اپوزیشن کی خود اعتمادی اور مسلم لیگ(ن) کی ابلاغی مہم کی سطح وہ تو نہیں جو اکتوبر کے دھرنا سے قبل مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کی تھی مگر یہ تاثر بہرحال پختہ ہو رہا ہے کہ وفاق نہ سہی، پنجاب کی حد تک سب اچھا نہیں، تحریک انصاف کے اتحادی مضطرب ہیں اور ارکان اسمبلی کنفیوزڈ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ فروری مارچ میں کیا ہونے والا ہے؟ کچھ ہو گا بھی یا مولانا کے دھرنے کی طرح اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن) کا غنچہ فصل گل کے آتے آتے، بن کھلے مر جا جائیگا؟ اکتوبر میں مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایسی فضا پیدا کر دی کہ اچھے خاصے باخبر اور باشعور دانشور و تجزیہ کار بھی اس ڈس انفرمیشن پر ایمان لائے اور حکومت کے چل چلائو کی تاریخیں دینے لگے، چند ایک نے تو نئے وزیر اعظم تک کا نام بھی افشا کیا، مولانا فضل الرحمن کی چال ڈھال میں نمایاں فرق تو سب نے نوٹ کیا"نامزد" وزیر اعظم البتہ مبارک سلامت کے شور سے محظوظ ہو پائے یا نہیں، اللہ ہی جانے۔ تجزیہ کاروں اور دانشوروں کی بے خبری پر ہنستے ضرور ہوں گے۔
پنجاب میں صورت حال بظاہرتسلی بخش نہیں، چودھری برادران کے قریبی حلقے عمران خان کی بے مروّتی کا گلہ کرتے ہیں، چودھری شجاعت حسین کی عیادت سے گریز اور چودھری پرویز الٰہی کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتوں پر بدگمانی نے دونوں اتحادی جماعتوں کی قیادت میں سردمہری پیدا کی، مسلم لیگ(ن) کی قیادت طویل رفاقت کی بنا پر چودھری برادران کی افتاد طبع سے واقف ہے اور وضعدارانہ عادت سے آشنا، چودھری شجاعت حسین کی عیادت میں شریف برادران نے پہل کی اور نامہ و پیام میں تیزی دکھائی، جوڑ توڑ میں شریف برادران کا کوئی ثانی ہے نہ چودھری برادران کی صلاحیتوں کا۔ 2002ء سے 2008ء کے دوران چودھری برادران نے مقتدر حلقوں میں جو ساکھ بنائی تھی وہ برقرار ہے اور اس کا سب سے زیادہ علم شریف برادران کو ہے، چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے کئی پیشروئوں اور جانشینوں سے بہتر کار گزاری کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور بیورو کریسی انہیں پسند کرتی ہے، مولانا کے دھرنے میں پرجوش شرکت سے گریز اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی غیر مشروط حمائت کے ذریعے میاں شہباز شریف کی ساکھ بہتر ہوئی ہے اور وہ چودھری برادران کے کندھے پر رکھ کر عمران خان کی وفاقی نہ سہی، صوبائی حکومت کے خلاف بندوق چلانے کے درپے ہیں، شریف خاندان سے قربت کے دعویدار اخبار نویس وثوق سے بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف پنجاب حکومت کو عدم استحکام کا شکار کر کے عمران خان کو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے انجام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، اگر تحریک انصاف پنجاب سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں پر 1988ء کے میاں نواز شریف، 1993ء کے میاں منظور احمد وٹو یا سردار عارف نکئی اور 2008ء 2013ء کے میاں شہباز شریف کی طرح وفاقی حکومت کی حریف اور اسٹیبلشمنٹ کی حلیف حکومت قائم ہو تو عمران خان کو دن میں تارے دکھانا آسان ہو گا اور اگلے عام انتخابات میں خواہ وہ 2023ء میں ہی کیوں نہ ہوں ہرانا ممکن۔
