Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Choron Ki Baraat

Choron Ki Baraat

ریاست مدینہ کے قیام اور تبدیلی کا سفر جاری رہے گا یا ریورس گیئر لگ سکتا ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ یہ زمانہ طالب علمی کا واقعہ ہے، دو تین دوستوں کے ساتھ اسلام آباد جانے کا موقع ملا تو اسمبلی کا اجلاس دیکھنے چلے گئے۔ اتفاق سے یہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا۔ ان دنوں افغان حکمران سردار دادو نے پاکستان کو دھمکیاں دی تھیں اور اجلاس سرحدی صورتحال پر غور کے لئے بلایا گیا تھا۔ مہمانوں کی گیلری میں ہمارے ساتھ دو تین بزرگ بیٹھے تھے جن کا جھکائو اپوزیشن کی طرف تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایوان میں آتے ہی قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمود کی نشست پر گئے اور احترام سے مصافحہ کیا، بھٹو کے معتمد خاص عبدالحفیظ پیرزادہ، حزب اختلاف کے سیکرٹری پروفیسر عبدالغفور احمد سے گلے ملے اور ایک دوسرے وزیر سردار شیر باز خان مزاری سے خوش گپیوں میں مشغول نظر آئے تو ان بزرگوں نے حکومت اور اپوزیشن کے ان جید رہنمائوں کو ملاحیاں سنائیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ تو سارے آپس میں ملے ہوئے ہیں، ہمیں بے وقوف بنانے کے لئے عوامی اجتماعات میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، ملک دشمنی کے طعنے دیتے ہیں مگر یہاں باہم شیروشکر نظر آتے ہیں جب تک اجلاس کا باقاعدہ آغاز نہ ہوا یہ سادہ لوح شہری سیاستدانوں کے "منافقانہ"طرز عمل پر سیر حاصل تبصرہ کرتے رہے۔ گزشتہ روز قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پنجاب کے سابق خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کو جھپیاں ڈالتے دیکھ کر مجھے وہ منظر یاد آیا اور ان بزرگ شہریوں کا تبصرہ بھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ 1970ء بلکہ 1980ء کے عشرے تک جن سیاستدانوں سے ہمارا ملنا جلنا رہا اور جن سیاسی رہنمائوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی، ان کی آنکھ میں شرم تھی اور اپنے مخالفین کے ذکر میں مروت و لحاظ سے کام لیتے۔ ذوالفقار علی بھٹو استثنیٰ ہیں جن کی زبان سے مخالفین محفوظ رہے نہ غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات سے۔ 1988ء کے بعد سیاست میں جرم کا عنصر شامل ہوا اور کرپشن، منی لانڈرنگ، قبضہ گیری اور بے ضابطگی کو منتخب حکمرانوں اور عوامی نمائندوں نے اپنے حقوق و فرائض کا لازمی حصہ بنایا تو شرم و لحاظ کا وصف بھی غائب ہو گیا۔ کسی کو قومی دولت لوٹتے شرم نہ آئے تو وہ اپنے مخالف کی گالم گلوچ کو خاطر میں کیوں لائے اور بدنام زمانہ لٹیروں اور مستند ڈاکوئوں کے ساتھ گلے ملنے سے کیوں گھبرائے۔ الزام تراشی اور تلخ بیانی سیاسی بیانیے کا حصہ ہے ہر جگہ سیاستدان ایک دوسرے کو زبانی کلامی رگیدتے ہیں مگر کرپشن کے مقدمات، عدالتی فیصلوں تک نوبت کہیں نہیں پہنچتی۔ ہمارے ہاں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں نے بے نظیر بھٹواور آصف علی زرداری کی کرپشن کے ثبوت عدالتوں کو دیے اور شریف خاندان کی بدعنوانیوں کا بھانڈا پیپلز پارٹی کی قیادت نے پھوڑا۔ آصف علی زرداری سے لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کے لئے سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰ ایک نہیں کئی بار میاں شہباز شریف نے کیامگر دونوں پانچ پانچ سال تک برسر اقتدار رہے۔ سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کے بجائے نیب کے مقدمات سے بری کرانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ایسی اندھیر مچی کہ استاد دامن یاد آتے تھے ؎کھائی جائو، کھائی جائو، بھیت کنے کھولنےوچو وچ کھائی جائو، اُتوں رولا پائی جائوچاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں اَپو وچ ونڈی جائو، اَپو وچ کھائی جائوانہاں مارے انہی نوں، گَھسن وجے تھمی نوں جنی تہا توں انہی پیندیٔ، اونی انہی پائی جائوجمہوری ممالک میں اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہوتی اور مضبوط اپوزیشن حکومت کو راہ راست پر رکھتی ہے مگر ہر اتحاد کا کوئی قومی اور عوامی ایجنڈا ہوتا ہے اور حکومت کے مبیّنہ جرائم کی لمبی چوڑی فہرست، جس پر عوام اور سیاسی کارکنوں کو موبلائز کیا جاتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن چار ماہ کی حکومت کے خلاف عوام کو کس موضوع پر موبلائز کرنا چاہتی ہے؟ 