پنجاب میں لاک ڈائون کے اعلان کے بعد صرف اسلام آباد کا وفاقی ایریا باقی ہے جہاں عملاً کاروباری سرگرمیاں بند ہیں، دفعہ 144نافذ، فوج موجود اور آمدو رفت محدود مگر حکومت نے باضابطہ لاک ڈائون کا اعلان نہیں کیا، وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے لاک ڈائون نہ کرنے کی دلیل کو پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، مسلم لیگ کے راجہ فاروق حیدر نے مانا نہ تحریک انصاف کے وزراء اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار اور محمود خان قائل ہوئے، وقت اور حالات کے تقاضوں کا درست ادراک نہ کرنے والے لیڈر کو اپنے پیروکاروں کی حکم عدولی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ پیروکار عثمان بزدار اور محمود خان جیسے خود تراشیدہ، فرماں بردار اور "گُگھ دام" ہی کیوں نہ ہوں۔"گُگھ دام" سرائیکی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی اور مفہوم "معصوم بے زبان "ہے کچھ اور نہیں، اتوار کی دوپہر ٹی وی چینلز نے وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کی خبر چلائی تو تاثر ابھرا کہ عمران خان یا جزوی لاک ڈائون کا اعلان کرنے والے ہیں دو روز قبل قوم سے خطاب وہ کر چکے تھے۔ لاک ڈائون کے خلاف اپنے کمزور دلائل سے وہ قوم کو مطمئن کر سکے نہ میڈیا و مخالفین کو متاثر، اتوار کی تقریر میں کسی غیر معمولی اقدام کی توقع کی جا رہی تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، وزیر اعظم نے سابقہ باتیں دہرائیں اور اُن پچیس فیصد دیہاڑی داروں، رکشے، ریڑھی، چھابڑی والوں کا مقدمہ پیش کیا جو ممکنہ لاک ڈائون سے متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہ دے پائے کہ جب وہ عوام سے رضاکارانہ لاک ڈائون یا سیلف آئسولیشن کی اپیل کر رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں غریبوں پر جو اُفتاد پڑے گی بلکہ کئی روز سے پڑ رہی ہے اس سے نمٹنے کی تدبیر کیا ہے اور حکومت کی طرف سے اب تک ان کمزوروں کے لئے کیا ہوا؟
ملک بھر میں فوج طلب کئے جانے کے بعد یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ کرونا وبا سے نمٹنا اور لوگوں کو رضا کارانہ خلوت و تنہائی پر آمادہ کرنا سول انتظامیہ کے بس کی بات نہیں، وزیر اعظم عمران خان چاہتے تو گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران اپنے کارکنوں، فلاحی تنظیموں کے رضا کاروں اور جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہر گلی محلے میں موجود خدائی خدمت گاروں کی خدمات حاصل کر سکتے تھے۔ یہ پرجوش پیر و جواں آگہی کی مہم چلاتے، غریب و نادار، دیہاڑی دار گھرانوں کا سراغ لگاتے اور لاک ڈائون کی صورت میں اہل خیرکو ان کی امداد پر آمادہ کرتے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں سے کسی کو خیال آیا نہ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت نے سوچنے کی زحمت گوارا کی۔
عمران خان نے اپنے وسیم اکرم پلس کو مشکل میں ڈال دیا، عثمان خان بزدار صوبے میں بگڑتی صورتحال دیکھ کر سرکاری اور نجی ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، سیاحتی مقامات، شاپنگ مالز بند کرنے پر مجبور ہیں، ڈبل سواری پر پابندی لگا دی، صورتحال کنٹرول کرنے کے لئے فوج طلب کر لی۔ پریس کانفرنس میں مگر وضاحت کرتے رہے کہ یہ لاک ڈائون نہیں، گویا لاک ڈائون کسی عجیب الخلقت سانپ کا نام ہے جسے حکومت نے فی الحال اپنی پٹاری میں بند کر رکھا ہے۔ بھلے لوگو!کاروبار زندگی معطل کرنے کے بعد مزید کون سی پابندی لگانی باقی ہے۔ عوام کی جان بچانے اور بڑے پیمانے پر نقصان سے بچنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے ذریعے قوم کو لاک ڈائون کی آزمائش سے گزارا جا رہا ہے۔ اللہ کرے کہ عوام اس آزمائش میں پورے اتریں لیکن فی الحال حکمران تو، خواہ وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کرونا قدرتی آفت ہے لیکن یکدم نازل ہوئی نہ اس قدر تیز رفتار کہ تعاقب کرنا مشکل ہوتا، اچھا خاصہ وقت ملا اور اس سے نمٹنے کا بہترین چینی ماڈل بھی سامنے تھا لیکن حکومتیں فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں۔ اگر تفتان کی سرحد اور ملک کے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر ہی ابتدا میں چھان بین اور حفاظت کے مکمل انتظامات کر لئے جاتے، چار پانچ ارب روپے وہاں قرنطینہ کے لئے عارضی تعمیرات، طبی و غذائی سہولتوں اور نگرانی کے مختص ہوتے تو ملک میں پریشانی، خوف و ہراس اور بے بسی کی جو کیفیت اس وقت نظر آتی ہے اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب حکومت اور ملک کے خوشحال اور مخیر طبقے کا اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ انسان کے رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا، وما من دابۃ فی الارض الاعلیٰ اللہ رزقھا(زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو) انسان پر جدوجہد فرض ہے جب جدوجہد کے راستے مسدود ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ انسان کو زندہ رکھنے کے لئے خود انتظامات فرماتا ہے۔ خوش نصیب ہے وہ شخص اور مسلمان جو یہ ذمہ داری نبھانے میں خدائی انتظامات کا حصہ بنے ہیں۔ کشمیر میں 5 اگست 2019ء سے اسیّ لاکھ مظلوم عوام اس لاک ڈائون کو بھگت رہے ہیں جس کا سامنا چین، اٹلی، برطانیہ، سپین اور کئی دوسرے ممالک کے عوام کو جنوری 2020ء سے ہے مگر ایک بھی کشمیری کے بھوکا مرنے کی اطلاع نہیں آئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عالمی برادری نے کشمیری عوام کی مظلومیت اور مجبوری سے چشم پوشی کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی آزمائش سے دوچار کر کر دیا اس فرق کے ساتھ کہ کشمیریوں پر مودی وائرس کا حملہ ہوا، باقی دنیا کرونا وائرس کی زد میں ہے، بے حسی اور سنگدلی کا پھر بھی یہ عالم ہے کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔ کشمیری عوام کے بچائو کا کسی کو احساس ہے نہ مودی وائرس کے خاتمے کی سنجیدہ سوچ کار فرما۔
اسلامی اخوت کا عظیم مظاہرہ یہ قوم 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں کر چکی ہے اب بھی وہ یہ ثابت کرے گی کہ عمران خان نے بلا وجہ اپنے ناقص مشیروں کے زیر اثر لاک ڈائون اور فوج بلانے میں تاخیر کی، یہاں کے اہل خیر کسی گھر کا چولہا ٹھنڈا ہونے دیں گے نہ انشاء اللہ علاج سے محروم کسی مریض کے ایڑیاں رگڑنے کی نوبت آئے گی۔ پاک فوج کے افسر و جوان میدان میں اُتر چکے ہیں۔ یقینا سول انتظامیہ اور اہل خیر کی پشت پناہی کریں گے کہ یہ ان جانبازوں کا شیوہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے میری ناقص رائے میں کم از کم ایک ہفتہ ضائع کیا لیکن دیر آید درست آید اب بھی اگر تندہی، مستعدی، ایمانداری اور خلوص نیت سے کرونا کو شکست دینے کا ارادہ کر لیں اور غریبوں، کمزوروں، ناداروں اور بے روزگاروں کی دعائیں حکومت و انتظامیہ کے شامل حال ہوں تو مزید نقصان سے بچ سکتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے اور آزمائش اور مقابلہ ہمیشہ قومی اتحاد و اتفاق، جذبہ ایثار و قربانی اور نیک نیتی سے کیا جاتا ہے۔ ایک کلمہ گو کے لئے اس سے بڑی آسمانی آزمائش کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ کے گھر، مسجد نبوی اور دنیا بھر میں مسجد حرام کی بیٹیاں یعنی مساجد کے دروازے اس پر بند کر دیے جائیں، ایک معمولی جرثومے کے سامنے دنیا جہاں کے مہلک ہتھیار، سائنس و ٹیکنالوجی، انسانی ذہانت اور تجربہ بے بس و بے کار نظر آنے لگیں اور دولت سے ہر چیز خریدنے کے دعویدار کسی فرد کو یہ فکر لاحق ہو کہ کل معلوم نہیں اُسے ایک روٹی، دال، چاول کی پلیٹ مل پائے گی یا نہیں، یہ بھی آزمائش ہے کہ کسی کا ہمسایہ، محلے دار، عزیز رشتہ دار بھوکے پیٹ سوئے اور وہ مرغن کھانوں سے اپنا پیٹ بھر کر بے حس و بے شعور جانور کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے، بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ریاست مدینہ کے شہری عاشقان رسولؐ کو اپنے اللہ، رسولؐ اور ضمیر کے سامنے سرخرو ہونے کا سنہری موقع ملا ہے، کوئی یہ موقع ضائع کیوں کرے گا۔