Hamain Yaqeen Hua, Hum Ko Etebar Aya
Irshad Ahmad Arif82
سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری سے اس جھوٹ کا پردہ فاش ہوا کہ مرد حر آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، نیب نے احتساب کی تلوار نیام میں ڈال لی اور قومی ڈاکوئوں اور لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حکومتی عزم کمزور پڑ گیا ہے۔ گرفتار پیپلز پارٹی کا رہنما ہوا، شور سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے ہمنوا میڈیا نے مچایا۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری پرایسی ہی تکلیف پیپلز پارٹی کو ہوئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کا ایک نیا اور منفرد ماڈل متعارف کرانے کی کوششیں منتخب حکمرانوں اور فوجی آمروں نے ہر دور میں کیں مگر جو کامیاب اور جاندار ماڈل پچھلے بیس پچیس سال میں شریف خاندان اور بھٹو، زرداری خاندان نے قوم کو عطا کیا وہ بے مثل و بے نظیر ہے وچوں وچوں کھائی جائو، اتوں رولا پائی جائو۔ بظاہر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف، ایک حکومت میں تو دوسری اپوزیشن میں مگربباطن یک جان و دو قالب تیری میری اک جندڑی، تینوں تاپ چڑھے تے میں ہونگاں۔ اس ماڈل کے مطابق جمہوریت اور لوٹ مار جزو لاینفک ہیں اور جرم و سیاست کے مضبوط گٹھ جوڑ کے بغیر سول بالادستی کا قیام ناممکن۔ مہذب معاشروں کو قانون کی حکمرانی سے قومی و سیاسی استحکام نصیب ہوتا ہے، ہمارے ہاں ڈاکوئوں، لٹیروں، سمگلروں، منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور منی لانڈرنگ کو کھلی چھوٹ دیئے بغیر یہ ناممکن۔ پوری دنیا اس اسلامی اصول کو رہنما مانتی ہے کہ ایک بے گناہ کو بچانے کے لئے ننانوے گناہگار چھوٹ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، مگر ہمارے سیاستدانوں، دانشوروں اورتجزیہ کاروں کا عقیدہ ہے کہ ایک مجرم کو ریلیف دینے کے لئے ننانوے کیا بیس کروڑ بے قصوروں کو سولی پرچڑھانے میں حرج نہیں۔ عین ثواب ہے۔ عشروں سے اس معاشرے میں پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرتی، پھر چالان کاٹتی اور اعتراف جرم کراتی ہے۔ کسی بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اس چلن کو بدلا نہ آج تک کسی اسمبلی میں روزانہ بے گناہوں کی تھوک کے حساب سے گرفتاریوں پر احتجاج ہوامگر جونہی ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، سراج درانی اور دیگر سیاستدان گرفتار ہوئے منتخب عوامی نمائندے اور ان کے وظیفہ خوار چلا اٹھے کہ یہ کیا تماشا ہے۔ کسی کو محض الزام کی بنیاد پر کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور سندھ اسمبلی کا کاروبار اس دن سے ٹھپ ہے اور احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سراج درانی کے گھر چھاپہ پڑا پوری سندھ کابینہ اظہار یکجہتی کے لئے پہنچ گئی۔ اتفاق سے دوسرے ہی دن کراچی میں ہوٹل کا ناقص کھانا کھانے سے پانچ بچے جاں بحق ہوئے، وزیر اعلیٰ، وزراء اور مشیروں میں سے کسی کو گریباں میں جھانکنے اور قوم سے معافی مانگنے کی توفیق نہ ہوئی کہ عروس البلاد میں اس نوع کا یہ دوسرا واقعہ اور صوبائی حکومت کی ناکامی و سنگدلی کا زندہ ثبوت ہے۔ معاشرے طاقتور عادی مجرموں کوبنام جمہوریت اور منجملہ قومی استحکام کو تحفظ دینے سے خوشحال ہوتے ہیں نہ چند خاندانوں کی غلامی کو دوام بخشنے سے جمہوری روایات پروان چڑھتی ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور بلا امتیاز احتساب وہ نسخہ کیمیا ہے جس نے ہمیشہ اقوام کو اوج ثریا تک پہنچایا اور امامت بخشی۔ بھارت میں سیاستدانوں کی کرپشن کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر کوئی لالوپرشاد یادیو کا ذکر نہیں کرتا جس کو چارہ کیس میں وزیر اعلیٰ کے طور پر ہتھکڑی لگی اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمے میں سزا ہوئی ایک بار نہیں تین بار۔ بھارت کی جمہوریت کمزور پڑی نہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں غیر مرئی قوتوں کی مداخلت کا شور مچا۔ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ بھارتی ریلوے کو منافع بخش اور ترقی یافتہ بنانے والے سے یہ سلوک؟ جنوبی کوریا میں صدر پاک گیون کے خلاف مقدمہ چلا، عدالت نے ان کا صدارتی تحفظ ختم کیااور جیل بھیج دیا، اسرائیلی وزیر اعظم زیر تفتیش ہیں مگر کہیں بھی جمہوریت کو خطرہ درپیش نہیں۔ قانون کی حکمرانی اوربلا امتیاز احتساب کا ڈنکا بج رہا ہے۔ آغا سراج درانی آمدن سے زائد اثاثوں اور گلزار احمد سمیت بعض تاجروں کے اکائونٹس سے ان کے ذاتی اور صاحبزادی کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے کی منتقلی کے الزام میں گرفتار ہوئے، سنگین جرم میں ملوث ہونے کی بنا پر۔ مگر جمہوریت پسند ڈھٹائی سے عوام کو یہ فریب دینے میں مشغول ہیں کہ نیب نے سپیکر اسمبلی کو گرفتار کر لیا، غضب ہو گیا، ایسا تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ گزشتہ شب سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی طرف سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں یہی موضوع زیر بحث تھا۔ ضیاء شاہد صاحب نے سراج درانی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی لوٹ مار اور عوام دشمنی کے واقعات بیان کئے اور سوال اٹھایا کہ "کسی شخص کو محض اس بنا پر نیب گرفتار نہ کرے کہ وہ سپیکر بن چکا ہے کہاں کا قانون اور کہاں کی جمہوریت ہے؟ " دنیا بھر میں عوامی نمائندے دوسروں سے زیادہ عوام اور قانون کو جوابدہ ہوتے اور جرم کی صورت میں سخت سزا کے مستحق گردانے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں کئی وزیر، مشیر اور عوامی نمائندے پانچ پانچ ہزار، دس دس ہزار پائونڈ سٹرلنگ کی بے ضابطگی میں مستعفی اور گرفتار ہوئے، جمہوریت کی ماں کا دل نہیں پسیجا مگر ہمارے ہاں گھروں میں ڈھیروں سونا اور بوریوں کے حساب سے کرنسی نوٹ رکھنے والے عوامی نمائندے ثبوت ملنے پر گرفتار ہوں تو، نگوڑی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جائز دولت اور سونا لوگ گھروں میں کب چھپاتے ہیں؟ اپنے اکائونٹس اور لاکرز میں رکھتے اور ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرتے ہیں، قانون کا سامنا کرنا پڑے، سپیکر شپ اسمبلی اور حکومت کی آڑ نہیں لیتے۔ پاکدامنی، دلیل اور ثبوت کو ڈھال بناتے ہیں۔ عمران خان نے کل راجن پور میں خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ بڑے ڈاکو اسمبلیوں میں بیٹھتے اور چھوٹے موٹے چور جیلوں میں پڑے سڑتے ہیں۔ پچھلے دس سال سے شریف خاندان تسلسل سے پنجاب میں برسر اقتدار ہا، پورے پنجاب کے ترقیاتی فنڈز لاہور میں لگا دیے مگر میاں نواز شریف اپنے اور برادر خورد کے بنائے ہوئے "عالمی معیار" کے کسی سرکاری ہسپتال میں علاج پر تیار نہیں۔ ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ مجھے باہر بھیجا جائے۔ صاف ظاہر ہے انہیں اپنے کیے کرائے کا علم ہے۔ یہ ہسپتال، تعلیمی ادارے انہوں نے غریب، مفلوک الحال اور راندہ درگاہ کمزور عوام کے لئے بنائے، اپنے لئے نہیں۔ درست بھی یہ ادارے اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک عمران خان ہر عوامی نمائندے اور سرکاری ملازم کو پابند نہیں کر دیتے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھائے اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا علاج انہی ہسپتالوں سے کرائے جہاں خاک نشینوں کا ہوتا ہے۔ عمران خان 2013ء میں حادثے کا شکار ہوئے تو اپنے بنائے ہوئے ہسپتال شوکت خانم میں علاج کرایا۔ فوجی افسران کا علاج سی ایم ایچ اور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ میں ہوتا ہے مگر منتخب عوامی نمائندے، تین بار وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننے والے غریبوں کے ہمدرد و خیر خواہ سیاستدان سرکاری ہسپتال سے علاج کرانا کسر شان سمجھتے ہیں۔ سرکاری خرچ پر بیرون علاج کی عادت جو پڑ گئی ہے، اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ احتساب کی چکی پوری رفتار سے چلتی اور اچھے بُرے میں امتیاز کرتی رہے۔ سراج درانی کی گرفتاری سے احتساب کا عمل رکنے کا تاثر کمزور ہوا اور ڈیل و ڈھیل کی افواہوں، قیاس آرائیوں پر اوس پڑی۔ غنیمت ہے۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی کے بغیر پاکستان مضبوط ومستحکم ہو سکتا ہے نہ ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن۔ حاضر سروس ون سٹار، تھری سٹار جرنیل کا احتساب ہو سکتا ہے تو کسی چور، اچکے عوامی نمائندے اور وزیر، مشیر سپیکر اسمبلی کا کیوں نہیں؟ ویل ڈن نیب عہمیں یقین ہوا، ہم کو اعتبار آیا