یک نہ شد دو شد، عید کی خوشیوں میں کھنڈت ڈالنے کے لئے پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کافی نہ تھے کہ وفاقی وزیر سائنس فواد چودھری بھی آ نکلے۔ عید محض ایک تہوار نہیں، نماز عید کی ادائیگی مذہبی فریضہ ہے کلمہ گو رمضان المبارک کے اختتام پر اظہار تشکر کے لئے جس کا اہتمام کرتے ہیں، رمضان ختم ہونے سے قبل عید کا انعقاد اور یکم شوال کے دن روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے۔ اسی باعث نماز روزے کے پابند مسلمان عیدالفطر کی ادائیگی کے لئے رویت ہلال کو یقینی بناتے ہیں کہ اپنے مہینے بھر کی کمائی ضائع کرنہ بیٹھیں۔ ہمارے ہاں بعض دانا مگر عیدالفطر اور عیدالاضحی کو بھی دیگر قومی تہواروں کی طرح منانا چاہتے ہیں، کسی کو اس موقع پر قومی یکجہتی کا دورہ پڑتا ہے اور کوئی مذہبی طبقے کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موزوں موقع تصوّر کرتا ہے۔
کورونا وائرس نے پوری دنیا کی چیخیں نکلوا دیں، امیر غریب، طاقتور کمزور اور مذہبی غیر مذہبی کی تفریق کے بغیر اس جرثومے نے سب کو نشانہ بنایا۔ ہر طرف سے اتحاد و یکجہتی کی آوازیں بلند ہوئیں۔ قدرت نے پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو قومی یگانگت کے اظہار کا سنہری موقع فراہم کیا مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اس بحران میں بھی پرانے حساب چکائے اور کسی کو کورونا کی مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو متحد کرنے کا خیال نہیں آیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ہوں یا میڈیا کے پروگرام ہر جگہ سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی، ایک ہی روز عید منا کر دنیا کو قومی یکجہتی کا پیغام دینے کے پیامبر سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سے کسی نے بھی گزشتہ تین ماہ کے دوران صرف ایک دن اپنے قول وفعل سے یہ ثابت نہیں کیا کہ موذی وبا کے مقابلے کرنے کے لئے ہم سب متحد ہیں، رہے سہے اتحاد میں رخنہ اندازی کے لئے کوششیں البتہ عروج پر رہیں، لاک ڈائون کے معاملے پر ہر ایک کا نقطہ نظر دوسرے سے مختلف تھا، بے روزگاروں اور دیہاڑی داروں کی امداد پر جھگڑا، دکانیں اور ٹرانسپورٹ کھولنے پر توتکار اور طبی سازو سامان کی تقسیم پر جو تم پیزار صوبوں اور مرکز میں اتفاق رائے مفقود۔ عیدالفطر کے چاند دیکھے بغیر ایک ہی دن انعقاد پر بعض لوگ مگر بضد ہیں اور رویت ہلال کمیٹی کی موجودگی پر معترض۔ یہ بھی جانتےہیں کہ عامتہ الناس نماز عید کسی وزیر کی خواہش کے مطابق ادا کریں گے نہ وزارت سائنس کے کیلنڈر کو دیکھ کر، نماز روزے کے پابند مسلمان رویت ہلال کمیٹی پر اعتماد کرتے اور مولانا مفتی منیب الرحمن ہوں یا مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو واجب الاتباع سمجھتے ہیں کہ اختلاف فکر و نظر کے باوجود یہ علماء دین کا فہم رکھتے، شرعی تقاضوں کو سمجھتے ہیں وفاداری بھی ان کی شریعت مطہرہ کے ساتھ ہے۔
ماہرین نجوم فلکیات مطلع کے اختلاف پر رویت میں فرق کا ادراک رکھتے ہیں اور کبھی پورے ملک میں ایک ہی روز چاند کی رویت پر اصرار نہیں کرتے، ہمارے محترم دوست ضیاالدین لاہوری کے فرزند ارجمند خالد اعجاز مفتی 25مئی کو عیدالفطر کا امکان ظاہر کر چکے ہیں۔ ستاروں کی گردش اور چاند کی رویت کے حوالے سے ضیاء الدین لاہور ی اور خالد اعجاز مفتی سند کا درجہ رکھتے ہیں، مگر فواد چودھری کا اصرار ہے کہ قوم عید بہر صورت 24مئی کو منائے اور ان کی وزارت کے وضع کردہ کیلنڈر کو حرف آخر سمجھا جائے۔ وزیر موصوف کے اعلان کے بعد اگر رویت ہلال کمیٹی شرعی شہادتوں کی بنا پر مختلف فیصلہ کرے تو قوم تذبذب کا شکار ہو گی کہ مفتی منیب الرحمن، مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور فواد چودھری میں سے درست کون ہے؟ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ عید اتوار کو کریں یا پیر کو؟ ۔ عید اتوار کو ہو یا پیر کو اس کا ریاست کو کوئی اقتصادی و معاشی فائدہ ہے نہ اس کے مثبت سماجی و مذہبی اثرات۔ انتشار البتہ پیدا ہو گا جو ملک و قوم کے مفاد میں ہے نہ حکومت کے لئے کارآمد۔ مذہبی طبقہ البتہ عمران خان اور موجودہ حکومت سے بدظن ضرور ہو گا کہ ریاست مدینہ کا نعرہ اور علماء کی تحقیر؟ رویت ہلال کمیٹی کی بندش پر اصرار کا مقصد کیا ہے؟ قادیانیوں کی اقلیتی کمشن میں نمائندگی اور دیگر متنازعہ معاملات پہلے ہی حکومت کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں، مستزاد مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کے خلاف پروپیگنڈا مہم؟ یہ محض اتفاق نہیں، اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا ہماری ناروا قومی عادت ہے اور یہ بیان بازی اسی سوچ کا مظہر، گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک کرنل صاحب کی اہلیہ محترمہ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں محترمہ چیک پوسٹ پر تعینات اہلکار پر رعب جھاڑ رہی ہیں، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ وہاں پر تعینات عملے نے محترمہ کے خلاف قانونی کارروائی کی بجائے محض ویڈیو سازی پر اکتفا کیوں کیا؟ کیا چیک پوسٹ پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات محدود ہیں یا اس کا کام کسی کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کے بجائے محض ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ہے، مطالبہ یہ ہوا کہ محترمہ کے شوہر نامدار کے خلاف کارروائی کی جائے اور وہ بھی شوہر نامدار کا محکمہ کرے۔
بدتمیزی، دھونس اور زبردستی کوئی مرد کرے یا خاتون قابل مذمت اور قابل دست اندازی قانون ہے مگرچیک پوسٹ پر تعینات اہلکار اپنے قانونی اختیارات استعمال کرنے کے بجائے مرعوب ہوتے اور قانون شکن مرد و خواتین کو گرفتار کرنے کے بجائے ویڈیو سازی میں مشغول ہو جاتے ہیں، ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بسا اوقات قانونی کارروائی، ان کے گلے پڑ جاتی ہے اور وہی قصور وار ٹھہرتے ہیں ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں معاملہ کسی بد زبان وبدتہذیب خاتون کا ہو ایک مخصوص منہ پھٹ اور مادر پدر آزاد طبقہ اخلاقیات کا علمبردار بن کر قانون شکن کی حمائت کرتا ہے۔ خلیل الرحمن قمر کے کیس میں اس طبقے کا مجموعی رویہ سامنے آ چکا ہے۔ اس کے باوجود پولیس کا فرض یہی ہے کہ وہ کسی چھوٹے بڑے کمزور و طاقتور کی پروا کئے بغیر اپنے اختیارات استعمال کرے اور اعلیٰ حکام ایسے اہلکاروں کے پشتیان نہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ کرنل صاحب کے ادارے نے نوٹس لیا اور اب دونوں میاں بیوی اپنے کئے کی سزا پائیں گے لیکن یہ ذمہ داری حکومت اور پولیس کی ہے کہ وہ کسی کو اپنے یا اپنے کسی عزیز رشتہ دار کے منصب کی دھونس جمانے دے نہ قانون شکنی کا موقع فراہم کرے۔ قصہ زمیں برسرزمین چکانے سے قانون کی عملداری ممکن ہے مگر جب حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کے خوگر ہوں تو معمولی پولیس اہلکاروں سے کیا گلہ اور کرنل صاحب کی اہلیہ سے کیسی شکایت؟ ۔ دوسروں پر دھونس جمانے کی عادت ایک بار پڑ جائے تو مشکل سے چھوٹتی ہے۔