بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوام، کاروباری برادری اور حکومت کی مشکل آسان کر دی، "جان ہے تو جہان ہے" کے بجائے "چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے" کے محاورے پر یقین رکھنے والے "باشعور" عوام اور تاجر کاروبار کی بندش سے تنگ تھے، بجا کہ طویل عرصہ تک کاروبار بند رکھا جا سکتا ہے نہ معمولات زندگی منجمد، مگر پاکستان میں لاک ڈائون ہوا کب؟ تین دن تک لوگ خوف کا شکار رہے اور گھروں سے باہر نکلتے ہچکچائے، بقیہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران معمولات زندگی کم و بیش بحال ہو گئے۔ سماجی فاصلے اور سینیٹائزر، فیس ماسک، دستانوں کے استعمال کو ہم سب نے اپنی توہین جانا اور چل سو چل، ایسے میں کاروبار بند رکھنا محض تکلف تھا، فائدہ نہ ہونے کے برابر، معاشی نقصان بے تحاشہ، حکومت مگر خوف زدہ تھی کہ کورونا کی وبا پھوٹ پڑی تو الزام اس پر لگے گا کہ اس کی بے عملی بے تدبیری کے سبب جان لیوا بیماری پھیلی، تاجر کاروباری نقصان سے خائف تھے، حکومت سے بگاڑ پیدا کرنے سے گریزاں، جبکہ عوام جلد سے جلد کاروبار ی سرگرمیوں کی بحالی چاہتے تھے کہ اپنی جمع پونجی کو شوق خریداری پر قربان کر سکیں۔ عدالت عظمیٰ نے عید الفطر تک کاروبار ہفتے کے سات دن کھولنے کا حکم دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کئی عشروں سے چلی آ رہی ہفتہ وار کاروباری بندش یا تعطیل بھی ختم، جمعے کو کاروبار بند ہو گا نہ اتوار کو، کسی نے کوشش کی تو توہین عدالت کا مرتکب قرار پائے گا۔
حکومت عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر سکتی ہے نہ عوامی خواہشات کو نظرانداز، پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کاروبار اور پبلک ٹانسپورٹ پر عائد پابندیوں کا فوری خاتمہ چاہتی تھی، عدالت نے ختم کر دیں، حکومت کے مقررکردہ ایس او پیز پر عمل کون کرے گا اور کس کی مجال کہ وہ عملدرآمد کرا سکے ؎
ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ
اب جو بھی کرنا ہے عوام، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے کرنا ہے یا پھر کورونا بہادر کرے گا، اس باب میں حکومت کا کردار خاموش تماشائی کا ہے۔ ایس او پیز کی لکیر البتہ وہ پیٹتی رہے گی کہ یہ اس کے مقدر میں ہے۔
عدالتی حکم پر بعض دل جلے آئین کے مطابق پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ کے الگ الگ دائرہ اختیار کی دہائی دے رہے ہیں۔ اس فیصلے کو انتظامیہ کے دائرہ کار میں مداخلت سے تعبیر کر رہے ہیں مگر یہ بھی سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے، عوام اور تاجروں کے لیے اپنا مفاد پہلی ترجیح ہے۔ یہی پٹی سیاستدانوں اور دانشوروں نے "باشعور عوام" کو بار بار پڑھائی، اب پریشانی کاہے کی ؎
خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
حکومت مسجدوں، امام بارگاہوں اور شادی ہالوں پر عاید پابندیاں ختم کر کے اپنی خفت مٹا سکتی ہے۔ اس کا بھرم قائم رہے گا، دکانیں اور ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد علماء اور مذہبی رہنما حکومت کی بات کیوں مانیں؟ کورونا صرف نمازیوں کے لیے خطرناک نہیں، حکومت یہ الزام اپنے سر کیوں لینا چاہتی ہے کہ کورونا کا پروپیگنڈا مساجد کی بندش اور کلمہ گو مسلمانوں کو انپے دین سے دور کرنے کے لیے ہوا، دانشمندی کا تقاضہ یہیہے کہ جمعۃ الوداع و عید الفطر کے اجتماعات کی اجازت دے، باقی اس کی مرضی، عمران خان پر یہ الزام تو لگ ہی رہا ہے کہ اس نے بحران سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی تدبیر کی اور کامیاب رہا، غریبوں، دیہاڑی داروں میں بارہ ہزار روپیہ فی کنبہ رقم کی تقسیم، ٹائیگر فورسکے قیام کو مخالفین اس انداز میں لے رہے ہیں، حکومت اگر چاہے تو عدالتی احکامات کی روشنی میں تاجروں اور دکانداروں کو کاروبار نماز فجرسے شروع اور شام پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ بجے بندش کا پابند کر سکتی ہے کہ فطرت کا تقاضہ ہے اور ملک و قوم دونوں کے لیے کئی لحاظ سے بہتر۔ چند خلیجی ممالک کے سوا ساری دنیا میں کاروبار پانچ چھ بجے بند ہو جاتا ہے حتیٰ کہ کھانے پینے کی دکانیں اور ریسٹورنٹ بھی کہیں رات گئے کھلے نہیں پائے جاتے، یہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے، خاندانی زندگی کو خوشگوار بنانے، بجلی کی بچت، حفظان صحت اور جرائم پر قابو پانے کا مناسب طریقہ ہے۔ جگ راتے سے تبخیر معدہ، بلڈ پریشر، بے آرامی وبے سکونی اور دیگر کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، دوماہ کی عالمی بندش کے بعد کھلا، صاف ستھرا آسمان دیکھنے کو ملا، کثافت اور آلودگی کے علاوہ پولن الرجی، بدہضمی، بلڈپریشر اور دیگر کئی امراض کے متاثرین کی تعداد میں قرار واقعی کمی واقع ہوئی، جو غنیمت ہے۔ رات کو جلد سونے اور علی الصبح اٹھنے کے فوائد کا علم ہر ذی شعور اور باذوق شہری کو ہوا ورنہ بے ہنگم زندگی نے ذوق سلیم پر منفی اثرات مرتب کیے تھے، پاکستان میں کاروبار پانچ چھ بجے بند کرنے کی عادت اپنا کر ہم اپنے آپ کو فطرت کے مزید قریب کر سکتے ہیں جبکہ جمعہ کی چھٹی بحال ہو جائے تو کاروبار میں برکت ہو گی کہ 1997ء (جب میاں نواز شریف نے کاروباری طبقے اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے جمعہ کی چھٹی ختم کی) سے اب تک معاشی عدم توازن جمود اور بدحالی نے ہی جنم لیا، عمران خان اگر موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ کوہ ہمالیہ بھی سر کر لیں تو کئی نحوستوں سے نجات ملے گی۔ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی کا رواج مسیحیوں اور یہودیوں کو عبادت کا موقع فراہم کرنے کے لیے پڑا ہم جمعہ کی خیروبرکت سے محروم کیوں رہیں۔ عیدالفطر کے بعد شادی ہالوں کو کھولنے میں حرج نہیں کہ جب سارے کاروبار کھل گئے تو ان بے چاروں نے کیا قصور کیا ہے جس کی سزا انہیں ملتی رہے، ہاں حکومت کو غریب اور متوسط طبقے کا مفاد عزیز ہے تو شادی بیاہ کی تقریبات میں مہمانوں کی تعداد پر پابندی عائد کر سکتی ہے جبکہ تقریبات بھی صرف نکاح اور ولیمہ تک محدود رہیں، دونوں تقریبات میں زیادہ سے زیادہ ایک سو مہمانوں کی پابندی غریب اور متوسط طبقے کو مالی مشکلات سے بچا سکتی ہے اور کسی غریب کی لخت جگر شادی کے اخراجات دستیاب نہ ہونے کے سبب گھر بیٹھی بالوں میں چاندی اترنے کا انتظار نہیں کرے گی، عدالت عظمیٰ نے حکومت کی مشکل آسان کر دی، اب حکومت بھی قرار واقعی ایک نئے معاشی اور سماجی دور کا آغاز کرے، صحت مند، متوازن اور فطرت سے ہم آہنگ دور ؎
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے، دور کا آغاز ہے
کورونا نے دنیا بدل دی، دنیا کا مزاج بدل دیا، ہر قوم جینے کا نیا ڈھنگ تلاش کر رہی ہے، ہم کیوں ماضی کے مزاروں سے چمٹے رہیں، چوبیس گھنٹے کاروبار کی ضد، نمودونمائش اور فضول خرچی کا شوق اور پرہجوم تقریبات پر اصرار۔ کیا ہم نے بنی اسرائیل کی طرح غلط ڈگر پر چلتے رہنے، خود کو نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے؟