کورونا پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کو جس عمدگی اور چابکدستی سے باشعورعوام نے ناکام بنایا، وہ قابل داد نہ سہی، بے مثال ضرورہے، کورونا کو بازاروں، دفتروں، مذہبی مقامات اور گلیوں سے گھسیٹ کر گھروں میں لانے کی جو تگ و دو ہم نے کی کسی دوسری قوم نے بایدو شاید، حکومت نے بھی تنگ آ کر کاروبار کھولا اور ٹرانسپورٹ چلا دی، پندرہ مئی سے اب تک عوام کا موج میلہ جاری ہے، تاجروں کے من کی مراد پوری ہو رہی ہے اور کورونا کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد توقعات کے عین مطابق عنقا، پندرہ روز آزادیوں کا حتمی نتیجہ تو اگلے ہفتے سامنے آئے گا کہ طبی ماہرین کے مطابق کورونا کی علامات پندرہ دن بعد ظاہر ہوتی ہیں لیکن اب نئے مریضوں اور اموات کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے، ان سطور کی اشاعت تک گزشتہ دو دنوں کے دوران مریضوں کی روزانہ اوسط تعداد پچیس سو اور اموات اٹھہتر ہے، پچھلے ہفتے سے دوگنی۔ حکومت دوبارہ لاک ڈائون کرنے سے رہی، اب تو وہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ہسپتالوں، طبی عملے پر پڑنے والے غیر معمولی دبائو کو سنبھالے، خدا نہ کرے کہ اگلا ہفتہ مزید بُری خبریں لے کر آئے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علاوہ پاکستان کے طبی ماہرین کے وہ اندیشے درست ثابت ہوں جو کورونا کے غیر معمولی پھیلائو کے سلسلے میں پچھلے ماہ کے اواخر اور اس ماہ کے اوائل میں ظاہر کئے گئے تھے۔
یہ غنیمت ہے کہ ابتدائی پندرہ روزہ لاک ڈائون کے طفیل کورونا پھیلائو کی رفتار مدہم رہی، اس قدر مدہم کہ بعض لوگوں نے خاتمے کی تاریخیں دینا شروع کر دیں اور عوام کی غیر محتاط و غیر سنجیدہ اکثریت حکومت، طبی ماہرین اور احتیاط پسند اقلیت کا مذاق اڑانے لگی، کسی نے اسے بل گیٹس کی شرارت قرار دیا، یہودیوں اور صلیبیوں کی سازش اور کچھ کے نزدیک کورونا کے نام پر غیر ملکی امداد بٹورنے کا حکومتی منصوبہ؟ حکومت کو مارچ، اپریل اور مئی کے تین ہفتے کی مہلت ملی، جس کا فائدہ اٹھا کر اس نے مریضوں کے علاج معالجے، دیہاڑی داروں کی مالی امداد اور طبی سہولتوں میں اضافے ٹائیگر فورس کی تشکیل کے اقدامات کئے مگر حکومت کواصل آزمائش اگلے ہفتے شروع ہو گی، خدانخواستہ قابل علاج مریضوں کی تعداد دستیاب وینٹی لیٹرز کے قریب پہنچ گئی، آئی سی یوز میں جگہ کم پڑنے لگی اور طبی عملہ مشکل صورتحال سے دوچار ہوا تو ہنگامہ برپا ہو گا، اپوزیشن کی توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہے مگر فی الحال گولہ باری رائیگاں جارہی ہے، حالات خراب ہوئے تو نشانہ خطا ہو گا نہ دفاع آسان، کورونا کو کھینچ کھینچ کر اپنے پیاروں سے بغل گیر کرانے والے عجلت پسند عوام اور "بھوکے مر گئے" کی تکرار کرنے والے تاجر بھی اپنی غلطی کا ملبہ حکومت پر ڈالیں گے اور عمران خان کے وہ مشیر بھی شائد دفاع کے لئے تیار نہ ہوں جو مکمل لاک ڈائون کے خلاف اس کی پالیسی کو بصیرت کا شاہکار اور امریکہ و یورپ کے لئے قابل تقلید قرار دیتے نہیں تھکتے، حکمرانوں کی قسمت اچھی ہوئی اگلے پندرہ روز بھی خیریت سے گزر گئے تو پھر ستے خیراں ہیں کہ جتنی بے احتیاطی ہم سب نے عید کے دنوں میں کرنی تھی کر لی، اس سے زیادہ کیا ہو گی۔
