لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے خصوصی عدالت کی تشکیل، ٹرائل اور فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پرویز مشرف کے سر پر لٹکتی تلوار ہٹا دی، خصوصی عدالت نے اپنی تشکیل پر غور کئے بغیر ملزم کی عدم موجودگی میں سزائے موت کا جو فیصلہ سنایا اسے ماہرین قانون نے روز اول ہی متنازعہ قرار دیا کہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے ہوئے نہ فیصلے کے نتائج و مضمرات پر غور کیا گیا، پاک فوج کے ترجمان نے فیصلہ آنے کے بعد جب یہ کہا کہ "پاک فوج میں اضطراب اور غصہ ہے "تو یار لوگوں نے معاملے کی سنگینی پر غور کرنے کے بجائے سول بالادستی کا پرانا اور گھسا پٹا راگ چھیڑ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے اداروں کے مابین موجود تنائو برقرار نہیں رہے گا اور خصوصی عدالت کے فیصلے نے جن غلط فہمیوں کو جنم دیا تھا ان کا خاتمہ ہو گا، یہ بحث اب چائے کی پیالی میں طوفان کے مترادف ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کو خصوصی عدالت کی تشکیل، ٹرائل اور فیصلہ کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل تھا یا نہیں، کتابی بحثیں جتنی اس ملک میں چلتی ہیں کسی دوسرے میں نہیں، تفریح طبع کا باعث بننے والی کتابی بحثوں سے محظوظ ہونے والے بہت ہیں، متاثر کوئی نہیں ہوتا۔
مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس بشیر الدین خان 1980ء کی دہائی میں اخبارات و جرائد کی مرغوب شخصیت تھے۔ صاف گو، مرنجاں مرنج اور متاثر کن گفتگو کے عادی، ایک بار بتایا کہ میں چیف جسٹس ایم آر کیانی کے ساتھ بنچ کا حصہ تھا، واپڈا کے ایک اہلکار کا کیس سامنے آیا جسے ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ چیف صاحب نے کیس سماعت کے لئے منظور کر لیا اور واپڈا سمیت مختلف اداروں کو نوٹس جاری ہو گئے۔ میں نے بصد ادب کیانی صاحب سے کہا یہ سروسز ٹریبونل کا کیس ہے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟ دائرہ اختیار کا سوال اٹھے گا، جسٹس کیانی کہنے لگے فکر نہ کرو مجھے علم ہے مگر ہائی کورٹ ہائی کورٹ ہے، یہ سوچنا ہمارا کام نہیں، واپڈا کے حکام اور وکیل کا فرض ہے اگر دائرہ اختیار کا سوال اٹھا تو ہم غور کر لیں گے، ہو سکتا ہے ہمارے نوٹس سے ہی غریب اہلکار کا کام بن جائے، یہی ہوا اگلی سماعت پر واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ اہلکار، ملازمت پر بحال ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے۔ خصوصی عدالت نے دائرہ اختیارکی بحث میں پڑے بغیر فیصلہ سنا دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ نہ سنانے کا حکم دیا، جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے سنی ان سنی کر دی۔ فیصلہ بھی ایسا سنایا کہ بیرسٹر اعتزاز احسن، حامد خان اور پرویز مشرف کے دیگر شدید مخالف ماہرین قانون بھی بلبلا اٹھے، فاضل فیصلہ نویس کی ذہنی حالت پر شک کرنے لگے، ملزم کی طبعی موت کی صورت میں میّت کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکانے کی ہدائت کر دی، آئین، ملکی قانون کی پروا نہ شرعی احکامات اور سماجی اقدار سے سروکار۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ یوں قابل عمل ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل اور ٹرائل کے طریقہ کار پر جو اعتراضات قانونی حلقوں کی طرف سے اٹھائے جا رہے تھے ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بغیر خصوصی عدالت کی تشکیل، ملزم کی غیر حاضری میں ٹرائل اور موثر بہ ماضی قانون پر عملدرآمد، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ فیصلے کے خلاف اپیل وفاقی حکومت کرے یا ملزم پرویز مشرف، دونوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ آ بیل مجھے مار کی کیفیت سے دوچار ہوں، نئی خصوصی عدالت کی تشکیل بھی وفاقی حکومت کا اختیار ہے، آئندہ کسی ناخوشگوار صورت سے بچنے کے لئے وفاقی حکومت اور پرویز مشرف دونوں کو قابل عمل حکمت عملی وضع کرنی ہو گی کہ دوبارہ کوئی یہ معاملہ عدالتوں میں اٹھا نہ سکے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے "شیطان اور گہرے سمندر" میں پھنسی حکومت کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے، اپوزیشن کی جو جماعتیں ریلیف کے لئے اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کی محتاج ہیں، وہ اس فیصلے پر منفی تبصروں اور ردعمل سے گریزکریں گی کہ ع
