لگتا ہے عمران خان پھر فارم میں آ گئے ہیں، اتوار کے روز انہوں نے خیبر پختونخوا میں اپنے دو چہیتے وزیروں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر فارغ کیا اور جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کی تحریک استحقاق پر انسپکٹر جنرل پولیس شعیب دستگیر کی طلبی کا نوٹس لیا، وزیر اعظم کو تشویش اس بات پر ہے ارکان اسمبلی پولیس اور انتظامیہ کو تابع سہل بنانے اور من مانی کرنے پر تُل گئے ہیں اور وہی حرکتیں کرنے لگے ہیں جو ماضی کی حکومتوں اور اسمبلیوں کا طرّہ امتیاز تھی۔ 1985ء میں غیر جماعتی اسمبلیاں وجود میں آئیں تو جماعتی نظم و ضبط، جمہوری اخلاقیات اور قاعدے قانون سے بے نیاز افراد کی بڑی تعداد منتخب ایوانوں میں پہنچ گئی جن کی خوشنودی کے لئے جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ترقیاتی فنڈز مختص کئے یہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے پیپلز ورکس پروگرام کا چربہ تھا کہ یہ ارکان حلقے میں اپنے وفادار کارکنوں اور ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹیں اور مال پانی بنائیں، ترقیاتی فنڈز کے اجرا پر سیاسی جماعتیں اور میڈیا نے خوب شور مچایا اور اسے کھلی رشوت و بدعنوانی سے تعبیر کیا۔ پیپلز پارٹی آگے تھی مگر ضیاء الحق اور محمد خاں جونیجو کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد جماعتی اسمبلیاں وجود میں آئیں تو یہ مکروہ بدعت دھڑلے سے جاری رہی، آج حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف بھی عمران خان کے نعروں اور وعدوں کے باوجود اپنے اتحادی ارکان کا رانجھا راضی رکھنے کے لئے ترقیاتی فنڈز کے نام پررشوت اور بدعنوانی کا یہ کاروبار چلانے پر مجبور ہے۔
انہی خباثتوں میں سے ایک ارکان اسمبلی اور مقتدر افراد کا غیر معمولی تام جھام ہے۔ عوامی خدمت کے دعویدار اپنے آپ کو برتر مخلوق سمجھتے اور قواعد و ضوابط، نظم و ضبط حتیٰ کہ حفاظتی اقدامات کی پابندی کو توہین خیال کرتے ہیں۔ جب اور جہاں کوئی سرکاری اہلکار انہیں قانون اور ضابطہ یاد دلائے، ان کا استحقاق مجروح ہوتا اور مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم اور غلام حیدر وائیں مرحوم پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو دو تہائی اکثریت کی وجہ سے دونوں کو ارکان اسمبلی کے نخرے برداشت کرنے اور ان سے بلاوجہ بلیک میل ہونے کی حاجت نہ رہی۔ وائیں صاحب درویش طبع انسان تھے اور انہیں میرٹ کی بالادستی کا شوق بھی تھا، میرٹ ہی کے ضمن میں بعض لطائف نے جنم لیا۔ سابق سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کے والد رانا پھول خان مرحوم پنجاب اسمبلی کے سدا بہار اور صاف گو رکن اسمبلی تھے، وائیں صاحب نے انہیں وزیر بنا دیا۔ پھول نگر کی ایک ایم اے پاس خاتون ملازمت کی درخواست لے کر رانا صاحب مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئی، خاتون ضرورت مند تھی اور تعلیمی کوائف متاثر کن۔ ساتھ لیا اور وزیر اعلیٰ کے پاس چلے گئے، عرض گزار ہوئے کہ اچھے تعلیمی کیریئر کی حامل اس ضرورت مند خاتون کو فوری ملازمت دیدی جائے۔ وائیں صاحب نے درخواست دیکھی، خاتون سے ایک دو سوال کئے اور بولے رانا صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں نے ہر محکمے میں میرٹ کی پالیسی نافذ کی ہے، میں متعلقہ ادارے کو درخواست بھیج دیتا ہوں، خاتون میرٹ پر پوری اُتری تو ملازمت مل جائے گی، ورنہ معذرت۔ رانا صاحب کو وزیر اعلیٰ کی یہ ادا پسند نہ آئی، تنک کر بولے کام نہیں کرنا تو نہ کریں مجھے میرٹ نہ سمجھائیں۔ آپ میٹرک پاس ہیں اور میں پرائمری فیل، آپ وزیر اعلیٰ بن گئے، میں صوبائی وزیر، یہ کون سا میرٹ ہے، سارا میرٹ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایم اے پاس لوگوں کے لئے رہ گیا ہے۔ ہت تیرے اس میرٹ کی۔ ان دنوں میرٹ کی باتیں سن کر رانا پھول خان مرحوم بہت یاد آتے ہیں، اب رانا پھول خان جیسا کوئی دبنگ منتخب عوامی نمائندہ دیکھنے کو ملتا ہے نہ غلام حیدر وائیں جیسا کوئی درویش صفت سیاستدان جو وزارت اعلیٰ کے منصب سے معزول ہونے کے بعد مسلم لیگ ہائوس کے چھوٹے سے سادہ کمرے میں سنگل بیڈ سجا کر بیٹھ گیا۔
وائیں صاحب کے دور میں ایک رکن اسمبلی اپنے گن مینوں کے ساتھ چیئرنگ کراس چوک پہنچے، ٹریفک پولیس کے اہلکار نے انہیں روکا اور گن مینوں کی تلاشی لینا چاہی جو عوامی نمائندے کو ناگوار گزری اور وہ غریب پولیس اہلکار پر چڑھ دوڑے، اہلکار بھی اپنی وضع کا شخص تھا، ڈٹ گیا کہ تلاشی لئے بغیر گاڑی کو نہیں جانے دوں گا، تو، تو میں، میں ہوئی اور تلاشی کے بعد عوامی نمائندے نے دوست محمد مزاری کی طرح اسمبلی میں جا کر ہنگامہ کر دیا کہ میرا استحقاق مجروح ہو گیا، حکومت اور اپوزیشن کے جملہ ارکان اسمبلی ایوان سے باہر نکلے اور احتجاج شروع کر دیا کہ متعلقہ اہلکار کی گرفتاری اور آئی جی کی صوبہ بدری کے بغیر اندر نہیں جائیں گے۔ وائیں صاحب نے مطالبہ مان لیا اور لاہور کی پوری پولیس انتظامیہ کی تبدیلی کا حکم دیدیا۔ میڈیا کے علاوہ عوام نے ارکان اسمبلی کی اس داداگیری اور وائیں صاحب کے اقدامات کو سخت ناپسند کیا۔ شور مچا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو وائیں سمیت مری میں طلب کیا، استحقاق کے نام پر قانونی شکنی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تضحیک پر وزیر اعلیٰ اور ارکان اسمبلی کی گوشمالی کی اور تھانہ سول لائن میں نظر بند پولیس اہلکار کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ باقی تمام عرصہ ارکان اسمبلی شانت رہے اور کسی کو استحقاق کا ہیضہ نہ ہوا۔
پولیس اہلکار عوام کی طرح بسا اوقات منتخب عوامی نمائندوں کی توہین پر تل جاتے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، ہمیشہ مگر وہ غلط ہوتے ہیں نہ دوسروں کی تضحیک و توہین پر آمادہ۔ متذکرہ واقعہ میں پولیس اہلکاروں نے ڈپٹی سپیکر کو نہیں اس کے سٹاف کو روکا، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے باہر اہلکار اس قدر احمق نہیں ہو سکتے کہ وہ ایک ایسے ڈپٹی سپیکر سے الجھیں جس کا وزیر اعلیٰ سے ذاتی اور علاقائی تعلق ہے، غلطی کا امکان پھر بھی موجود ہے مگر اسمبلی میں اس واقعہ کو اچھال کر جس طرح صوبائی حکومت کی بھد اڑھائی گئی اور پولیس سربراہ کو بلا کر جواب طلبی ہوئی وہ قابل رشک صورت نہیں تھی، اطلاع یہ ہے کہ مقصد انتظامیہ اور پولیس کو ملنے والے اختیارات اور ان کے معاملات میں عوامی نمائندوں کی عدم مداخلت کے احکامات کا بدلہ چکانا تھا، عمران خان نے واقعہ کا نوٹس لے کر پولیس کا مورال بحال کرنے کی سعی کی ہے اگر عمران خان اس امتحان میں پورے اُترے تو عوامی نمائندوں کی دیگر عادات پر قابو پانا آسان رہے گا۔ 1985ء سے بلیک میلنگ کے جس کلچر نے ریاست، ریاستی اداروں، قاعدے قانون اور قومی اخلاقیات کا بیڑا غرق کیاہے، اس کی بحالی میں وقت لگے گا لیکن کہیں نہ کہیں سے آغاز ہونا چاہیے، شاید یہی واقعہ رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو۔