کورونا تو خیر قدرتی آفت تھی مگر آٹے، مرغی کی ہوشربا مہنگائی اور سندھ و پنجاب پر ٹڈی دل کا حملہ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں اور متعلقہ وزارتوں کے علاوہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کی مجرمانہ غفلت، لاپروائی اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ آٹا بحران نے سر اٹھایا تو وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جس نے رپورٹ پیش کی اور حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کے علاوہ پنجاب و مرکز میں متعلقہ بیورو کریٹس کو او ایس ڈی بنا دیا، وفاقی وزیر خوراک خسرو بختیار کا تو صرف محکمہ تبدیل ہوا، پہلے سے بہتر وزارت دیدی گئی لیکن پنجاب کے وزیر سمیع اللہ چودھری کو استعفیٰ دینا پڑا، سابقہ صوبائی سیکرٹری خوراک نسیم صادق نے شور مچایا کہ کمشن کی رپورٹ میں گھپلا ہے، اصل کرداروں کو بچایا جا رہا ہے مگر سنی ان سنی کر دی گئی، جب وفاقی حکومت نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کو فوکس کیا تو نسیم صادق کے خدشات حقیقت میں بدلتے نظرآئے، اب وفاقی سیکرٹری خوراک پوپلزئی کو پیپرا کا چارج مل گیا ہے اور فلور ملز نے آٹے کی قیمت میں پانچ روپے فی کلو اضافہ کر کے نسیم صادق کے اندیشوں کی تصدیق کر دی ہے۔ پاکستان میں آٹے کے مقابلے میں چینی کا استعمال کئی گنا کم ہے، ایک کلو آٹے کے مقابلے میں چینی ایک چھٹانک بھی مشکل سے استعمال ہوتی ہے مگر حکومت اور میڈیا کا سارا زورشوگر کمشن پر ہے جبکہ فائدہ فلور مل مالکان، مرغی کے کاروبار سے وابستہ گروہ اٹھا رہے ہیں یا پنجاب و سندھ حکومت کی نااہلی کا عذاب غریب کاشتکاروں پر ٹڈی دل کی صورت میں مسلّط ہے، کھڑی فصلیں، سبزیاں، باغات اجڑ رہے مگر مرکزی اور صوبائی حکومتیں صرف بلند بانگ دعوئوں میں مشغول ہیں چند ماہ قبل ماہرین نے آگاہ کر دیا تھا کہ ٹڈی دل انڈے دے کر جا رہی ہے اور ان انڈوں کو بروقت تلف نہ کرنے کی صورت میں مئی جون کے مہینے تباہی کا پیغام لے کر آئیں گے مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اب ٹڈی دل آگے آگے ہے، صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ادارے اس کے پیچھے پیچھے ٹڈی دل تباہی پھیلا کر نکل جاتا ہے تو محکمہ زراعت کی مشینری فصلوں کی لاشیں اٹھانے پہنچی، اور "سب اچھا" کی رپورٹ دیتی ہے کہ یہی اس کے بس میں ہے۔ حیرت این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے پر ہے جسے کورونا کے حوالے سے پیشگی اقدامات کی توفیق ہوئی نہ ٹڈی دل کے حملے کا قبل از وقت علم، تنخواہیں اور مراعات یہ ادارے 2005ء سے پورا سال وصول کرتے ہیں شائد ان کا بنیادی کام کوئی آفت آنے کے بعد رننگ کمنٹری ہے، مافیاز کا شور ہم عرصہ سے سن رہے ہیں، ملک میں مختلف قسم کے مافیاز موجود بھی ہیں لیکن حکمرانوں، حکومتوں اور محکموں و اداروں کی نالائقی، نااہلی اور بے تدبیری لاعلاج؟ کورونا ہو، ٹڈی دل یا آٹے اور مرغی کی ہوشربا مہنگائی یہ کسی مافیا کا کارنامہ کم، نااہلی کا شاخسانہ زیادہ ہے۔ نااہل افراد اور ادارے کسی مافیا سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے بینک بیلنس اور اثاثوں میں اضافہ کر سکتے ہیں، میرا خیال ہے کر بھی رہے ہیں، اسے ختم نہیں کر سکتے، اب تک کا تجربہ یہی ہے۔ عوام بے چارے لائیو کیا کریں، کہاں جائیں کورونا سے نمٹیں، ٹڈی دل سے یا آٹے کی مہنگائی پر سینہ کوبی کریں۔ خدا نہ کرے کہ کورونا اور بھوک ان پر مل کر حملہ آور ہوں اور حکمران کمنٹری کرتے رہیں۔ خدا نہ کرے۔