مان لیا کہ پاکستان میں خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں جو ایک جدید مثالی اسلامی، جمہوری ریاست میں حاصل ہونے چاہئیں۔ معاشرے میں بیٹے اور بیٹی، بھائی اور بہن کے مابین فرق روا رکھا جاتا ہے۔ شوہر بیویوں سے مثالی سلوک نہیں کرتے۔ بعض پسماندہ علاقوں میں عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ بچیوں کو جوان ہونے پر پوچھے بغیر ایسے مرد سے بیاہ دیا جاتا ہے جو انہیں پسند ہوتا ہے نہ تعلیم، ذہنی سطح اور شکل و صورت میں ان کے پاسنگ۔
پسند کی شادی کو جرم سمجھ کر باپ، بھائی اور رشتے دار حیوانیت پر اُتر آتے اور غیرت کے نام پر قتل کر ڈالتے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سوارا، ونی اور کاروکاری کی مکروہ رسم اب بھی رائج ہے اور طاقتور وڈیرے جرگوں کے ذریعے اپنے ظالمانہ فیصلے پر عملدرآمد کراتے ہیں۔ بچیوں کو ماں باپ کی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملتا اور حسب منشا جہیز نہ ملنے پر سسرال میں ان کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ ایک آدھ اور خرابی بھی گنوائی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ یہ زیادتی اسلامی اور مذہبی تعلیمات کی بنا پر ہوتی ہے؟ کیا ہمارا آئین اور ملکی قوانین خواتین سے امتیازی سلوک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟ اور کیا معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور خمیر میں صنفی امتیاز اور خواتین سے بدسلوکی کا عنصر موجود ہے؟ یایہ جہالت، سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی قبائلی رسم و رواج، ہندوانہ طرز معاشرت اور جاگیردارانہ انداز فکر کا شاخسانہ ہے؟ ہر منصف مزاج اور ذی شعور شخص کا جواب یہی ہو گا کہ ناخواندگی، سماجی و سیاسی پسماندگی، قبائلی انداز فکر اور ہندوانہ اثرات خواتین کی حق تلفی کے بنیادی اسباب ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ مرد کے حقوق پامال ہو رہے ہیں کہ طبقاتی معاشرے میں یہ معمول کی بات ہے۔ عورت کے خلاف جنسی جرائم کے حوالے سے امریکہ کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ہے۔
پاکستان میں یوم خواتین عرصہ دراز سے منایا جا رہا ہے اور یہ متنازع کبھی نہیں ہوا، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کی سرگرمیاں اگرچہ ہمیشہ مشکوک رہیں اور انہیں غیر ملکی ایجنڈے کی حامل قرار دیا گیا، پاکستان کا اسلامی تشخص اور عائلی نظام عرصہ دراز سے ہمارے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کے نشانے پر ہے اور پاکستان کو بھارت جیسے ازلی دشمن کے علاوہ امریکہ جیسا طوطا چشم دوست عرصہ دراز سے ایک ایسی ریاست ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جہاں خواتین کے علاوہ اقلیتیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں، مذہب اور عقیدے کی بنا پر انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ریاست کا کوئی ادارہ ان کی داد رسی کرتا ہے نہ معاشرہ بحیثیت مجموعی ان کا ہمدردو غمگسار ہے۔ 5اگست سے اسیّ لاکھ کشمیری مرد و خواتین بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں اور بین الاقوامی میڈیا پرتسلسل سے یہ اطلاعات شائع اور نشرہو رہی ہیں کہ خواتین سے جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہاہے، قانون شہریت متعارف کرائے جانے کے بعد دہلی اور ملک کے کئی دوسرے حصوں میں یہی ظالمانہ سلوک مسلم خواتین سے روا رکھا جا رہا ہے اور بھارت کی اعلیٰ عدلیہ تک ان کی شنوائی پر آمادہ نہیں، ان حالات میں پاکستان میں حقوق نسواں کے نام پر عورت مارچ کا مقصد کیا ہے؟ بھارت میں خواتین سے فوج اور ریاستی اداروں کی مجرمانہ کارروائیوں سے توجہ ہٹانا یا دنیا کو یہ باور کرانا کہ بھارت کو چھوڑیں پاکستان پر توجہ دیں جہاں خواتین ہر طرح کے انسانی حقوق سے محروم ہیں، انہیں مرضی سے شادی تو درکنار اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور رہنے سہنے کا حق حاصل نہیں، پاکستانی عورت نکاح اور شادی کے بندھن سے آزاد ہونا چاہتی ہے مگر ریاست اور معاشرہ رکاوٹ ہیں، انہیں خاوند جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں اور گھروں میں ان کی حیثیت صرف لونڈی کی ہے۔ پچھلے سال جو غلیظ اور دلآزار بینر عورت مارچ کی زینت بنے وہ منتظمین اور شرکاء کے عزائم، مقاصد اور نصب العین کے آئینہ دار تھے۔ افسوس یہ ہے کوئی شریف آدمی بینرز پر درجنعروں کو دہرا سکتا ہے نہ کسی اخبار اور چینل میں یہ ہمت و جرأت ہے کہ وہ اس غلاظت کو دکھا سکے۔ امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں جسم فروشی اور اسقاط حمل کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کرانے کی 1970ء کے عشرے سے جاری تحریک کے ایک سلوگن My Body My Choice کا چربہ "میرا جسم میری مرضی" ہی اس قابل تھا یا پھر "میں آوارہ، میں بدچلن" کا بے ہودہ سلوگن جسے لکھا، بولا اوردکھایا جا سکتا، امریکہ اور یورپ میں اس سلوگن پر لے دے ہوئی اور اسے آئین و قانون، انسانی زندگی اور حقوق کے لئے ضرر رساں قرار دیا گیا، Pro choice تحریک کے منتظمین کو جواب دینا مشکل ہو گیا۔ مثلاً یہ سوال کہ میرا جسم میری مرضی کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے جسم فروشی اور ابارشن کو قانونی تسلیم کر لیا جائے تو پھر گردوں، آنکھوں اور دیگر انسانی اعضا کی خریدوفروخت پر پابندی کا کیا جواز ہو گا؟ ۔ خودکشی جرم نہیں رہے گی، کوئی شخص اگر ہیروئن اور دوسری منشیات استعمال کرنا چاہے اور کہے کہ میری مرضی میں جو چاہوں کھائوں پیوں " میرا جسم میری مرضی "آپ روکنے والے کون ہیں؟ تو منشیات کے خلاف عالمی جنگ کا کیا بنے گا؟ پاکستان میں لیکن عورت مارچ میں جن نعروں سے مزین بینرز آویزاں ہوئے وہ جسم فروشی اور ابارشن سے کہیں زیادہ آزادی کی طلب کے آئینہ دار اور دلآزار تھے۔
یورپ کے کئی ممالک نے حجاب کو اپنی تہذیب کے منافی قرار دے کر پابندی لگا دی، پاکستان میں حقوق نسواں کی کسی تنظیم کی غیرت نہ جاگی، عافیہ صدیقی، ایک پاکستانی خاتون کو 85سال سزا سنائی گئی اور ذہنی و جسمانی تشدد کی بنا پر ان کا وزن صرف چالیس کلو گرام رہ گیا ہے، مجال ہے کہ انسانی اور نسوانی حقوق کی کسی تنظیم اور عورت مارچ کی منتظم خاتون کے کان پر جوں رینگی ہو، زینب الرٹ بل میں جنسی درندوں اور قاتلوں کے لئے سزائے موت مقرر نہیں ہوئی ان سب کی زبانوں پر تالے پڑے ہیں لیکن مردوں سے نفرت، فحاشی و عریانی کی ترویج اور ہماری عصمت مآب بچیوں، بیٹیوں، بہنوں، بہوئوں کو مادر پدر آزادی سے روشناس کرانے، عائلی نظام کو درہم برہم کرنے اور پاکستان کے روشن چہرے پر پسماندگی، جہالت اور جنسی تشدد کی کالک ملنے کے لئے یہ مستعد و فعال ہیں۔ پیش پیش خواتین و حضرات میں اکثریت ان کی ہے جو نظریہ پاکستان اور ملک کے اسلامی تشخص کے شدید دشمن، لادین، سیکولر، لبرل فاشسٹ اور عورت کو شہوانی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ گھریلو فساد، جاہلانہ رسوم و رواج اور خواتین کی حق تلفی میں خواتین کا حصہ مرد سے زیادہ نہیں تو مساوی ضرور ہے مگر ساس بہو کے رشتے میں توازن پیدا کرنے، ہندوانہ رسوم بالخصوص جہیز پر اصرار، مہندی، مایوں کی مہنگی تقریبات کی روک تھام اور خواتین کو بنیادی انسانی و اسلامی حقوق سے محروم کرنے والے جاگیرداروں، وڈیروں کے سوشل بائیکاٹ کے لئے مجھے تو یاد نہیں کہ کوئی عورت مارچ ہوا یا مہم چلی ہو۔ اسلام کے نظام عفت و عصمت، خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور مرد و عورت کے مابین نفرت انگیزتفریق کا مظاہرہ پچھلے سال ہو چکا ہے، آج بھی اگر کشمیری اور ہندوستانی مسلم عورت پر جنسی تشدد کے خلاف آواز نہ اٹھی، بینر نہ لہرائے تو ثابت ہو گا مقصد عورت کے حقوق کا تحفظ نہیں بیرونی ایجنڈے کی تکمیل ہے، یہ فتنہ ریاست مدینہ کے خلاف برپا ہے، ہماری بچیوں کو ورغلانے اور اپنے محافظ ماں، باپ، بھائی، شوہر کا باغی بنانے کی سازش۔