Dunya Bar Umeed Qaim
Irshad Ahmad Arif97
اللہ ہی جانے یہ حقیقت ہے یا افسانہ مگر بہت سے لوگوں نے بیان کیا اور ایک آدھ کتاب میں پڑھا بھی کہ سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ عبدالعزیز نے ریاست میں اسلامی حدود و تعزیرات نافذ کیں تو چند ہفتوں میں کئی چور ہاتھ کٹوا بیٹھے۔ مملکت میں غربت و افلاس کا راج تھا اور چور چکاروں کی بہتات۔ جرائم کا سدباب کرنے کے لیے ہی شاہ نے سخت سزائیں نافذ کیں مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ تنگدست قبائلی معاشرہ ٹنڈے لنگڑے معاشرے میں تبدیل ہو جائے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک شب شاہ عبدالعزیز حرم کعبہ میں طواف کے دوران گڑ گڑا کر دعا مانگ رہا ہے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ "یا معبود! میں نے تیری خوشنودی کے لیے اسلامی سزائیں نافذ کیں مگر میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ مکہ مکرمہ اور ریاست کے دوسرے شہروں میں جابجا ہاتھ کٹے افراد نظر آئیں، اپنی رحمت خاص سے میری دستگیری فرما اور مجھے اس آزمائش سے نکال " ؎رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جاہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جاحق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں اسی برس سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے اور آہستہ آہستہ خوشحالی سعودی باشندوں کا مقدر بنتی چلی گئی۔ وہ ملک جہاں پینے کا صاف پانی مشکل سے دستیاب تھا دنیا جہاں کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے لگا۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان روضہ رسول ﷺ کے روبرو جائے نماز پر ایک خاص کیفیت میں بیٹھے نظر آئے، دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو یوں ڈھانپ رکھا تھا جیسے وہ آنسو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اللہ کے محبوب سرور کائنات ﷺ کے توسّل سے وہ اپنے رب سے کیا مانگ رہے تھے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے عمران خان کا معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کی تصویر کے ساتھ ان کے مداحوں نے یہ شعر لکھا ؎بھر دو جھولی میری یا محمدﷺلوٹ کر میں نہ جائوں گا خالیعمران خان ان دنوں ریاست مدینہ کا ذکر تسلسل سے کرتا ہے۔ روضہ رسولﷺ کے سامنے وہ اپنے ربّ سے ریاست مدینہ قائم کرنے کے عہد پر کاربند رہنے کی دعا کر رہا تھا؟ بطور حکمران اپنی کامیابی و کامرانی کا آرزو مند تھا یا ملک کی اقتصادی و معاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے گڑ گڑا رہا تھا؟ ممکن ہے وہ زبان حال سے پکار رہا ہو ؎خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئےآئے ہیں اب تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے ہوئےیہ تصویر دیکھ کر مجھے سعودی ریاست کے بانی یاد آئے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا باب کھلا ہونے کی اُمید پیدا ہوئی۔ اسی شام پاکستانی اور سعودی میڈیا نے بریکنگ نیوز دی کہ سرمایہ کاری کانفرنس کے بعد عمران خان کو دوست ملک نے مثالی اقتصادی و معاشی پیکج دیا ہے۔ مثالی یوں کہ ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کو دو ارب ڈالر مالیت کا تیل موخر ادائیگی پر ملا تھا جس میں بعدازاں مزید دو سال کی توسیع ہوئی جبکہ میاں نواز شریف کے برسر اقتدار آنے پر سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کے لیے دیے تھے۔ اس بار دونوں عنائتیں زیادہ مالیت کے پیکج کے ساتھ ہوئیں اور بعض لوگوں کی طرف سے پھیلایا یہ تاثر دور ہوا کہ سعودی حکمران پاکستان کے چند خاندانوں اور افراد کو اہمیت دیتے ہیں اور عمران خان ان میں شامل نہیں۔ استنبول میں جمال خشوگی کا قتل اندوہناک واقعہ ہے اس پر عالمی ردعمل شدید اور جائز ہے لیکن پاکستان کے جن جذباتی دانشوروں کے خیال میں حکومت اور عمران خان کو اس مشکل وقت میں اپنے آزمودہ دوست کے بجائے امریکہ و یورپ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اپنے قومی مفادات کو دائو پر لگا کر سعودی عرب کی نہ صرف مذمت کرتے بلکہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیتے وہ یا تو سٹیٹ کرافٹ سے ناواقف ہیں یا پھر وہ سفارتی نزاکتوں، قومی مفادات اور دو طرفہ تعلقات کی اہمیت و افادیت سے قطعی نابلد۔ اول تو اس پیکج کا کوئی تعلق جمال خشوگی کے واقعہ سے نظر نہیں آتا لیکن اگر ہو بھی تو کوئی دانشمند حکمران جذباتی انداز میں موقع کبھی ضائع نہیں کرتا۔ چینی رہنما ڈینگ سیائوپنگ برس ہا برس مائو اور اس کے ساتھیوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ ہم چوہا پکڑنے پر توجہ دیں یہ نہ دیکھیں کہ بلی کا رنگ سیاہ ہے یا سفید۔ عوامی جمہوریہ چین کے حالیہ دورے میں پاکستانی صحافیوں کو یہ بات زیادہ احسن طریقے سے سمجھ آئی۔"انڈر سٹینڈنگ چائنا" کے ظفر الدین محمود نے جن اداروں اور مقامات کا دورہ کرایا، اکنامک ڈیلی کی انتظامیہ نے جن اہم شخصیات سے ملاقات کا اہتمام کیا اور جو سیر حاصل گفتگو ہوئی اس میں اہم ترین نکتہ یہی تھا کہ بلی کے رنگ کی بحث میں وقت ضائع نہ کرو، اپنے ہدف پر نظر رکھو اور غریب شہریوں کے بارے میں سوچو جنہیں بنیادی انسانی ضرورتوں کی تکمیل سے غرض ہے۔ پیٹ بھر کر کھانا، بچوں کی تعلیم، روزگار اور شہری سہولتیں۔ چین میں تو اب اس بات سے بھی کسی کو کوئی غرض نہیں کہ ان کے حکمران ہمارا اپنا حسن انتخاب ہیں یا کمیونسٹ پارٹی کی باہمی مشاورت کا نتیجہ۔ وہ ڈینگ سیائو پنگ، جیانگ زی من، ہائوجن تائو، ژی جن پنگ جیسی عوام دوست قیادت کی ترقی پسندانہ پالیسیوں کے ثمرات سے مستفید ہوں یا مخالفانہ مغربی پروپیگنڈے پر توجہ دیں کہ چینی عوام شہری اور جمہوری آزادیوں سے محروم ہیں۔ چینی قیادت نے چیئرمین مائوزے تنگ کے اس قول کو حرزجان بنایا کہ عوام کو پکی پکائی مچھلی دے کر کام چور بنانے کے بجائے مچھلی پکڑنے کی ترکیب سکھائی جائے تاکہ وہ خود شکار کے عادی ہوں اور اپنے خاندان کے علاوہ دوسروں کا سہارا بنیں۔ اس کے برعکس ہماری سہل پسند اور کوتاہ اندیش قیادت نے اپنے ووٹروں کو تن آسانی کی عادت ڈالی اور ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا۔ موجودہ حکومت ایک بار پھر قوم کو مشکل پسندی پر مائل کر رہی ہے اور بقول شخصے اپنے والد کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے والا خود پسند وزیر اعظم پاکستان اور قوم کی خاطر سعودی عرب، ملائشیا، چین اور آئی ایم ایف کے روبرو دست سوال دراز کر رہا ہے۔ اگر سعودی عرب کی طرح ملائشیا اور چین نے بھی فراخدلی دکھائی، ملائشیا سے خوردنی تیل موخر ادائیگی پر مل گیا اور چین نے سٹیٹ بنک میں تین چار ارب ڈالر پارک کر دیے تو پھر "ستے خیراں " ہیں۔ عمران خان کی دعا قبول ہو گئی تو شائد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو کر پاکستان کی معیشت کے لیے مزید آسانیاں پیدا کریں لیکن یہ وقتی ریلیف ہے۔ ملک و قوم صرف اقتصادی و معاشی بحران سے دوچار نہیں، سیاسی، سماجی اور اخلاقی الجھنیں بھی دامن گیر ہیں۔ حکومت صرف ناتجربہ کار نہیں، بعض نااہل اور کوتاہ اندیش مشیروں میں گھری ہے جو عمران خان کے امیج کو خراب کر رہے ہیں ان میں سے بعض تحریک انصاف کے نظریے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں نہ عمران خان کی کامیابی و ناکامی سے انہیں سروکار، غرض کے بندے اور اپنے آپ میں مگن۔ تحریک انصاف کے مخلص کارکن اور نظریاتی ووٹر ابھی تک یہی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ سو دن میں جن کی کار گزاری غیر تسلی بخش رہی اپنے مناصب سے فارغ کر دیے جائیں گے کہ کپتان کا ریکارڈ یہی ہے۔ لیکن حلیفوں کی بیساکھیوں پر قائم حکومت کے لیے بولڈ فیصلے کرنا آسان نہیں۔ دیار حبیب ﷺ میں پا پیادہ گھومنے والے وزیر اعظم کی دعائیں البتہ قبول ہوئیں تو کوئی مشکل مشکل نہ رہے گی اور آسانیوں کی وہ برکھا برسے گی کہ جل تھل ایک ہو جائے گا۔ دنیا بر اُمید قائم۔ عمران خان چینی قیادت کی طرح اگر چوہا پکڑنے پر توجہ دیں بلی کے رنگ کی بحث میں نہ پڑیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لت چھڑا کر عوام کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دیں تو یہ ریاست چین، ملائشیا اور کئی دیگر ممالک کی طرح ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑ سکتی ہے کہ 1960ء کے عشرے میں ایسا ہو چکا اب کیوں نہیں؟