہوں توکوئی اس بارے میں سوچے بھی کیوں؟ اس بار این آر او ہو گیا تو عمران خان یحییٰ خان اور پرویز مشرف سے زیادہ بدنام ہوں گے۔ صرف بدنام نہیں قومی مجرم بھی ٹھہریں گے۔