2010ء کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف زرداری حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو عدلیہ بحالی کا نعرہ لگایا، جس کا عوام نے ساتھ دیا۔ 2014ء میں انتخابی دھاندلی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا جواز تھا۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن قائم حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد کن مشترکہ نکات پر قائم ہوا؟ نیب کے مقدمات، ایف آئی اے کی جے آئی ٹی رپورٹ، کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر متوقع عدالتی فیصلے اور سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلی، خوشگوار تبدیلی کے امکانات؟ عمران خان کی حکومت نے کڑوا گھونٹ بھرا میاں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف اور پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین مانلیا، پیش نظر سیاسی استحکام تھا اور پارلیمنٹ میں خیر سگالی کی فضا پیدا کرنا، عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا منظور نہ کی جو نیب کا منشا تھا، عدالت عظمیٰ نے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا، جس کا مقصد اپوزیشن کا پیدا کردہ یہ تاثر دورکرنا تھا کہ عدالتی فیصلے آئین و قانون کے بجائے سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کے تحت ہو رہے ہیں، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ اپوزیشن اب پارلیمنٹ، حکومت اور سیاسی نظام کو مفلوج، ریاست کی رٹ کو چیلنج اور فعال عدلیہ و نیب کو بلیک میل کرنے کے درپے ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان اور ان کے عجلت پسند ساتھیوں نے صرف پانچ ماہ میں اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا جبکہ عوامی اورعمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے اپوزیشن کو اکٹھا ہونے کا موقع دے کر قوم کے علاوہ ریاستی اداروں کو یہ باور کرایا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں، کرپشن کے یک نکاتی ایجنڈے پر یہ جماعتیں پہلے بھی متحد تھیں اور اب بھی یک جان و دوقالب ہیں، سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی بات نورا کشتی تھی، عوام کو بے وقوف بنانے کی چال۔ اتحاد صرف اپنی اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے اور حکومت عدلیہ اور نیب پر دبائو ڈال کر جان چھڑانے کی کاوش ہے۔ چوروں کی بارات کواگر عوامی مفاد، ملکی استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت عزیز ہوتی تو یہ 2008ء سے 2018تک مل جل کر غربت و افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، جہالت و پسماندگی اور نسلی، لسانی، مذہبی و مسلکی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ تدبیر کرتے۔ مہاتیر محمد، طیب اردوان، لی کوان اور ڈینگ سیائو پنگ نے دس سال میں اپنے اپنے ممالک کو پسماندگی کے گڑھے سے نکال کر خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا مگر ہمارے دونوں سیاسی دیوتا اپنی دولت میں اضافے اور اگلی نسلوں کے روشن معاشی مستقبل کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔ اتحاد کے حق میں رٹا رٹایا جملہ سننے کو ملتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی؟ کیا واقعی؟ حب الوطنی، عوام دوستی، ملک و قوم، عزت نفس اور غیرت بھی نہیں؟ ؟ ؟ اس اتحاد کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، آزاد عدلیہ اور نیب کو یا بے رحم سیاست کو؟ جس نے معصوم بچوں کے مُنہ سے نوالہ چھین لیا، عوام کو تعلیم صحت اور روزگار کے بنیادی حق سے محروم کر دیا اور پاکستان کو ناکام ریاست کی راہ پر دھکیل دیا مگر کلیجہ اس کا ٹھنڈا نہیں ہوا۔ تبدیلی کا عمل مگر رک پائے گا یا نہیں؟ ۔ افتخار چودھری نے عدالتی فعالیت کا آغاز کیا یہ سفر ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جاری ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا جو شعور عوام کو دیا اسے ریورس گیئر لگ سکتا ہے یا تبدیلی سفر میں ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