تنقید آسان ہے اور الزام تراشی ہمارا قومی مشغلہ۔ آزمائش کی گھڑی ہے اور قوم کو مقابلے پر تیار کرنے کی ضرورت۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران مگراب بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دیرینہ بیماری میں مبتلا۔ بیان بازی جاری ہے اور وبائی مرض پر سیاسی کاروبار چل رہا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا حالانکہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں چند ہفتے کے لئے سیاسی سرگرمیاں معطل کر کے عوام کی رہنمائی، آگہی اور عملی امداد پر توجہ دیں۔ کرونا وائرس نے حملہ پوری انسانی برادری پر کیا ہے۔ کرونا نے گلوبل ویلیج کو حقیقت کا روپ رنگ دیا، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تمیز و تفریق کے بغیر سب کو لپیٹ میں لیا اور وبائی مرض سے نبرد آزماانسانی برادری وجود میں آئی، یہ معاملے کا ایک پہلو ہے مگر دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سب کو اپنی پڑی ہے اور گلوبل ویلیج کا راگ الاپنے والے بھی اپنی سرحدیں بند کر کے "تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو" گنگنا رہے ہیں، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، کینیڈا سب اپنے ہی ہم رنگ، ہم زبان اور ہم مذہب انسانوں کو باری باری اندرون ملک داخلے سے روک رہے ہیں۔ یہی حال مسلم ممالک کاہے۔ امریکہ افغانستان اور ایران کو بھول گیا ہے، برطانیہ میں بریگزٹ کا ذکر نہیں ہوتا اور ایران "خود انحصاری" و "شیطان بزرگ" کے نعرے بھول کر امریکہ کی گماشتہ عالمی مالیاتی تنظیم سے پانچ ارب ڈالر قرض کا طلب گار ہے۔
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی اختلافات اب بھی قومی ابتلا پر غالب ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے کہیں وفاقی حکومت ہدف تنقید ہے تو کہیں ایران سے زائرین کی آمد موضوع بحث اور کہیں میاں شہباز شریف کو وطن واپس لا کر سردار عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ بنانے کی شدیدخواہش۔ عمران خان نے قوم سے خطاب کیا تو دانستہ یا نادانستہ سندھ حکومت کا ذکر گول کر گئے اور عمران خان نے قوم کو حوصلہ دیا، "گھبرانا نہیں " کی تلقین کی تو اپوزیشن طنز و استہزا پر اُتر آئی۔ گویا وزیر اعظم سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے خطاب میں قوم کو خوب ڈرائیں، عوام کو بتائیں کہ ملک کا کوئی والی وارث ہے نہ ان کا غمگسار۔ میڈیا کا ایک حصہ بھی حکومت کے لتے لینے اور قوم کا حوصلہ پست کرنے میں پیش پیش ہے حالانکہ حساب برابر کرنے کے لئے اور بہت سے مواقع اور موضوعات موجود ہیں۔ اس مشکل وقت میں اگر جذبہ حب الوطنی اور قوم کا مجموعی مفاد غالب رہے تو مناسب ہے۔ عمران خان اگر دل بڑا کریں سیاسی و مذہبی قیادت کا ایک اجلاس بلا کر سب کو شریک مشورہ کریں تو اجتماعیت کا احساس ہو گا۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز نے پہل کی ہے، عمران خان مثبت ردعمل دیں۔
چین میں کرونا کا زور ٹوٹ گیا ہے، اچھی خبریں آنے لگی ہیں، کرونا وائرس کے مریضوں کے لئے بنائے گئے خصوصی ہسپتال بند ہو رہے ہیں۔ ایک سو تین سالہ معمر خاتون کی کرونا سے صحت یابی کا مطلب ہے کہ مرض اس قدر مہلک اور لاعلاج نہیں جس قدر سمجھا جا رہا ہے۔ سائنس دان ویکسین تیار کرنے میں مگن ہیں اور احتیاطی تدابیر کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستانی قوم تو ویسے بھی سخت جان ہے۔ دہشت گردی اور ڈینگی کو شکست دے کر اپنی سخت جانی کا لوہا منوا چکی ہے، چین نے ثابت کیا ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کسی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ حکومت منتخب ہے یا غیر منتخب، آمرانہ ہے یا جمہوری۔ سعودی عرب سے آمدہ اطلاعات کے مطابق چین کی طرح وہاں کسی کو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کی جرأت ہوئی نہ اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی برتنے کی ہمت، سعودی عرب کے بعض شہروں میں تو شاپنگ مالز پر اشیائے ضرورت مزید کم نرخوں پر دستیاب ہیں جبکہ کئی جمہوری ممالک میں ذخیرہ اندوزی کی شکائت عام ہیں اور اشیائے خورو نوش کی قلت معمول، چین نے اپنے آپ کو عظیم قوم کے طور پر منوایا ہے جو بڑی سے بڑی قدرتی آفت کے موقع پر ہراساں و پریشان ہوتی ہے نہ پست ہمتی کا شکار۔ کاش پاکستانی بھی آزمائش کی اس گھڑی میں سرخرو ہوں۔
روحانی اور علم الاعداد وافلاک کے ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ انشاء اللہ 31مارچ کے بعد کرونا وبا کا زور ٹوٹنا شروع ہو گا اور 15اپریل کے بعد قوم سکھ کا سانس لے گی۔ اگلے ہفتہ کے دوران البتہ قوم اور عالمی برادری مزید آزمائش اور ابتلا سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ایسی آزمائش جو اقوام پر کبھی کبھی آتی ہے، صدیوں بعد۔ یہ اقوام عالم کے لئے بگڑنے، بننے اور سنورنے کا سال ہے۔ ہمہ گیر سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا سال۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس آفت سے نمٹنے کے لئے حکومت کے اقدامات اپنی جگہ لیکن بحیثیت قوم ہمیں بھی اپنا فرض خوش دلی اور خوش اسلوبی سے ادا کرنا چاہیے۔ خود حفاظتی کے اُصولوں کے تحت بے جا آمدورفت، میل ملاپ اور ہجوم سے گریز کریں، زیادہ تر وقت گھر پر گزاریں اپنے اردگرد موجود مجبوروں، ضرورت مندوں، دیہاڑی دار مزدوروں کا خیال رکھیں، زکوٰۃ، صدقہ اور عطیہ کے لئے رمضان المبارک کا انتظار مناسب نہیں جو احباب عمرہ کی ادائیگی نہیں کر پائے وہ اگر یہی رقم انتہائی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں تو انشاء اللہ زیادہ اجر و ثواب کے حقدار ہوں گے، کسی انسان کی دلگیری و دستگیری حج اکبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سنہری موقع فراہم کیا ہے تو فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔ فلاحی تنظیم اخوت نے کرونا فنڈ قائم کیا ہے جو لوگ مختلف پابندیوں کی بنا پر ذریعہ روزگار کھو بیٹھے، انہیں راشن فراہم کرنے کے لئے اخوت کا فنڈ غنیمت ہے، دل کھول کر عطیات، صدقات اور زکوٰۃ جمع کرائیں۔ مت بھولیں کہ اگر ہمارے اردگرد کوئی فرد یا خاندان بھوکا سویا یا علاج معالجے سے محروم رہا تو روز قیامت کڑی باز پرس ہو گی اور حضور سرور کائنات ﷺ کے روبرو شرمندگی۔ بھلاکون سا کلمہ گو حضورؐ کے روبرو شرمندہ ہونا چاہتا ہے؟ ۔ محکمہ صحت دیگر ممالک کی طرح حاضر سروس ڈاکٹروں کے علاوہ ریٹائرڈ طبی ماہرین سے مدد لے اور ممکن ہو تو جو بچے، بچیاں ہائوس جاب مکمل کر چکے یا آخری مراحل میں ہیں انہیں محکمے میں بھرتی کر کے ڈیوٹی سونپی جائے، اس موقع پر رولز ریلیکس کرنا قومی ضرورت ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ ویسے بھی ہر صوبے میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں، انہیں پُر کر کے طبی سہولتوں کے فقدان کی عوامی شکائت ختم کی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت معلوم نہیں کس مصلحت کی بنا پر ابھی تک بعض اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ مذہبی اجتماعات پر پابندی کے بعد جمعہ کے اجتماعات کے سلسلے میں بھی ہمیں دیگر مسلم ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے، ایران کی غلطی دہرانا دانش مندی نہیں۔ جب بارش کی بنا پر رسول خدا ﷺ نے صحابہ کرام ؓکو گھروں میں نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی تو ایسی وبا سے بچنے کے لئے جو ایک مریض کی موجودگی میں سینکڑوں صحت مند انسانوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہے، رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور سنت پر عمل درآمد سے گریز اور تامّل کا کیا جواز؟ ۔ گھبرانا بالکل نہیں مگر بے احتیاطی اور لاپروائی؟ حماقت سو فیصد حماقت۔