Harf Shoq (2)
Irshad Ahmad Arif85
میں نے قدرے خفگی کے ساتھ جواب دیا جس کی انہیں توقع نہ تھی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دس بیس صفحات کی خاطر ملک کو پانچ سات سو صفحات کی ایسی دستاویز سے محروم کیا جائے جس کے بغیر اس کے ابتدائی دور کی انتظامیہ کے خدوخال متعین کرنے میں مورخ کو بڑی دقت پیش آئے گی۔ بے شمار واقعات پہلے سینہ میں اور پھر قبر میں محض اس لئے دفن ہو جائیں کہ ان میں سے دو چار خفیہ ہیں۔ آپ خفیہ باتیں بھی لکھ ڈالیں پھر انہیں سو پچاس سال کے لئے مہر بند کر دیں۔ قیامت کے دن کوئی بات خفیہ نہیں رہے گی۔ اگر آپ بہت محتاط طبیعت رکھتے ہیں تو وصیت کر جائیے کہ اس بند لفافہ کو قیامت سے صرف ایک دن پہلے کھولا جائے۔ یہ سن کر آزردہ ہوئے، بخود خزید و نفس درکشید و ہیچ نگفت۔ سرگزشت لکھنے کے معاملہ میں فوج کے اعلیٰ افسر، سول افسروں سے زیادہ مستعد نکلے۔ محمد موسیٰ، اصغر خاں، کے ایم عارف، چشتی، تجمل حسین، گل حسن، بڑے اور چھوٹے گلزار، صدیق سالک، ضمیر جعفری، محمد خاں، فرمان علی، وجاہت حسین و غیر ہم۔ اس وغیر ہم میں ایک صاحب کا نام اے۔ اے۔ کے نیازی ہے۔ نیازی صاحب لکھتے ہیں کہ میں بھارت میں دو سال چار ماہ قید رہنے کے بعد 30اپریل 1974ء کو واہگہ کی سرحد پر پہنچا۔ میرا استقبال اس فوجی افسر نے کیا جو عہدہ میں مجھ سے جونیئر تھا۔ واہگہ میں استقبالی شامیانے کے باہر ایک ہجوم تھا جو جنرل نیازی ہمارا غازی، کی جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لاہور چھائونی میں میرے گھر کے باہر بھی عوام بڑی تعداد میں جمع تھے۔ بہت سے لوگ مٹھائیاں اور پھولوں کے ہار لئے ہوئے تھے۔ اس روز مجھے اتنے تحفے ملے کہ ان کے رکھنے کے لئے ہمیں گھر کا ایک کمرہ خالی کرانا پڑا۔ اس داستان کو پڑھ کر میرا سر جھکا نہ آنکھیں بھر آئیں۔ یہ دونوں کام میں بہت پہلے کر چکا تھا۔ مجھے وہ دن کیسے بھول سکتا ہے۔ وہ دسمبر کی سولہ تاریخ تھی۔ عیسوی سنہ1971ء تھا۔ سول سروس والوں نے تذکرے لکھنے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لی۔ گنتی تیسرے عدد پر ختم ہو جاتی ہے۔ مسرت حسن زبیری، سید ہاشم رضا، قدرت اللہ شہاب۔ آزادی کے بعد ملازمت شروع کرنے والوں میں لے دے کے روئیداد خاں نے اپنی یادداشت کتابی صورت میں شائع کی۔ مجید مفتی اس کتاب پر تبصرہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ خان صاحب! اس میں فلاں واقعے کا ذکر نہیں۔ فلاں حادثے کا بھی ذکر نہیں۔ جہاں تک اشخاص کا تعلق ہے کیسے کیسے اچھے لوگوں کو اس تذکرے میں جگہ نہیں ملی۔ پھر دونوں ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے کوئی مشترکہ راز دوسروں سے چھپا رہے ہوں۔ مجید مفتی نے ہنستے ہنستے اتنے سال گنوا دیے۔ ایک آدھ سال ہنسی ملتوی کر دیتے اور مدیر نقوش کی تجویز پر عمل کرتے تو پڑھنے والوں کے ہاتھ میں یقینا ایک دلچسپ کتاب ہوتی۔ محمد طفیل ان سے کہا کرتے کہ آپ لکھنے کے لئے کوئی اہتمام نہ کریں۔ بس جیسے گفتگو کر رہے اسی طرح لکھتے یا لکھاتے چلے جائیں۔ یادش بخیر، سروس کے ساتھی مرزا رفیق عنایت ایک روز تہران میں وظیفہ یافتگی کے بعد وقت گزارنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ فوٹو گرافی کروں گا، سیاحت کروں گا، تحقیق کروں گا، کتاب لکھوں گا۔ میں نے اولین ترجیح کی رعایت سے دریافت کیا کہ آپ کون سا کیمرہ استعمال کرتے ہیں۔ جواب ملا کہ کیمرہ خریدنے کی جلدی کیا ہے۔ روز بروز نئے ماڈل آتے رہتے ہیں۔ ابھی سے لے لیا تو ریٹائرمنٹ تک وہ ماڈل متروک ہو چکا ہو گا۔ میں نے کہا، بات بالکل درست ہے بس قباحت اتنی ہے کہ اگر ابھی سے کیمرہ لے کر اسے استعمال کرنے کی عادت نہ ڈالی تو کل نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے۔ خنجر ہو کہ تلوار، کیمرہ ہو کہ قلم ان سب کا تقاضا ایک ہی ہے۔ آج اُٹھا لو وگرنہ کل اس کی اہلیت اور سکت بھی نہیں رہے گی۔ میری سوچ اور تجزیے کے مطابق سول سروس کے افسروں کی کوتاہ قلمی کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے۔ یہ گھر کے بھیدی کے لنکا ڈھانے کا عمل نہیں بلکہ سیدھی سادی رائے ہے جس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ برطانوی ہند میں ایک ادارہ ہوا کرتا تھا جسے دیسی ریاست کہتے تھے۔ عملداری کی ساری خرابیاں اس ادارے میں موجود تھیں۔ حکومت شخصی، بے اصول اور بے سلیقہ۔ حکمران خود پسند، خوشامد پسند، عیش کا بندہ۔ گماشتے عیار، مکار اور سازشی۔ خوبیاں ان ریاستوں میں دو تھیں۔ ایک یہ کہ راجا انگریزوں کے نمک خوار اور نمک حلال تھے۔ دوسرا یہ کہ راجا کی حماقتوں، عیاشیوں اور ظلم، جن کے لئے انہیں انگریز کی تائید اور سرپرستی حاصل ہوتی، کی داستانیں جب انگریز کی براہِ راست عمل داری کے علاقہ میں پہنچتیں تو وہاں کے رہنے والے بہت سے لوگ انگریز کی حکومت کی برکتوں کے گن گانے لگتے اور ان کے خیر خواہ بن جاتے۔ رجواڑوں اور دیسی ریاستوں کو ان کی مضحکہ خیز صورت میں برقرار رکھنے کا اصل مقصد شاید یہی تھا کہ فرنگی اپنے طرزِ حکومت کا فرق اور فوقیت جتا سکے۔ چھوٹی بڑی کوئی چھے سو کے لگ بھگ ریاستیں تھیں۔ درجہ بندی کے لحاظ سے چار اقسام تھیں۔ بیشتر چھوٹی یا بہت چھوٹی، سو پچاس درمیانہ درجہ کی، بڑی ریاستیں یہی کوئی بیس پچیس ہوں گی۔ ایک بڑی ریاست کے نواب صاحب نے نایاب نسل کے عربی گھوڑے منگوائے۔ پہلے انہیں ان بیش قیمت گھوڑوں کی مناسب دیکھ بھال اور آسائش کے خیال نے ستایا۔ اس کا انتظام کرنے کے بعد یہ فکر لاحق ہوا کہ اگر داخلی خیانت کاروں نے گھوڑوں کو نقصان پہنچایا یا خارجی حریف انہیں نکال کر لے گئے تو ان کی بڑی سبکی ہو گی۔ ریاست کا مذاق اُڑے گا۔ انگریز ریذیڈنٹ انہیں نااہل حکمران قرار دے گا۔ کیا عجب کہ گدی سے اُتار دے۔ بڑے سوچ بچار کے بعد نواب صاحب اس نتیجہ پر پہنچے کہ اصطبل زمیں دوز ہونا چاہیے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ اصطبل محفوظ، ٹھنڈا اور تاریک تھا۔ گرمی کا علاج مکمل، حفاظت کا انتظام خاطر خواہ، غیروں کا داخلہ ناممکن۔ عرصہ تک وہ اپنی تدبیر پر ناز کرتے اور خوش ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے مہینوں اس اندھیرے اصطبل میں کھڑے کھڑے اندھے ہو گئے۔ جب انہیں اصطبل سے باہر نکالا تو ان کی بڑی بڑی پلکیں خود کار پردوں کی طرح یکایک ان بے نور آنکھوں پر گر پڑیں جو روشنی کی تاب لانے کے لائق نہ رہی تھیں۔ اہل سروس کی تخلیقی صلاحیتوں کے گھوڑے پہلے ہی دن زمیں دوز اصطبل میں باندھ دیے جاتے ہیں۔ پنشن پانے کے بعد جب ان گھوڑوں کو سطح زمین پر عام آدمی پر طلوع ہونے والے سورج کے سامنے لاتے ہیں تو وہ ناکارہ اور نابینا ہو چکے ہوتے ہیں۔ وقت ایک قوت ہے اور عمر ایک مہلت۔ قوت صرف کرنے سے بڑھتی ہے۔ اس کا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ جو بچ گئی وہ ضائع گئی۔ عمر کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ متواتر عمل سے زندگی دراز سے دراز تر ہو جاتی ہے۔ بے عمل کی عمر سو برس بھی ہو تو گویا پل بھر جیا۔ زندگی کو آزمائش کہتے ہیں۔ یہ عمل کے لئے دائرہ کار اور صحیح وقت کے انتخاب کی آزمائش ہے۔ دنیا کے کام بے شمار۔ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ کارِ دنیا کسے تمام نکرد۔ ہر شخص کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کون کون سا کام کرے گا اور کیسے کیسے لاتعداد اچھے کام چھوڑ دے گا۔ اس کے بعد یہ طے کرنا ہوتا کہ کون سا کام کب کیا جائے گا۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ جو کام وقت پر نہ کیاجائے، وہ پھر کبھی نہیں ہوتا۔ ہر دن کے ڈھلنے کے ساتھ کسی نہ کسی کام کا موقع ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے نکل جاتا ہے۔ امکانات اور توقعات کا دریا جوانی میں یوں چڑھتا ہے جیسے کوئی سمندر۔ پھر تیزی سے اُترنا شروع کرتا ہے۔ اچھے خاصے سمجھدار لوگ جو اپنی دانست میں ایک کامیاب زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت چونکتے ہیں جب دریا خشک ہو چکا ہوتا ہے۔ ان کو حیرت ہوتی ہے کہ جس گٹھڑی میں ارادے باندھ کر کچھ وقت کے لئے ایک طرف رکھ دیے تھے۔ پنشن پانے کے بعد کھولنے پر اس میں سے حسرت کے سوا اور کچھ بھی نہ نکلا۔ کہتے ہیں، کار بکثرت نہ بحسرت۔ کام مشق اور محنت کرنے سے آتا ہے۔ بے عمل خواہش کا حاصل حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لکھنے کے ارادے کو التوا میں ڈالنے والا حیران ہوتا ہے کہ چند سال پہلے جو دوات سیاہی سے لبا لب بھر کر رکھی تھی وہ پڑے پڑے خشک ہو گئی ہے۔ قلم رکھے رکھے ناکارہ ہو گیا ہے۔ انگلیاں قلم کو گرفت میں لینے کا ہنر فراموش کر چکی ہیں۔ وہ بے یقینی کے عالم میں لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک جملہ بھی مکمل نہیں ہوتا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تاریکی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوجاتا ہے۔ گھپ اندھیرے میں کبھی کسی دانا بینا کو راستہ ملا ہے جو اندھے کو ملے گا۔