Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dil Badla, Din Badle

Dil Badla, Din Badle

واقعی "ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا" عمران خان سعودی عرب سے کامران لوٹے، توقعات پہلے دورے سے بھی وابستہ تھیں مگر معاملہ دو طرفہ مذاکرات تک موخر ہوا۔ وزارت خزانہ کے بابو آئی ایم ایف کے سوا سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور وزیر خزانہ اسد عمر لکیر کے فقیر ہیں وزارت خزانہ کے بابوئوں نے باور کرا دیا کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر قسطیں چکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تو وزیر خزانہ آسانی سے سپر انداز ہو گئے۔ کپتان مگر دیگر ذرائع، امکانات تلاش کرنے پر تلا رہا۔ اللہ پر یقین کامل اور ناممکن کو ممکن بنانے کی خواہش نے بالآخر راستہ کھول دیا۔ سابق وزیر خارجہ آغا شاہی مرحوم ایک واقعہ بیان کیا کرتے تھے۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد عرب ممالک نے پاکستان سے منہ موڑ لیا۔ امریکہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پہلے ہی ناراض تھا جبکہ بھٹو مرحوم کی نیشنلائزیشن کی بنا پر قومی پیداوار انحطاط کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ غلام اسحق خان کو اگلے سال کا بجٹ بنانے کے علاوہ اگلے چھ ماہ تک ملک چلانے کے لیے سرمایہ درکار تھا جو خزانے میں ناپید۔ آئی ایم ایف قرضہ دینے کے لیے تیار مگر سخت شرائط کے ساتھ۔ پہلی شرط روپے کی قدر میں تیس فیصد کمی اور زرتلافی کا خاتمہ۔ غلام اسحق خان آغا شاہی سے ملے اور درخواست کی کہ وہ ان کی مدد کریں، ضیاء الحق کو قائل کریں کہ ضد ہٹ دھرمی چھوڑ کر انہیں آئی ایم ایف سے مذاکرات اور بیل آئوٹ پیکج کی اجازت دیں۔ آغا شاہی کے مطابق دونوں وزراء فوجی آمر سے ملے، آغا شاہی نے بین الاقوامی صورتحال کی نقشہ کشی کی، پاکستان کی سفارتی مشکلات کا ذکر ہوا اور دوست ممالک کے تحفظات کے بارے میں بتایا۔ غلام اسحق خان نے اقتصادی، معاشی بحران سے آگاہ کیا اور روپے کی قدر میں کمی کی اجازت چاہی مگر ضیاء الحق ٹس سے مس نہ ہوئے اور خان صاحب سے کہا کہ وہ متبادل منصوبہ پیش کریں۔ غلام اسحق خان زچ ہو گئے اور بولے میں کہاں سے متبادل منصوبہ پیش کروں، کوئی آپشن بچی ہی نہیں۔ ضیاء الحق نے کہا روپے کی قیمت تو کم نہیں ہو گی آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں وہ اس دلدل سے نکلنے میں مدد کرے گا۔ دونوں وزراء ٹکا سا جواب سن کر جز بر ہوئے مگر قہر درویش، برجان درویش۔ باہر نکل کر غلام اسحق خان نے کہا عجیب آدمی ہے میں زمینی حقائق سے آگاہ کر رہا ہوں اور یہ مجھے اللہ پر بھروسے کی تلقین کر رہا ہے۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ سوویت یونین کی شامت آئی اس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔ امریکہ، یورپ، عرب ممالک اور مالیاتی اداروں سمیت ہر ایک کو پاکستان کی یاد ستانے لگی۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو چالیس ملین ڈالر امداد کی پیشکش کی، جسے ضیاء الحق نے مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا اور غلام اسحق خان خسارے کے بجٹ کی فکر چھوڑ کر فاضل بجٹ بنانے میں جت گئے۔ پاکستان کے چیدہ چیدہ معاشی و اقتصادی ماہرین اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے تجزیہ نگار چیخ چیخ کر حکومت کو باور کرا رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے رجوع میں تاخیر قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے اور متبادل راستوں کی تلاش عبث۔ یہ سازشی کہانی پھیلانے والوں کی کمی نہ تھی کہ عمران خان اقتدار میں آئے ہی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہیں اور آئی ایم ایف سمیت کوئی مالیاتی ادارہ موجودہ حکومت کو لفٹ کرانے کے لیے تیار نہیں۔ اکیلے اشفاق حسن خان کا یہ خیال تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر بحران سے نمٹ سکتی ہے مگر یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی۔ یہ طعنہ بھی سننے کو ملا کہ سعودی عرب اور چین مطلبی یار ہیں وہ بھاری شرح سود پر قرضہ تو دے سکتے ہیں امداد نہیں، یہ صرف امریکہ کا وتیرہ ہے جو ان دنوں ہم سے ناراض ہے۔ مگر 1979ء کی طرح حالات نے اچانک پلٹا کھایا۔ قدرت مہر بان ہوئی، عمران خان کااللہ پر بھروسہ کام آیا اور سعودی عرب سے اتنی امداد مل گئی جو ہمارے معاشی ماہرین اور وزارت خزانہ کے حواس بحال کرنے اور آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ملائشیا اور چین بھی اتنی ہی مالیت کا بیل آئوٹ پیکیج دے دیتے ہیں جو سعودی عرب سے ملا تو پھر حکومت کو ٹیکس کا نظام بہتر کرنے، لوٹی دولت واپس لانے، اور لٹیروں سے نمٹنے کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرنے کے لیے مہلت دستیاب ہو گی۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کرپٹ عناصر کو للکارا جس پر لے دے ہو رہی ہے بجا کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ معاشی بحران کے خاتمے پر مرکوز رہنی چاہیے لیکن کیا مخالفین کی ریشہ دوانیوں، منفی پروپیگنڈے اور جتھے بندی سے چشم پوشی حکومت کے لیے مفید ہو گی؟ ۔ کہتے ہیں کہ پانی مسلسل قطرہ قطرہ گرتا رہے تو پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے۔ پروپیگنڈے کی یلغار اور جھوٹ کے طومار سے حکومت اگر سادہ لوح اور جذباتی عوام کی نظروں سے ہی گر جائے تو اسے کارکردگی دکھانے کا موقع کب اور کیسے ملے گا اور باریک کام کرنےکی عادی قوتیں، کب تک انتظار کریں گی۔ تیس سال تک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی لوٹ مار، نااہلی اور اقربا نوازی کے زخم سہنے والی قوم کو روزانہ یہ باور کرایا جائے کہ عمران خان اور تحریک انصاف سو دن میں دودھ شہد کی نہریں بہانے، پچاس لاکھ مکان بنانے، ایک کروڑ ملازمتیں اور بجلی گیس مفت فراہم کرنے میں ناکام ہے اور وہ یہ لغویات توجہ سے سننے پر آمادہ بھی ہو تو حکومتی خاموشی سے کیا نتیجہ نکلے گا؟ کرپشن کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے، منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی دولت بیرون ملک منتقل ہوتی رہی کسی نے روک تھام کی ضرورت محسوس نہ کی، کرپٹ عناصر کی ملی بھگت اور ریاستی اداروں کی چشم پوشی کے سبب صرف ملک معاشی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی شامل ہوا اور تسلی بخش اقدامات نہ ہونے کی صورت میں بلیک لسٹ ہونے کا اندیشہ ہے۔ کرپشن کا قلع قمع اگر نہ ہو، بڑے بڑے مگرمچھ پابند سلاسل نہیں ہوتے تو سعودی عرب، چین، ملائشیا اور آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج سے پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے نہ ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز! احتساب البتہ یکطرفہ نہیں بلا تفریق اور بلا امتیاز ہو اور حکمران جماعت میں شامل کرپٹ عناصر اسی انجام کو پہنچیں جس کا ڈراوا عمران خان اپوزیشن کو دے رہے ہیں۔ ہر بحران مواقع پیدا کرتا ہے اور دانا لوگ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں ملک کے معاشی بحران نے باشعور شہریوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کا کلچر ختم کئے بغیر غربت و افلاس سے نجات ممکن ہے نہ تعلیم و صحت اور حصول روزگار کے اہداف کی تکمیل آسان اور نہ یہ ریاست اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل۔ گیس اور بجلی چوروں کو پکڑے، لائن لاسز پر قابو پائے اور چوری میں مددگار سرکاری ملازمین کو قانون کے شکنجے میں لائے بغیر سستی بجلی و گیس کی فراہمی ممکن نہیں اور قومی دولت کی واپسی کے بغیر روزگار کے منصوبوں کی تکمیل دیوانے کا خواب ہے۔ قوم کی ذہنی آمادگی سے فائدہ اٹھا کر اگر موجودہ حکمران کرپٹ عناصر بالخصوص اپنے کرپٹ ساتھیوں اور قومی دولت لوٹنے والے سابقہ ارباب اختیار کو نشان عبرت بناتے ہیں تو قدم قدم پر رکاوٹوں اورککس بیکس کا رونا رونے والے سرمایہ کاروں کو پاکستان لا نا، سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا آسان ہو گا۔ عمران خان بلاشبہ کرپٹ نہیں مگر اُسے اپنے وزیروں، قریبی ساتھیوں اور بیورو کریٹس کی نگرانی کرنی ہو گی کہ کہیں وہ اپنی جیبیں بھرنے میں نہ لگ جائیں۔ انسان کی نیت نیک، عزم و یقین پختہ اور حوصلہ بلند ہو تو قادر و کریم مشکلیں آسان کر دیتا ہے دل بدلتے دیر لگتی ہے نہ دن بدلتے ؎روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں