Harf Shoq
Irshad Ahmad Arif87
برادر عامر خاکوانی نے "آواز دوست" جیسی لافانی کتاب کے مصنف مختار مسعود کی آخری تخلیقی کاوش "حرف شوق" کا ذکر کالم میں کیا تو اپنی حرماں نصیبی کا احساس ہوا، کہ میں بھی جو زمانہ طالب علمی سے مختار مسعود کی تحریروں کا رسیا ہوں یہ کتاب پڑھ نہ سکا۔ سفر نصیب اور لوح ایاّم کی طرح "حرف شوق" بھی ایک ہی نشست میں پڑھنے کے قابل کتاب ہے ہر لفظ، ہر سطر، اور ہر صفحہ باہم مربوط، پُر لطف اور پُر مغز۔ عکرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا ایں جااستچند صفحات قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر۔ الطاف گوہر ہمارے گروپ کے سب سے زیادہ نمایاں فرد تھے۔ مالیاتی سروس سے ادھر آئے تھے۔ عمر اور تجربہ زیادہ۔ ہمہ جہت شخصیت۔ صلاحیتیں اور خواہشات دونوں Irrepressible۔ اردو لغت میں اس انگریزی لفظ کی شرح ملتی ہے، ترجمہ نہیں ملتا۔ بہترین لفظی ترجمہ سرکش ہو گا۔ سربلندی کے لئے بے تاب، صاحب صلاحیت ساتھی نے اپنے رہوارِ قلم کا رُخ شعر و ادب سے موڑ کر دوسری راہوں پر ڈال دیا۔ الطاف گوہر کی وہ غزل جو اکادمی میں ہم نے بارہا سنی تھی اس میں ابر بہار کا جو حال ہوا وہی حال اُبھرتے ہوئے ادیب اور غزل گو شاعر کا ہوا۔ ابر بہار چل دیا اب نہ کوئی کھنک نہ شور۔ کھنک اور شور کی آواز گاہے آتی مگر ان میدانوں سے جنہیں ہم نے اکادمی میں کبھی الطاف گوہرسے منسوب بھی نہیں کیا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی خاطر وہ جِنّاتی مصنفین(Ghost Writers)کی صف میں شامل ہو گئے۔ ملازمت سے قبل از وقت فراغت ملی تو ڈان اخبار کے مدیر ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے۔ کبھی دونوں میں دوستی ہوا کرتی۔ پھر ایوب خاں کی قربت کی وجہ سے الطاف گوہر ان سے دُور ہوتے چلے گئے۔ وزیر اعظم اور مدیر ڈان میں یہ بحث چل نکلی کہ سیاسی صورت حال کے ایسا ویسا ہونے پر سلسلۂ کوہ ہمالیہ کے آنسو بہہ نکلیں گے یا اس کی آنکھیں خشک رہیں گی۔ وزیر اعظم کے دلائل ختم ہو گئے۔ پھر انہوں نے اختیارات کا سہارا لیا۔ مدیر کو جیل ہو گئی۔ رہائی ملی۔ باہر آئے۔ ہاتھ میں تفہیم القرآن کے مقدمہ کا ترجمہ تھا۔ پھر یکایک ان کے قلم نے تیسری دنیا کی معاشی بدحالی اور استحصال کو اپنا موضوع بنا لیا۔ لندن میں اس کام کے لئے ایک بڑا صحافتی ادارہ وجود میں آ گیا۔ گوہر نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور خوب رنگ باندھا۔ جس طرح اچانک یہ کام شروع ہوا تھا اسی طرح آغا حسن عابدی کے بنک کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے اچانک بند ہونے کے ساتھ اس کے دن بھی پورے ہو گئے۔ الطاف گوہر واپس وطن آ گئے۔ مقامی صحافت میں پہلے مدیر روزنامہ مسلم اور پھر کالم نویس کے طور پر کام شروع کر دیا۔ مسلم اخبار نے صدر غلام اسحاق کے خلاف خصوصی مہم اس زور شور سے چلائی کہ اس کا اداریہ صفحہ اول پر حاشیہ میں شائع ہونے لگا۔ ایسی مہم کوئی عامتُہ الناس کے بھلے کے لئے کہاں چلاتا ہے۔ سول سروس کے 1949ء گروپ کے دو چار ساتھیوں کا خیال ہے کہ ملازمت کے دوران غلام اسحاق خاں واحد شخص تھے جس نے الطاف گوہر کی راہ کھوٹی کی۔ صاحب اقتدار تک رسائی، مزاج شناسی اور پھر مزاج میں دخیل ہونے کا وہ کام جو وزیر علی شیخ، واحد بخش قادری، آئی اے خاں، قمر الاسلام، ایس ایس جعفری، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی اور میاں ریاض الدین جیسے نامور آئی سی ایس افسر نہ کر سکے وہ الطاف گوہر نے کر دکھایا۔ مگر یہ کمال کافی ثابت نہ ہوا۔ سرحد سے علم نباتات میں ایم ایس سی کی ڈگری لینے اور محکمہ مال سے ملازمت کا آغاز کرنے والا شخص اپنی محنت اور سازگار حالات کی بدولت ایک دن بین الاقوامی شہرت کا ماہر مالیات بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ فوج کے مال بردار سی 130طیارے کو بھی صاف موسم میں اپنی بیش قیمت سواریوں اور آم کی پیٹی سمیت اسی وقت گرنا تھا جب سینٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے غلام اسحاق خان اور ملک کی صدارت میں صرف ایک سانس کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ وقت بہت بدل گیا ہے۔ تخلیقی ادب سے عملی وابستگی اب تہمت کی بات نہیں رہی۔ نئے ادیبوں کی ایک کھیپ کی کھیپ سول سروس میں پیدا ہو گئی ہے۔ بے شک آج یہ ایک بڑی جماعت ہے مگر عملہ کی کُل تعداد بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ادیبوں کی شرح کیڈر کے ایک فیصد سے دو نہیں ہو سکی۔ فرق اتنا ہے کہ اب انہیں کوئی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اچھا افسر اور ساتھ ہی ساتھ اچھا ادیب ہونے میں ناموافقت کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آتا۔ اس تالیف قلوب کا سہرا قدرت اللہ شہاب، منظور الٰہی اور مسعود مفتی کے سر ہے۔ لوگوں نے سول سروس کے رکن کی حیثیت سے ان کی کارکردگی، دیانت داری، درد مندی اور اخلاص کی گواہی دی۔ ادیبوں کا بول بالا ہو گیا۔ شاعری البتہ ابھی تک سرخرو نہیں ہو سکی۔ عجب نامبارکی ہے کہ جب سول سروس کا سینئر اور مستند شاعر کام سے بے کام کر دیا گیا تو اس نے پناہ کے لیے فلم کی دنیا کا انتخاب کیا۔ جونیئر شاعر نے فارغ کئے جانے اور دنیائے حُسن و عشق کا پھیرا لگانے کے بعد دوسری دنیا کا انتخاب کیا اور خودکشی کر لی۔ فضلی صاحب اور مصطفی زیدی کے انجام سے ڈرتے ہوئے سول سروس کا کوئی رکن ملک الشعرا کا تاج سر پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ سرکاری توشہ خانہ میں رکھا ہوا یہ تاج گرد آلود ہو چکا ہے۔ پہننا تو ایک طرف رہا، کوئی اس کی گرد جھاڑنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ یہ حسن اتفاق نہیں تو اور کیا ہے کہ اعلیٰ افسروں کی شعر گو’بیویوں، کا حال شاعری کرنے والے شوہروں سے مختلف اور بہتر رہا۔ ہر سرکاری اعزاز میں بیگماتی حصہ داری مگر سرکاری ملازمت کی ہر افتاد سے محفوظ۔ نام وری انہوں نے اپنی ہنروری سے حاصل کی۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ پاکستان میں اردو شاعری کی خاتونِ اوّل ادا بدایونی ہیں اور خاتون دوم زہرا نگاہ۔ دونوں کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے۔ غیاث الدین احمد بہت نفیس، نستعلیق اور شریف انسان ہیں۔ صلح جو اور میانہ رو۔ طور طریق سول سروس کے، بود و باش رئیسانہ، سیرت و اخلاق اشرافی۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا ان دنوں ابو طالب نقوی علی گڑھ کے کلکٹر ہوتے تھے۔ غیاث صاحب ان کے نائب تھے۔ جب میں ایران میں آر سی ڈی کا سیکرٹری ہوا کرتا تھا غیاث الدین وہاں پاکستان کے سفیر تھے۔ انہوں نے لوحِ ایام پڑھی۔ رنجیدہ ہوئے۔ مجھے ٹیلیفون کیا۔ ایک شکایت یہ تھی کہ میں نے لاہور جم خانہ کلب میں 11مارچ 1950ء کو کھیلے جانیوالے خواتین کے ہاکی میچ کی ٹیم میں مس آئی غیاث الدین اور مس این غیاث الدین کا نام شامل کر دیا ہے حالانکہ اس وقت ان کی بچیاں کم سن تھیں۔ وہ ہاکی کیسے کھیلتیں جن کا قد بھی ہاکی سٹک کے برابر نہ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ غیاث الدین آپ نہیں کوئی اور ہیں۔ غالباً نواب غیاث الدین ہیں۔ ہاکی کا نمائشی میچ کھیلنے والی لڑکیوں کے نام پاکستان ٹائمز 10مارچ 1950ء کی اشاعت میں اس طرح درج ہیں جیسے میں نے لوحِ ایام میں کئے ہیں۔ غیاث صاحب نے ایک دنیا دیکھی ہے۔ اس کا ذکر دھیمے مگر پر اثر لہجے میں کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں۔ سنا کرے کوئی۔ اردو میں ایک مختصر کتاب لکھی۔ ابتدائی دورِ ملازمت کے چند دلچسپ تجربات بیان کئے۔ ایک نامی گرامی ادیب نے اس کتاب کو بہت سراہا اور تعجب کا اظہار کیا کہ اہل سول سروس واقعات اور واردات کے اس قدر بڑے سرمایہ دار ہونے کے باوجود اتنے کوتاہ قلم کیوں ہیں؟ ۔ میں نے کہا، وجہ عرض کرتا ہوں مگر پہلے آپ کی ہاں میں ہاں ملا لوں۔ ایک عرصہ سے میں نے انگریز کے عہد میں سول سروس میں شامل ہونے والے سینئر افسروں سے بصد ادب اور اصرار درخواست کی کہ وہ اپنی سرگزشت قلم بند کریں۔ بیشتر خاموش رہے۔ جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کچھ مسکرا دیئے۔ دو چار نے کہا، فرصت نہیں ملتی۔ اس بہانے کا جواب پہلے سے تیار تھا۔ میں نے عرض کیا، عمر بھر آپ سٹینو کو منہ زبانی لکھاتے رہے ہیں آج اس مہارت کو کام میں لائیے۔ داستان قلم بند کرنے کے بجائے خیالات کو صوت بند کر لیجیے۔ تصحیح و تنظیم بعد میں ہوتی رہے گی۔ اس تجویز کے بعد بحث کی گنجائش ختم ہو جاتی۔ جواب ملتا، اچھا سوچوں گا۔ صرف ایک جواب دوسروں سے ذرا مختلف تھا۔ ایک برخود غلط سینئرکہنے لگے، لکھنے کے بارے میں فیصلہ کر لیا۔ فہرست مضامین بنا لی۔ واقعات کو مرتب کیا۔ جزئیات پر غور ہوا۔ ایک خفیہ اور نازک مسئلہ پر آ کر بات بگڑ گئی۔ اتنی محنت اور غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دو چار معاملات کی تفصیل بیان کرنا ملکی مفاد کے خلاف ہو گا۔ راز کو سربستہ ہی رہنا چاہیے۔ مجھے سوانحی تاریخچہ نہیں لکھنا چاہیے۔ (جاری ہے)