چودھری برادران شریف خاندان کی طوطا چشمی سے واقف ہیں اور تین بار دھوکہ کھانے کے بعد خاصے محتاط، چودھری نثار علی خاں کی صورت میں میاں شہباز شریف کے پاس ترپ کا ایک اور پتہ موجود ہے جسے گنوا کر میاں نواز شریف اور مریم نواز نے عروج سے زوال کا سفر طے کیا، اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سردارعثمان بزدار ان کے سینئر وزیروں کی مسلسل غیر حاضری، سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی غیر معمولی دلچسپی اور اپوزیشن کی ضرورت سے زیادہ چہل پہل سے تحریک انصاف کے ارکان تذبذب کا شکار ہیں، اپوزیشن فلور آف دی ہائوس کو حکومت کے خلاف بھر پور طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور جواب دینے کے لئے راجہ بشارت اور فیاض الحسن چوہان کے سوا کوئی سینئر وزیر ہے نہ کوئی پرجوش رکن اسمبلی، بیس رکنی ناراض گروپ کی میل ملاقات خاصی مشکوک ہے اور یار لوگ اسے بھی ایجاد بندہ قرار دے رہے ہیں۔ قیادت سے محروم اپوزیشن کی فعالیت تحریک انصاف کے کارکنوں اور ارکان اسمبلی کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے جبکہ چودھری سرور سے لے کر علیم خان تک کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں، سردار عثمان بزدار نے گزشتہ روز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز سے ملاقات کی ہے جس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا کہ عموماً سیاسی پارٹیوں کو کارکن اور ٹکٹ ہولڈرز اس وقت یاد آتے ہیں جب نئے انتخابات کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہو، حکومت کا حال پتلا۔
عمران خان پنجاب کی صورت حال سے بے خبر ہو سکتے ہیں نہ ہلچل کے مقاصد سے ناواقف۔ ٹارگٹ عثمان خان بزدار ہیں یا بذات خود کپتان؟ یہ بھی کسی سے مخفی نہیں، ناراض گروپ کی تشکیل کے پیچھے اگر واقعی عثمان خان بزدار ہیں جس طرح کہ میڈیا میں تاثر دیا جا رہا ہے تو پھر وہ اکیلے نہیں کوئی معشوق ہے اس پر دہ زنگاری میں۔ ان ارکان کی ملاقاتوں اور ماضی کا تجزیہ کر کے بآسانی اس معشوق تک رسائی ہو سکتی ہے۔ جہانگیر خان ترین متحرک ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ وہ معاملہ سلجھانے میں کامیاب رہیں گے لیکن اگر وہ ناکام رہے تو؟ پنجاب میں عمران خان کی مرضی اور منشا کے بغیر تبدیلی وفاق پر کیسے اثر انداز ہو گی اور عمران خان کے لئے کس حد تک قابل قبول ہو گی؟ یہ اہم سوال ہے۔ عمران خان سردار عثمان بزدار کو تبدیل کر کے اس سازشی منصوبے کو ناکام کر سکتے یں لیکن وزارت اعلیٰ کا نیا اُمیدوار مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر پایا تو؟ یہ اس سے بھی اہم اور بنیادی سوال ہے، پنجاب میں موجودہ سیاسی ہلچل اگر محض پیالی میں طوفان نہیں اور شریف برادران، چودھری برادران اور ان کے غیر مرئی، حلیف واقعی پنجاب میں تبدیلی کے لئے سنجیدہ ہیں تو پھر اگلے دو ہفتوں میں صف بندی واضح ہو گی اور ہر فریق اپنے اپنے پتے شو کرے گا۔ لیکن ڈیووس سے واپسی پر عمران خان جس نئے اعتماد اور سفارتی کامیابیوں سے لیس ہو کر واپس آئے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے گا اور ماضی کی اس مکروہ سیاست کا پھر آغاز ہو گا جب بڑا صوبہ وفاق کے مدمقابل سازشوں کا جال بنتا اور ملک کی وفاقی پارلیمانی بنیادوں کو کمزور کرنے میں بھر پور حصہ ڈالتاتھا، پارلیمانی پارٹی میں انتشار، اتحادیوں کی ناراضگی اور وزیروں، مشیروں کی باہم توتکار عمران خان اور عثمان بزدار کی کمزور سیاسی و انتظامی گرفت کا مظہر ہے جس کے نتائج و مضمرات کا دونوں کو احساس ہونا چاہیے، نہیں تو افسوس ناک ہے، بے اعتنائی، لاتعلقی اور تذبذب کے اس طرز عمل سے طوائف الملوکی جنم لیتی ہے اور اونٹ پر بیٹھے شخص کو گیدڑ کاٹ لیتا ہے۔