Hun Aram Ay
Irshad Ahmad Arif112
عمران خان کی حکومت اور پاک فوج کی قیادت نے نریندر مودی کے بھارت کی یہ خوش فہمی دور کر دی کہ پاکستان اس کی خالہ کا گھر ہے پنجابی زبان میں ماسی دا ویہڑا جہاں اس کے لیڈر، تجزیہ کار، دانشور، تاجر، مسلح فوجی اور بمبار طیارے جب چاہیں ٹہلتے ہوئے جائیں، دراندازی کریں یا زبان درازی، کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا ہے نہ عالمی برادری کے روبرو شور مچانے والا۔ دو طیارے مار اور ونگ کمانڈرابھے نندن کو گرفتار کر کے پاکستان نے مگر بتایا کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اب پاک فوج کی قیادت ایسے کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے جو جی ایچ کیو پر حملے کے بعد بھی بیٹھ کر فلسفہ جھاڑیں گے، دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہیں کریں گے، نہ سیاسی اقتدارپر وہ فائز جونریندر مودی کے گورو اٹل بہاری واجپائی کو معصوم اور اپنی فوجی قیادت کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مرتکب قرار دیتی اور کلبھوشن جادیو کا نام لینے سے یوں شرماتی ہے جیسے ہندو ناریاں منگیتر کا نام لینے سے۔ بھارتی سیاسی قیادت اور فوج اپنی جگہ سچی تھی، پاکستان پر ایک دور ایسا گزرا ہے جب حکمران ٹولہ کرگل آپریشن کے ہنگام بھارت سے کم پاک فوج سے زیادہ ناراض تھا۔ فوجی جوان کشمیری مجاہدین کے ساتھ مل کر کرگل کی چوٹیوں پر دفاع وطن اور آزادی کشمیر کی جنگ لڑ رہے تھے اور حکومت میں شامل بعض عناصر مبینہ طور پر نیو یارک میں پاک فوج کو "سرکش فوج" ثابت کرنے کے لئے سرکاری خرچ پر اشتہار بازی میں مصروف، اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سیفما کی ایک تقریب میں بتایا کہ جب واجپائی نے مجھے کہا کہ آپ کی فوج نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا تو میں نے کہا واقعی، آپ نے درست کہا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قاتل اور کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خواہش مند نریندر مودی پاکستان آیا تو اس کا سواگت جاتی امرا میں یوں جیسے کسی قریبی عزیز اور دیرینہ تعلقدار کا ہوتا ہے حالانکہ میاں صاحب کی ان سے صرف ایک ملاقات ہو چکی تھی۔ فوجی قیادت نے اعتراض کیا تو قوم کو باور کرایا گیا کہ ہم تو بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے درپے ہیں تجارت کے ذریعے پاکستان میں خوشحالی لانے کے خواہاں مگر فوج رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ کلبھوشن جادیو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو وزیر اعظم نواز شریف نے کسی فورم پر اس کا نام لے کر بھارت کو باور کرانے کی کوشش نہ کی کہ وہ جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے سے باز رہے اور دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی مدد کرے۔ بھارت نے پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کی تو عمران خان نے قوم سے خطاب میں نریندر مودی کو مذاکرات اور مشترکہ تحقیقات کی دعوت دی اور فوجی ترجمان نے بھی زیادہ تفصیل سے اس پیشکش کو دہرایا مگر بھارت نے اسے ہماری کمزوری سمجھا اور وزیر اعظم کے علاوہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ پیغام سمجھ نہ پایا کہ اگراس نے جارحیت کی کوشش کی تو ہم جواب کے بارے میں سوچیں گے نہیں، جواب دیں گے۔ بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان کا مذاق اڑایا اور سرجیکل سٹرائیک کے نام پر ایک ایسی کارروائی کر ڈالی جو پاکستان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی، پاکستان نے 1999ء میں ایک بھارتی طیارہ گرا دیا اس کا پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ کے نچکیت زندہ گرفتار ہوا مگر میاں نواز شریف نے جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے بھارت واپس بھیج دیا۔ پاک نیوی کے قیمتی جاسوس طیارے کو بھارت نے نشانہ بنایا ہم ڈھنگ کا احتجاج بھی نہ کر سکے، بالا کوٹ آمد پر بھارتی طیاروں کے ساتھ پاکستانی ایئر فورس نے وہ کیا جو تقاضائے دانش تھا، جلد بازی میں کوئی رسک لینے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی، قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے اعلان کے مطابق دوسرے دن موزوں وقت اور جگہ کا خود تعین کر کے پاکستانی حدود میں لائے اور بدلہ چکا دیا۔ یہ پاکستان کی بہادر سیاسی اور فوجی قیادت اور قوم کے اتحاد کا ثمر ہے اور بھارت کو اس زبان میں سمجھانے کی تدبیر، جو وہ بولنے اور سمجھنے کا عادی ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کل تک نریندر مودی اور سشما سوراج کی رعونت دیدنی تھی اور امریکہ و یورپ شانت مگر جونہی پاک فوج نے کارروائی کی اور بھارت کے جھوٹ و کمزوری کا پول کھلا امریکہ کو خطے کا امن خطرے میں نظر آنے لگا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم دونوں ممالک کی قیادت کو تحمل و برداشت سے کام لینے کی نصیحت کرنے لگی اور سشما سوراج کو کہنا پڑا کہ ہم کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے خطاب ایک ذمہ دار قوم کے بالغ نظر لیڈر، بھارتی قوم اور عالمی برادری کو پیغام تھا مختصر اور مدلل انداز میں عمران خان نے دنیا کو باور کرایا کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا اور امن کے لئے پاکستان کی خواہش کمزوری نہیں عمران خان نے ڈینگ ماری نہ معذرت خواہانہ لہجہ اپنایا۔ بھارتی قوم اور سیاسی و فوجی قیادت عزت، غیرت، وقار، انسانیت، امن اور عوام کے حوالے سے سوچنے کی عادی ہے نہ کسی کے جذبہ خیر سگالی کا احترام کرنا اس کی فطرت میں شامل۔ طاقت کی زبان وہ سمجھتی ہے اور نفع و نقصان کے حوالے سے وہ سوچتی ہے۔ بنیا ذہنیت اب سوچنے پر مجبورہو گی کہ جنگ اس کے لئے زیادہ تباہ کن ہے۔ بھارت کی معیشت امریکہ یورپ، چین اور عرب ممالک کی سرمایہ کاری کی مرہون منت ہے اور نریندر مودی ان میں سے کسی کا دبائو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ جنگی جنون میں قومی معیشت اور انتخابی کامیابی کو دائو پر لگانے کا متحمل۔ ایک آدھ مہم جوئی شائد پھر بھی کریں لیکن زیادہ دیر وہ کشیدگی برقرار رکھ نہیں سکتے کہ معیشت کا بیڑا غرق ہو گا اور انتخاب جیتنا ناممکن۔ پاکستان کا موقف جاندار ہے اور قیام امن کی خواہش کا آئینہ دار۔ اپنی دفاعی صلاحیت کا اظہار اس نے دن دیہاڑے کر دیا ہے اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس سے عالمی برادری کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے لہٰذا مذاکرات کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے تاہم بھارت، عالمی برادری اور پاکستانی قیادت سب کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ اور کشمیری عوام کی خواہشات کے بغیر حل نہ ہوا تو کبھی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں نہ قیام امن ممکن۔ ایک چھوٹا سا واقعہ، عادل ڈار جیسا ایک نوجوان اعتماد سازی کے اقدامات، مذاکرات اور تجارت کی ساری کوششوں پر پانی پھیر سکتا ہے، کہ دونوں ممالک میں اصل وجہ نزاع یہی ہے۔ کشمیریوں کے درد کا درماں کئے بغیر بھارتی عوام سکھ چین کی زندگی بسر کر سکتے ہیں نہ منافع خور امریکی، یورپی کمپنیاں اپنا کاروبار خوش اسلوبی سے جاری۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کی قیادت میں پاکستان اپنی سٹرٹیجک پوزیشن کا فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ دونوں مرعوب و خوفزدہ ذہنیت کے مالک ہیں نہ قومی ایشوز پر کنفیوژڈ اور نہ ذاتی، خاندانی اور کاروباری مفادات کے اسیر۔ بھارت کی خوش فہمی دور نہیں ہوئی تو انتظار کرے، جلد دور ہو جائے گی، شہادت کی موت طلب کرنے والی قوم کا مقابلہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے عادی گروہ کے بس میں نہیں۔ قیادت اور قوم دونوں کا اس جذبے سے سرشار ہونا ضروری تھا شائد وہ وقت آ گیا۔ پاکستانی عوام جنگ کے خواہش مند نہیں، مگر جانتے ہیں۔ امن بھیک میں نہیں ملتا۔ گھوڑے تیار رکھ کر امن کی خواہش غیرت مند اور باوقار قوم کا شیوہ ہے اور پاکستانی قوم غیرت مند ہے۔ ؎دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کوعجب چیز ہے لذت آشنائی