Ehtesab
Irshad Ahmad Arif91
خواجہ برادران کی گرفتاری مسلم لیگ(ن) کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان پر جب بھی برا وقت آیا، خواجہ سعد رفیق خم ٹھونک کر میدان میں نکلے اور اپنی جماعت کے علاوہ قیادت کا دفاع کیا۔ شریف خاندان کی رضاکارانہ جلاوطنی کے دوران جن چند لیڈروں نے وفاداری نبھائی اور پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو للکارا ان میں خواجہ سعد رفیق پیش پیش تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی، راجہ ظفر الحق سابق صدر رفیق تارڑ، احسن اقبال، ایاز صادق اور ایک آدھ مزید، حالانکہ جماعت کے اندر ایک گروہ خواجہ سعد رفیق کا شدید ناقد تھا اور اس نے خواجہ سعد رفیق کی رکنیت تک معطل کرائی۔ مخدوم جاوید ہاشمی ساتھ نہ دیتے، بزرگ صحافی مداخلت نہ کرتے اور جدہ میں بیگم کلثوم نواز میاں نواز شریف پر دبائو نہ ڈالتیں تو یہ معطلی مکمل اخراج پر منتج ہوتی بلکہ سچ یہ ہے کہ بنیادی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ بس جدہ سے حتمی منظوری کا انتظار رہا اور معاملہ ٹل گیا۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔ خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری پورے پاکستان نہ سہی لاہور میں مسلم لیگ(ن) کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے۔ میاں شہباز شریف جیل میں ہیں، میاں نواز شریف اور مریم نواز ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کی تصویر بنے ہیں۔ بظاہر وہ صدمے کی کیفیت میں ہیں، بیگم کلثوم نواز کی جدائی نے اُن پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یادداشت ان کی متاثر ہو رہی ہے، مریم نواز شریف کے لیے چند ہفتوں کی جیل یاترا ڈرائونا خواب ثابت ہوئی اور ٹوئیٹر اکائونٹ کی بندش کا سبب بنی۔ حمزہ شہباز شریف پیشیاں بھگت رہے ہیں اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ شریف خاندان دوراہے پر کھڑا ہے۔ جماعت کا تحفظ کرے یا خاندانی مفادات کا؟ پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت تشکیل دی تو یہ تاثرابھرا کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے آصف علی زرداری کو کلین چٹ مل گئی ہے اور وہ زرداری خاندان کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں کامیاب رہے ہیں مگر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹیں کچھ اور ہی اشارہ دے رہی ہیں۔ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش جو بھی ہو، تفتیشی ادارے بھلے احتساب کے نقطہ نظر سے نہیں زرداری اور ان کے ساتھیوں پر دبائو ڈالنے کے لیے پھرتیاں دکھا رہے ہوں مگر حالات کا اپنا جبر اور واقعات کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ عمران خان نے بائیس سال تک احتساب احتساب پکارا، اپنے سوا سارے سیاستدانوں کو بالخصوص وہ جنہیں باریاں ملیں کرپٹ قرار دیا تو یہ محنت رائیگاں نہیں گئی۔ عوام اور مقتدر حلقوں میں اس نعرے کو پذیرائی ملی اور نجی محفلوں میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے وابستگان بھی تسلیم کرنے لگے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ 1996ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت معزول ہوئی تو محترمہ بے نظیر کے سوا پیپلزپارٹی کے باقی سارے اہم لیڈروں کو یقین تھا کہ آصف زرداری کی ہوس زر مداخلت بے بجانے مروا دیا۔ میاں نواز شریف نے اقتدار میں آ کر سیف الرحمان کی قیادت میں احتساب کمیشن تشکیل دیا تو کسی نے مخالفت نہ کی تا آنکہ سیف الرحمن نے خود احتساب کو انتقام میں بدل کر ساکھ کھو دی۔ پاکستان میں کرپشن، معاشی عدم مساوات اور سماجی نا انصافی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور عوام ہمیشہ کسی مسیحا کے متلاشی رہے۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں کسی خمینی اور ملا عمر کی خواہش مظلوم عوام کے لبوں پر مچلتی رہی، عقیدے، اقدار اور مذہبی میلان کی بنا پر نہیں صرف اور صرف ظالموں، لٹیروں اور اقتدار و اختیار کے سرچشموں پر قابض اشرافیہ کی سرکوبی کے لیے، جو کسی منتخب لیڈر کی بس کی بات تھی نہ فوجی آمر کی ترجیحات میں شامل۔ احتساب کا جو کوڑا ان دنوں مسلم لیگ(ن) پر برس رہا ہے زیادہ دیر تک ایک جماعت کے وابستگان تک محدود نہیں رہ سکتا۔ درست یا غلط طور پر یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ احتساب کے عمل کو ان مقتدر اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے جو ریاست کو اب نارمل ریاست کے طور پر چلانے کے خواہش مند ہیں۔ ایسی ریاست جس میں قانون کی حکمرانی ہو، ادارے مضبوط ہوں، سیاست و جمہوریت پر افراد اور خاندانوں کے بجائے آئین، قانون اور مسلمہ روایات کی بالادستی ہو اور قانون کے روبرو ہر ایک جوابدہ ہو خواہ اس کا تعلق عدلیہ اور فوج سے ہے۔ سیاست اور بیورو کریسی سے یا حکومت اور اپوزیشن سے۔ حالات کا یہ جبر اور واقعات کی یہی منطق جلد یا بدیر احتساب کا دائرہ مزید وسیع کرنے اور حکمران جماعت کے بعض افراد کولپیٹ میں لینے کے لیے بے قرار ہے اور وزیر اعظم عمران خان ہوں، اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا یا نیب کے چیئرمین احتسابی پہیہ اُلٹا گھمانے کی پوزیشن میں نہیں۔ جن دنوں سندھ میں نیب اور دوسرے ادارے متحرک تھے کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ بالآخر پنجاب بھی ان کی زد پر ہو گا مگر اب یہ حقیقت ہے۔ اگر احتساب کا یہ عمل قاعدے قانون کے مطابق اور اپنی فطری رفتار سے جاری رہتا ہے تو سیاسی جماعتوں میں تطہیر کی عوامی خواہش پوری ہو گی اور پیر پگاڑا مرحوم کے الفاظ میں جو احتساب کی چکی سے بچ گیا وہ سیاست کرے گا۔ دو تین سال قبل کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ الطاف حسین کا کراچی کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور ان کے نام پر جان دینے کی قسمیں کھانے والے سرعام اظہار برأت کریں گے۔ ہتھیار اٹھانے والی بعض مذہبی جماعتوں اور تحریکِ طالبان پاکستان کے سرکش لیڈر ؎رہی دل کی دل ہی میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیاکی علامت بن جائیں گے اور کوس لمن الملک بجانے والے لیڈران کرام ریاستی اداروں سے این آر او مانگ رہے ہوں گے۔ احتساب عدالت کے فیصلے سے قبل میاں نواز شریف اور مریم نواز کے جارحانہ، باغیانہ عوامی خطابات اور موجودہ خاموشی؟ یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔ پاکستان میں بگاڑ جتنا ممکن تھا ہو چکا۔ اب اصلاح احوال کی گنجائش ہے، بگاڑ کی ہرگز نہیں۔ سیاسی جماعتیں مافیا انداز میں چل سکتی ہیں نہ جمہوریت کرپشن کی ہمدم و دمسازبن کر پھلے پھولے گی۔ سیاسی بھل صفائی کی دیرینہ عوامی خواہش پوری ہونے لگی ہے تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی رکاوٹ ڈال سکے۔"چمڑی جائے پر نہ دمڑی جائے" کے علمبردار سیاستدان اگر خود نہ سمجھے تو حالات کا جبر اور واقعات کی منطق انہیں سمجھائے گی۔ فائدے میں وہی رہیں گے جو چمڑی بچانے کے لیے دمڑی قربان کریں گے۔ لوگ تو طعنے کے انداز میں کہتے ہیں کہ عمران خان کا آئیڈیل ایوب خان ہے لیکن بیرون ملک پاکستان کے بہی خواہ سعودی عرب، چین، ملائیشیا اور دیگر واقعتاً پاکستان کو ویسا ہی پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جیسا 1960ء کے عشرے تک تھا۔ پھلتا پھولتا، آگے بڑھتا اور غیرت و وقار کے ساتھ عالم اسلام کی قیادت کرتا پاکستان۔ جمہوری حکومت اگر پاکستان میں مافیاز کا خاتمہ کرے، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے عام آدمی کو آسودگی عطا کرے اور ظلم کے بجائے مظلوم کی ساتھی بنے تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے کہ ادارے مضبوط ہوں یا افراد، پاکستان مستحکم ہو یا کرپٹ، قبضہ گیر، منشیات فروش، بنک چور، قرضہ خور اور منی لانڈرنگ کے بل بوتے پر ارب پتی بننے، اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہونے والا مافیا؟ تطہیر کے عمل سے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی اور شاید عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں بھی سوچیں۔ عبات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے