Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jo Maza Chaju Ke Chaobare

Jo Maza Chaju Ke Chaobare

بیجنگ میں ہمیں ایک بڑی چینی کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملنے کا موقع ملا، گپ شپ کے دوران ہمارے شریک سفر صحافی حبیب اکرم نے عہدیدار سے پوچھا آپ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آپ کو کس چیز نے راغب کیا، صرف ایک اہم پوائنٹ؟ عہدیدار نے جواب دیا"پرکشش منافع" تفصیل ہم نے پوچھی نہ اس نے بتائی مگر جواب جامع تھا۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاری نے شور مچا رکھا ہے کہ مہنگی لیبر، گیس اور بجلی، ٹیکسوں کی نامعقول شرح اور سرکاری محکموں کے علاوہ با اختیار حکمرانوں کی " فرمائشوں " کی وجہ سے ہم لٹ گئے، کاروبار مشکل ہو گیا اور یہ ملک کاروبار کے لئے ہرگز موزوں نہیں، عمران خان حکومت میں آئے اور قومی احتساب بیورو نے سابقہ حکمرانوں کے چہیتے بیورو کریٹس کے علاوہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار میں شریک سرمایہ کاروں کے خلاف کارروائی شروع کی تو کاروباری برادری کو ایک اور بہانہ مل گیا کہ نیب کی موجودگی میں یہاں کاروبار ہو سکتا ہے نہ نئی سرمایہ کاری ممکن۔

گزشتہ روز 92 نیوز کے پروگرام "کراس ٹاک" میں ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے ملک کے تین بڑے صنعت کاروں میاں محمد منشا، حسین دائود اور محمد علی ٹبہ کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا احوال بیان کیا، بتایا کہ ملک کے تینوں بڑے سرمایہ کاروں نے آرمی چیف سے کھل کر کہا کہ اگر نیب کے ناخن نہ کترے گئے تو ہم مزید ایک پائی کی سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ آرمی چیف نے کیا جواب دیا یہ تو معلوم نہیں مگر نیب ترمیمی آرڈی ننس 2019ء کے اجرا سے یہ عقدہ کھل گیا کہ حکومت بلکہ ریاست کاروباری برادری کے سامنے سرنگوں ہو گئی اور ترمیمی آرڈی ننس کے بعد نیب کم از کم بیورو کریسی اور کاروباری برادری کو تنگ نہیں کرے گی، جوابا ملکی معیشت اور سرکاری فائلوں کا پہیہ چلے گا؟ عوامی مسائل تیزی سے حل اور روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے یا نہیں؟ حکومت پُر اُمید ہے، عوامی سطح پر مگر تذبذب برقرار ہے کہ بیورو کریسی اور کاروباری برادری نے ماضی میں کبھی اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر عوام دوست پالیسیاں تشکیل دینے میں کسی حکومت کی مدد کی ہے نہ مستقبل میں اُمید نظر آتی ہے۔

جس ملک میں چینی سرمایہ کاروں کو منافع کی شرح بلند نظر آتی ہے، جہاں چند برسوں میں ککھ پتی، لکھ پتی بنے، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں کے درجنوں نہیں سینکڑوں خاندان معمولی کاروبار شروع کر کے بڑی بڑی ایمپائرز کھڑی کرنے میں کامیاب رہے، کبھی محکمہ کسٹمز، ایف بی آر وغیرہ انہیں ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور کسٹم، کی چوری سے باز رکھ سکے نہ دیگر سرکاری ادارے ملک اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی پر آمادہ کر سکے، وہاں نیب کے خوف سے سرمایہ کاری کا رکنا اور کاروبار کا ٹھپ ہونا مذاق لگتا ہے، بیورو کریسی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہے۔ اعلیٰ بیورو کریسی کو قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر وہ سہولتیں اورمراعات فراہم کرتی ہے جو اس کی اپنی قسمت میں شائد لکھی ہی نہیں گئیں، پرکشش تنخواہیں مہنگے پر تعیش بنگلے، گاڑیاں، اندرون و بیرون ملک علاج معالجے اور بچوں کے لئے معیاری تعلیم کی سہولتیں اور سیر سپاٹے کے مواقع، سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور رشوت و بدعنوانی کی بھرمار مستزاد۔ جواباً مگر عوام کو کیا ملا؟ غربت، افلاس، بے روزگاری، محرومی، بے بسی اور سرکاری دفتروں میں ٹھوکریں۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمہ، معیاری تعلیم و طبی سہولتوں کی فراہمی اور میرٹ کی حوصلہ افزائی کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آئی، اگر کاروباری برادری اور بیورو کریسی اپنے طبقاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچتی، عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیحات میں سرفہرست رکھتی اور کرپشن، بے ضابطگی، لوٹ مار اور سرخ فیتے کی لعنت سے نجات حاصل کر کے ملک کو ترقی اور عوام کو خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کا عزم کر لیتی تو ڈیڑھ سال میں بہت سے سنگ میل عبور کئے جا سکتے تھے مگر ہوا کیا؟ ۔ کاروباری برادری جانتی ہے کہ جن سرمایہ کاروں نے دہشت گردی کے عفریت سے گھبرا کر متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا رخ کیا، وہاں ان سے کیا سلوک ہوا۔ دبئی میں تو وہ اصل زر سے بھی محروم ہو گئے۔ بنگلہ دیش ہو یا کوئی دوسرا ملک وہاں آسانی سے ٹیکس چوری ہو سکتی ہے نہ بنکوں سے قرضے لے کر معاف کرانے کا رواج ہے نہ اوور انوائسنگ اور انڈرانوائسنگ کی سہولت اور نہ ذرا ذرا سی بات پر ہڑتالوں کی عیاشی۔ کیا ترکی، ملائشیا، بنگلہ دیش اورکسی عرب ریاست کے حکمران کے روبرو آئندہ سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکی دے کر کوئی شخص قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ من مانی قیمتیں اور غیر معیاری مصنوعات فروخت کرنے پر اصرار صرف پاکستان میں ممکن ہے جبکہ مال حرام کو ٹی ٹی کے ذریعے حلال کرنے کا رواج بھی مملکت خداداد میں ہے محکمہ کسٹمز اور ایف بی آر کاروباری برادری سے ملی بھگت کے عادی ہیں اور محکمہ اینٹی کرپشن بیورو کریسی کا معاون، لہٰذا انہیں ان محکموں سے معاملہ فہمی میں اعتراض نہیں، جونہی ان محکموں کی کارکردگی بہتر ہوئی، رشوت، بدعنوانی، بے ضابطگی کے روزن بند ہوئے اور ان محکموں نے بھی ملکی قوانین اور اپنے چارٹر کے مطابق کاروباری برادری و بیورو کریسی سے تعرض کیا، نیب کی طرح ان محکموں کے اختیارات محدود کرنے کے لئے شور مچے گا۔ مطالبہ یہ ہے کہ کوئی ادارہ اثاثوں کے بارے میں پوچھے کہ یہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ کیوں ہیں نہ کاروباری برادری سے سوال کیا جائے کہ پچھلے سال چین کے ساتھ کاروبار بارہ ارب ڈالر کا ہوا مگر یہاں صرف چھ ارب ڈالر کی رقم موصول ہوئی، باقی چھ ارب ڈالر بیجنگ سے ہی کس محفوظ جنت میں منتقل ہو گئے، یہ چھ ارب ڈالر زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ کسی بیورو کریٹ سے یہ پوچھنا منع ہے کہ غریب ماں باپ کے صاحبزادے نے دوران ملازمت آخر اربوں روپے کے پلازے کیسے تعمیر کر لئے؟ ۔ شہر شہر، گائوں گائوں، سکنی اور زرعی جائیدادیں کیسے بنا لیں؟ اور بیسویں گریڈ کے افسر کا صوبے کے چیف سیکرٹری سے آٹھ دس گنا زیادہ تنخواہ لینے کا جواز کیا تھا؟ نیب اگر یہ سوال کرے گی تو معیشت کا پہیہ رک جائے گا اور بیورو کریسی گو سلو، کی پالیسی پر چل کر کاروبار ریاست کو ٹھپ کر دے گی۔ معیشت کا پہیہ چلاتے، بیورو کریسی کا تعاون حاصل کرنے کے لئے عمران خان نے مونچھ نیچی کی، نیب قوانین نرم کر دیے، دیکھتے ہیں جوابی خیر سگالی کے طور پر حکومت اور قوم کے پلّے کیا پڑتا ہے۔

عرصہ ہوا ایک صنعت کار دوست سے میں نے پوچھا اگر کاروبار میں واقعی منداہے، بجلی، گیس، لیبر مہنگی، ٹیکس ناقابل برداشت اور مختلف سرکاری محکموں کے رشوت خور افسروں کی طرف سے عزت نفس کے منافی اقدامات کے باعث حالات حوصلہ شکن ہیں تو پھر آپ کے بیرونی ملک سیر سپاٹے، گاڑیوں کے فلیٹ میں اضافے، بچوں کی مہنگی تعلیم اور ہر سال کاروبار میں وسعت کا راز کیا ہے جبکہ آپ مختلف سیاسی جماعتوں کو چندے کے نام پر بھتہ بھی فراوانی سے ادا کرتے ہیں ؟ آنکھ مار کر بولے، ہم مسلسل دبائو نہ ڈالیں، مندے کا رونا نہ روئیں اور لٹ گئے، مر گئے کا شور نہ مچائیں تو حکومت پورا ٹیکس وصول کرنے، منافع کی شرح کو معقول سطح پر لانے کے علاوہ معیشت کو دستاویزی بنانے پر تُل جائے گی اور لیبر بھی بین الاقوامی معیار کی سہولتیں طلب کرے گی۔ جب ریاست کمزور ہے، حکومت خواہ کسی کی ہو، مافیاز کے سامنے بے بس اور ٹیکس کے بجائے رشوت سے گلشن کا کاروبار خوش اسلوبی سے چل رہا ہے تو ہم خاموش رہ کر اپنے لئے قبر کیوں کھودیں، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان سے بہتر سرمایہ کاری کے لئے کوئی ملک نہیں، جو مزہ چھجو کے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے، مگر بے تحاشہ منافع، ٹیکس چوری، قرض خوری اور حساب کتاب کے بجائے رشوت دینے کی جو لت ہمیں پڑ گئی ہے اس سے چھٹکارا مشکل ہے۔ جب تک ریاست اور حکومت کمزورہے مافیاز مضبوط ہیں گلشن کا کاروبار ایسے ہی چلے گا ع

تم بھی چلے چلو، جہاں تک چلی چلے