حکومت اور قومی اداروں پر تنقید بہت ہو چکی، کمزوریاں اجاگر ہوئیں اور لاک ڈائون میں تاخیر کی ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان نے قبول کی، نقطہ نظر اب بھی ان کا یہی ہے کہ لاک ڈائون سے غریب عوام بالخصوص دیہاڑی دار مزدوروں، رکشے، ریڑھی، چھابڑی والوں کی مشکلات بڑھیں گی اور کرونا کے مقابلے میں مکمل لاک ڈائون شائد زیادہ نقصان دہ ہو، توقع یہ تھی کہ پارلیمانی کانفرنس میں اپوزیشن وزیر اعظم کے اس بیانیے کے مدمقابل قابل عمل تجاویز پیش کرے گی مگر لفاظی کے سوا میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر لیڈروں کے پلّے کچھ نہیں۔ عمران خان نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے جامع معاشی پیکیج دے کر ویسے ہی اپوزیشن کے بیانیے کو کند کر دیا، جو مسلسل یہ دہائی دے رہی تھی کہ عمران خان کو غریب عوام کا احساس ہے نہ کرونا اور لاک ڈائون سے جنم لینے والی مشکلات کا ادراک۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں اور جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد کئی گنا کم ہے اور اس کا حوالہ دے کر عمران خان نے گزشتہ روز اپنی بریفنگ میں سینئر اینکرز کا منہ بند کیا، بریفنگ میں موجود بعض اینکرز کے حساس موضوع سے ہٹ کر سوالات اور کج بحثی سے ناظرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وزیر اعظم پوری تیاری کر کے میڈیا کے سامنے آئے جبکہ سینئر اینکرز نے وزیر اعظم سے کچھ اگلوانے کے بجائے انہیں اپنے مشوروں سے نوازنے، نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو عقل کل ثابت کرنے پرزور بیان صرف کیا۔ یوں لاک ڈائون کی بحث میں ڈیڑھ دو گھنٹے ضائع ہو گئے۔ رہی اپوزیشن تو اس کے ذہنی دیوالیہ پن کی قلعی پارلیمانی کانفرنس میں غیر ذمہ دارانہ رویّے سے کھل گئی، میاں شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں پٹرول کی قیمت میں ستر روپے کمی کا مطالبہ کیا جبکہ میاں نواز شریف کے دور حکمرانی میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت اٹھائیس ڈالر فی بیرل ہوئی عوام کو اتنا ریلیف کبھی نہ ملا جتنا عمران خان نے دیا، بلاول بھٹو سود کی شرح صفر مقرر کرنے پر بضد ہیں یہ مشورہ 2008ء سے 2013ء کے دوران اباّ جان کو کیوں نہ دیا؟ اِک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
کرونا وائرس بظاہر بیماری ہے، ایک لاعلاج مرض مگر اس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ انسان کی سوچ، انداز گفتگو، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے، رہنے، سہنے اور پہننے اوڑھنے کے معمولات میں نمایاں فرق کا مشاہدہ ہر ذی شعورکر رہا ہے، ترجیحات بدل چکی ہیں اور ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ ایسی زندگی جس میں ماں باپ پیارے ننھے منّے بچوں کا منہ چوم سکیں نہ میاں بیوی کو ایک بستر پر مل بیٹھنے کی اجازت اور نہ اہل خانہ کا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کھانا پینا مناسب، موت ایسی کہ کوئی قریبی عزیز رشتے دار غسل دے سکے نہ کفن پہنانے کے قابل اور اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارنے کی سخت ممانعت، یہ صرف مرض نہیں، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ دنیا جہاں کی نعمتوں سے آراستہ محل نماگھروں میں خوفزدہ انسان، ویران دفاتر، اجاڑ سڑکیں اور سنسان گلیاں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں بھی اگر ہم اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لئے توبہ و استغفار اورعبادت، سخاوت اور رحمدلی کو شعار نہ کریں، بدستور انکار کمینگی و سنگدلی کی دیرینہ عادت میں مبتلا رہیں تو بدنصیبی کے سوا کیا ہے؟ ، مصیبت کی ایسی گھڑی میں انسان کا پتھر دل موم ہوتا اور ذکر خداوندی کے علاوہ خدمت خلق کی ترغیب ملتی ہے۔ توبہ صرف یہ نہیں کہ ہم حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی پر معافی مانگیں اور آئندہ نماز روزے، حج، زکوٰۃ کی پابندی کا عہد کریں بلکہ جھوٹ، مکر، فریب، بدعہدی، بددیانتی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، جعلی ادویات کی تیاری و فروخت، دوسروں کی حق تلفی سے مکمل احتراز اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا عہد اور تلافی مافات حقیقی توبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو صرف اعتراف جرم اور نیک چلنی کی یقین دہانی کے ساتھ معاف فرما دیتا ہے لیکن حقوق العباد کی معافی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حق تلفی کا ازالہ نہ ہو، اپنے ہی بھائی بندوں کو ملاوٹ، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی سے نقصان پہچانے والا شخص آخر کس کس سے معافی کا طلب گار ہو گا؟ اور کس طرح حق تلفی کا ازالہ کر سکتا ہے؟ یہ ہم سب کو سوچنا چاہیے۔
جب کسی وبا کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خالق و مالک اپنے بندوں کی مکروہ حرکتوں اور مردم بیزار اعمال سے رنجیدہ ہے اور بھولے بھٹکے انسان کو یہ احساس دلانے پر مائل کہ وہ اپنی اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی جان پر ظلم کرنے سے باز آئے، قوانین فطرت کی پاسداری کرے اور کرۂ ارضی کو انسان نما وحشی درندوں کی آماجگاہ نہ بننے دے، جو آہستہ آہستہ بن رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہب کے مابین مقابلے نہیں، یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے بتوں کی پوجا چھوڑ کر معبود حقیقی کے سامنے سر جھکانے کا وقت ہے۔ وہی معبود حقیقی جس نے تدبیر، دعا اور توکل کا راستہ دکھا کر انسان کو آزمایا کہ دیکھیں وہ کس راستے پر چلتا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لاک ڈائون کا کڑوا گھونٹ بھر لیا مگر ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور گراں فروشی کے خاتمے کی مہم سست روی کا شکار ہے۔ یہ سست روی بڑے خطرے کو جنم دے رہی ہے کہ کہیں یہ عوام دشمن مافیا غریب عوام کو بھوکوں مرنے پر مجبور نہ کر دے، تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی بھی حلقہ انتخاب میں ضرورت مندوں کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے دیرینہ مشاغل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ عمران خان اور دیگر قائدین انہیں بھی حق نمائندگی ادا کرنے کی ترغیب دیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت مندوں کو اشیائے خورو نوش گھروں تک پہنچانے کے لئے رضا کاروں کی بھرتی میں مزید تاخیر نقصان دہ ہے کہ غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے لگے ہیں اور بھوک کچی بستیوں میں ناچنے لگی ہے۔ کرونا کے مریض مسلسل یہ دہائی دے رہے ہیں کہ وہ مخصوص مراکز میں بدسلوکی کا شکار ہیں اور جو لوگ گھروں میں سیلف آئسولیشن کے ذریعے اپنا علاج کرنے کے قابل ہیں انہیں بھی پولیس اہلکار زبردستی بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر ان مراکز میں لے جاتے ہیں جہاں مناسب سہولتوں کا فقدان اور مرض بڑھنے کا خطرہ ہے۔ جو سہولت صوبائی وزیر سعید غنی کو حاصل ہے وہ ان لوگوں کو دینے میں کیا حرج ہے جن کے ٹیسٹ پازیٹو آئے مگر بظاہر تندرست ہیں اور اپنے گھر میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ۔ عمران خان اور وزراء اعلیٰ کے علاوہ دیگر حکام اس شکائت کا ازالہ کریں کہ قرنطینہ مراکز اور ہسپتال عوام کے لئے باعث سہولت رہیں عقوبت کدے اور اذیت خانے ثابت نہ ہوں۔