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
خصوصی عدالت کے فیصلے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں میں سے تادم تحریر کسی نے زبان کھولی ہے نہ منفی ریمارکس دیئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے اصل چیلنج اپنی کارگزاری بہتر بنانا، عوام کو آسودگی فراہم کرنا اور اتحادیوں سے نمٹنا ہے۔ جو معلوم نہیں کیوں بدکنے لگے ہیں، ایم کیو ایم نے ابتدا کی ہے اور اختر مینگل کی جماعت کراچی کی لسانی تنظیم کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ خالد مقبول صدیقی کا وزارت سے استعفیٰ ایم کیو ایم کی دیرینہ روایت کا اعادہ یعنی وفاقی حکومت سے ترقیاتی فنڈز بٹورنے اور زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کا حربہ ہے یا پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول کرنے کا عندیہ؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایم کیو ایم حکومتی مجبوریوں اور حکمرانوں کی افتاد طبع سے واقف ہے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کا تلخ تجربہ وہ بھولی نہیں، آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری کے بعد اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے۔ راوی اگرچہ بیشتر وہی ہیں جو عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے ذریعے رخصت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے یا پھر دسمبر میں حکومت کی تبدیلی پر اصرار کرنے والے۔ مہربانوں سے پوچھا جائے کہ عمران خان کا متبادل کون ہے؟ تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کہ مارچ تبدیلی کا مہینہ ہے تو بیرون ملک مقیم سیاستدان واپس آنے کے بجائے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور جانثار ساتھیوں کو باہر کیوں بلا رہے ہیں، ملک میں صفیں درست کرنے کا اہم کام کیوں نہیں سونپتے؟ میاں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ پٹ جانے کے بعد اپوزیشن پر چھائی مردنی اور وسیع پیمانے پر مایوسی سے نجات کا واحد نسخہ یہی ہے کہ مقتدر قوتوں سے رابطوں کی قیاس آرائیاں عام کی جائیں۔ طاقتوروں کو باور کرایا جائے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا، یہ عمران کی سازش تھی اور فوجی قیادت کو پریشان کرنے کی حکمت عملی۔ کارکنوں کو عمران خان کی رخصتی کے امکانات کا جھنجھنا دے کر "ووٹ کو عزت دو" والے بیانیے سے شرمناک پسپائی پر مٹی ڈالی جائے اور مہنگائی سے تنگ عوام کو یہ لالی پاپ دیا جائے کہ ان کی طرح مقتدر قوتیں بھی حکومت کی کارکردگی سے برگشتہ ہیں۔ اپوزیشن عوامی سطح پر یہ تاثر پیدا کرنے میں بہرحال کامیاب ہے کہ عمران خان نااہل ٹیم اور غلط ترجیحات کی بنا پر عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بدانتظامی کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ غیر سنجیدہ اور عوامی ضرورتوں، نفسیات سے سراسر نابلد مشیر ان کے اردگرد جمع ہیں اور پنجاب میں بُری حکمرانی سردار عثمان بزدار نہیں عمران خان کا تحفہ ہے۔ تاحال عمران خان اور ان کے ساتھی اس تاثر کو دور کرنے میں ناکام ہیں، میڈیا اُن سے نالاں ہے، تاجر برادری اور بیورو کریسی کو رام کرنے کے لئے انہوں نے نیب قوانین میں ترمیم کی مگر احتساب کے بیانئے کو بُری طرح مجروح کر دیا، اتحادی بھی اگر علیحدگی یا بلیک میلنگ پر اُتر آئے تو حکومت اپنے بچائو کے لئے کیا کرے گی، اللہ ہی جانے۔ تحریک انصاف ڈیڑھ سال میں اپنے مخالفین مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی صفوں میں دراڑ ڈال سکی نہ کسی فارورڈ بلاک کی صورت میں اپنی پارلیمانی قوت میں اضافہ کرنے کے قابل۔ مخالفین کو پروپیگنڈا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ حکمرانوں کو خود فکر نہیں تو کسی اور کو کیوں ہو؟