Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Farq Qayadat Ka Hai

Farq Qayadat Ka Hai

عوامی جمہوریہ چین کا سفر آڑے آیا۔ جناب ضیاء شاہد کی کتاب"میرا دوست۔ نواز شریف" کی تقریب رونمائی میں شریک نہ ہو سکا۔ کتاب میں میاں نواز شریف کی ذاتی زندگی جدوجہد، انداز سیاست، طرز حکمرانی اور روز مرہ معمولات کی جو تصویر کشی بزرگ صحافی نے کی وہ کسی اور نے شائد و باید۔ عوام کی طرح بھٹو دور حکومت کے ستائے اخبار نویسوں کو میاں صاحب سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں جو ایک ایک کر کے نقش برآب ہوئیں ؎کتنے الہڑ سپنے تھے جو دور سحر میں ڈوب گئےکتنے ہنس مکھ چہرے فصل بہاراں میں غمناک ہوئےضیاء شاہد نے میاں نواز شریف کی صرف خامیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کو اجاگر نہیں کیا تین بار وزیر اعظم رہنے والے سیاستدان کی انسانی خوبیوں، سیاسی جولانیوں اور سیاسی کامرانیوں کا ذکر بھی فراخدلی سے چھیڑا۔ میاں نواز شریف کی رحمدلی، دوست نوازی اور کشادہ دستی کے واقعات کتاب میں جگہ جگہ مذکور ہیں۔ بھارت نوازی البتہ میاں نواز شریف کی وہ غلطی ہے جسے ضیاء شاہد ہرگز برداشت نہیں کر پائے اور کتاب کے آخری ابواب میں انہوں نے اپنے دوست کی خوب خبر لی۔ میں تقریب میں پہنچ پاتا تو اس حوالے سے اظہار خیال کرتا مگر وہ جو حضرت علی کرم اللہ وجیہہ الکریم کا فرمان ہے"میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے اور عزائم کی ناکامی سے پہچانا" خواہش اور کوشش کے باوجود تقریب میں پہنچ نہیں پایا اور ایک قابل مطالعہ، معلومات افزا اور دلچسپ و دلکش کتاب پر اظہار خیال سے محروم رہا۔ میاں نواز شریف پر 1981ء میں ایوان اقتدار کا داخلہ کھلا۔ جبکہ یہی وہ دور ہے جب جدید چین کے بانی ڈینگ سیائو پنگ چیئرمین مائو کی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پالیسیوں کو ترک کر کے "آزاد معیشت" کی ترجمانی کر رہے تھے۔ ڈینگ نے کمیونسٹ پارٹی کو آزاد معیشت کی طرف کس طرح مائل کیا اور منڈی کی معیشت کو کرپشن سے پاک کیسے رکھا؟ یہ طویل داستان ہے۔ بھٹو دور کی نیشنلائزیشن پاکستان کے لیے تباہ کن تھی مگر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دور کی نجکاری نے صرف معیشت ہی نہیں ہماری سیاسی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔ ڈینگ سیائو پنگ کی پالیسی نے چین میں ترقی و خوشحالی کے دروازے کھولے، ہماری نجکاری پالیسی نے اداروں کو تباہ، ملک کو مقروض، معیشت کو مفلوج اور عوام کو مفلس کر دیا۔ چین جانے والا ہر پاکستانی بے چین و مضطرب ہی واپس آتا ہے۔ عوام دونوں ممالک کے ایک جیسے تھے، فرق صرف قیادت کا تھااور ہے۔ قیادت کا فرق یوں واضح ہوتا ہے کہ بیجنگ کی آبادی میں اضافے اور بڑھتی ہوئی شہری ضروریات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے شہر کو مزید وسعت دینے کے بجائے ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا۔ بیجنگ سے سو کلو میٹر دور ژین گان کے نام سے یہ جدید شہر نیو یارک سے تین گنا بڑا ہو گا۔ 2035ء تک ژین گان ایک ماڈرن شہر بن جائے گا۔ گرین، ذہانت کا مرکز اور قابل رہائش۔ جس میں مضبوط مسابقت اور ہم آہنگی پر زور دیا جائے گا۔ موجودہ صدی کے نصف تک یہ علاقہ ورلڈ کلاس بیجنگ، تیان جن، ہی بائی سٹی کلسٹر کا حصہ بنے گا۔ نئے علاقے کی تعمیر میں ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دی جائے گی۔ اس شہر یا علاقے کا کل رقبہ 530مربع کلو میٹر ہو گا جس میں زمین کے استعمال کو سختی سے کنٹرول کیا جائے گا۔ دس فیصد علاقہ زراعت کے لیے مختص ہو گا جبکہ آبادی دس ہزار فی مربع کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہو گی۔ شہری علاقے کی تعمیر میں روایتی ثقافتی عناصر کے ساتھ بہترین عالمی ڈیزائن فلاسفی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ثقافتی ورثے کا تحفظ اس کی انفرادیت ہے۔ ماحولیاتی بحالی کا کام بیانگ ڈیان جھیل میں کیا جائے گا۔ آبی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی شرح کو گیارہ فیصد سے بڑھا کر چالیس فیصد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ زیادہ آلودگی کی حامل اور زیادہ انرجی لینے والی پروڈکشن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ بیانگ ڈیان نیشنل پارک تعمیر کیا جائے گا۔ نیا علاقہ جدید ترین ٹیکنالوجی انڈسٹریز کی ترقی کے لیے سب سے آگے ہو گا جس میں رئیل اکانومی، ٹیکنالوجیکل اختراع، فنانس اور ہیومن ریسورسز کو خاص طور پر ترقی دی جائے گی۔ اس علاقے میں بڑی انڈسٹریز انفارمیشن، بائیو ٹیکنالوجی، نیو میٹریلز، ماڈرن سروسزاور گرین ایگری کلچر پر مبنی ہوں گی۔ نئے علاقے کے شہریوں کو معیاری عوامی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ایک متنوع ہائوسنگ سسٹم تشکیل دیا جائے گا۔ یہ قابل رہائش اور کاروبار دوست شہر ہو گا جس میں پراپرٹی کی ڈویلپمنٹ کو سختی سے کنٹرول میں رکھا جائے گا اور طویل مدتی میکنزم قائم کیا جائے گا تاکہ رئیل اسٹیٹ میں قیاس آرائیوں کو روکا جا سکے۔ ژین گان میں ایک تیز رفتار اور نہایت موثر ٹرانسپورٹ نیٹ ورک تعمیر کیا جائے گا جس سے شہر کا دیگر صوبوں سے فاصلاتی وقت کم سے کم ہو جائے گا۔ شہر میں گرین اور کم کاربن کے اخراج والیپروڈکشن کو پروموٹ کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر تعمیرات میں ترقی یافتہ ماحول دوست اور توانائی کی بچت کرنے والے مواد اور تکنیک کا استعمال کیا جائے گا۔ ژین گان ایک ڈیجیٹل شہر میں تبدیل کیا جائے گاشہر میں جدید سٹی سکیورٹی سسٹم قائم کیا جائے گا جس میں آفات کی روک تھام کے لیے اعلیٰ معیار کی سہولیات ہوں گی تاکہ نئے علاقے میں آفات کی صورت میں فوری امدادی کارروائی کی جا سکے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگلے کئی سو سال تک دارالحکومت کی ضرورتیں پوری ہوں گی اور وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے شہری مسائل سے بآسانی نمٹا جا سکے گا۔ حکومت ہنان نامی جزیرے میں اقتصادی زون قائم کر رہی ہے جو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے جنت سے کم نہ ہو گا جبکہ اپنے عوام اور غیر ملکی شہریوں کو آمدورفت کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات ہو رہے ہیں۔ بیجنگ سے شنگھائی کا فاصلہ بارہ سو کلو میٹر سے زیادہ ہے کم و بیش لاہور اور کراچی کے برابر، شنگھائی ٹرین پر ہم نے یہ فاصلہ صرف چار گھنٹے میں طے کیا۔ ٹرین کیا تھی؟ دنیا کی بہترین فضائی سروس کے برابر آرام دہ۔ سبک رفتار ٹرین کے چلنے کا پتہ چلتا نہ رکنے کا۔ مجال ہے کہ سامنے رکھا پانی کا گلاس لڑھکے۔ چار گھنٹے کے سفر میں ہماری بوگی کی تین چار بار صفائی ہوئی اور ایک بار سنیکس پیش کئے گئے۔ فرسٹ کلاس کا کرایہ صرف ساڑھے نو سو یوان یعنی انیس ہزار پاکستانی روپے اور اکانومی کا کرایہ پانچ سو یوان، (دس ہزار پاکستانی روپے) ریلوے ٹریک کے دونوں طرف سبزہ ہی سبزہ، کھیت اور خوبصورت پہاڑیاں۔ پرفریب منظر دیکھ کر جی چاہا کہ واپسی بھی ریل کے ذریعے ہو مگر کم وقت کے باعث شنگھائی سے بیجنگ کا سفر ہوائی جہاز میں طے ہوا۔ پانچ روز یوں تیزی سے گزرے کہ احساس تک نہ ہوا۔ ؎حیف در چشم زون صحبت یار آخر شدگل سیرندیدیم و بہار آخر شدنواز شریف عوام کی اُمیدوں پر پورے نہ اُتر پائے، انہیں ہر بار آزمودہ دوستوں چین، سعودی عرب اور ترکی کا خوشدلانہ تعاون حاصل تھا اور چین کے تجربات سے سیکھنے کا موقع بھی، کیا عمران خان جہالت، غربت و فلاس اور بے روزگاری کے خاتمے اور سماجی عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے ترکی اور چین کو رول ماڈل بناکر کامران ہو سکتے ہیں؟ وہ ڈینگ سیائو پنگ نہ سہی، مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے بھی کمتر لیکن ان تاریخ ساز لیڈروں کے تجربات سے استفادہ تو کر سکتے ہیں۔ عام آدمی کو کیا چاہیے پیٹ بھر کر خوراک، بچوں کی تعلیم، صحت کی سہولتیں۔ روزگار کے مواقع اور ہر سطح پر انصاف۔ چین میں تیز رفتار تبدیلی کو دیکھ، پرکھ کر یہ اہداف آسان لگتے ہیں مگر پاکستان میں یقین ہی نہیں آتا کہ کبھی غریب کے دن بدل سکتے اور حکمران عوام دوست ہو سکتے ہیں۔ عگر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں