Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khatra Tal Gaya?

Khatra Tal Gaya?

خطرہ بس ٹلا ہے۔ بھارتی ایئرچیف بریندر سنگھ دھنوا، بالا کوٹ حملے کو شروعات قرار دے رہے ہیں۔ کتنی دیر کے لئے ٹلا؟ یہ اہم سوال ہے، اسرائیل نے 1981ء میں سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے عراق کا ایٹمی پروگرام تباہ کیا تو بھارت کو بھی یہ شوق چرایا۔ اسرائیل نے تعاون کی پیشکش کی اور یہ تیار ہو گیا۔ آئی ایس آئی نے جس پر ہمارے بعض سیاستدان اور ان کے نمکخوار دانشور، بھاڑے کے ٹٹو اہل قلم و کیمرہ صبح دوپہر شام تبرا کرتے ہیں بھارتی، اسرائیل منصوبے کا سراغ لگایا ہم نے امریکہ، بھارت، اسرائیل کے مشترکہ سرپرستوں، دوستوں کے ذریعے پیغام دیا کہ ایسی کسی مذموم حرکت کے جواب میں ٹرامبے ہماری پہنچ سے دور ہے نہ تل ابیب زیادہ فاصلے پر۔ یہ کوشش 1986ء اور 1998ء میں ہوئی، 1998ء میں تو اسرائیلی طیارے سرینگر پہنچ گئے تھے مگر باز رہے۔ تب ہمارا میزائل پروگرام اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا نہ ہم سمارٹ ٹیکنیکل ہتھیاروں سے لیس۔ پاکستان کے تمام دشمنوں کے حلق کا کانٹا اس کی عسکری قوت ہے اور ایٹمی صلاحیت۔ پاکستان کی تجربہ کار، ذہین، چاک و چوبند اور جدید جنگی تکنیک سے بہرہ ور فوج و انٹیلی جنس کو ناکارہ اور ایٹمی پروگرام کو مفلوج کئے بغیر عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن کے خلاف فوجی جارحیت کامیاب ہو سکتی ہے نہ نسلی، لسانی، مسلکی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کامران۔ 1990ء کے عشرے سے پاکستان میں مسلکی، نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات اور منافرت کی آگ بھڑکانے اور سوویت یونین کی طرح حصوں بخروں میں تقسیم کرنے کی شعوری کوششیں جاری ہیں اور ففتھ جنریشن وار میں اسلام، پاکستان، ایٹمی پروگرام اور فوج کے جملہ مخالفین ایک صفحے پر ہیں، ملحدو مُلّا کی تخصیص نہیں۔ عراق، لیبیا شام سے ہم نے کوئی سبق سیکھا نہ سوویت یونین کے انجام سے، جو دنیا بھر میں قومیتوں، زبانوں، نسلوں کی تفریق کے بیج بوتے خود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ آج بھی پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کے وظیفہ خوار کراچی، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں کہیں بحیلہ مذہب اور کہیں بنام وطن تعصبات کی آبیاری کر رہے ہیں۔ قوم پرستی کا زہرگھولنے میں مشغول، اور محمود اچکزئی، منظور پشتین اور ان جیسوں کی قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے حوصلہ افزائی جاری، وجہ؟ جو بات ہمارے قومی لیڈر خود کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے یہ ڈھٹائی سے کر لیتے ہیں۔ فوج اور آئی ایس آئی کو گالی دینے اور پاکستان کو مطعون کرنے میں پیش پیش یہ عناصر ان دنوں منظر سے یوں غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ جارحیت پر تلے بھارت کی مذمت نہ خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا کرنے والے نریندر مودی کو معقولیت کا مشورہ۔ 27فروری کو بھارت اور اسرائیل پاکستان کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ اس کی دیرینہ خواہش ہے، ہم نے سخت پیغام دے کر بازرکھا۔ بڑی کامیابی ہے، 27فروری کی صبح ہم نے بھارتی غرور کو خاک میں ملایا، 1971ء سے روائتی ہتھیاروں میں اس کی برتری کی متھ ختم اور عسکری ساکھ تباہ کی یہ پاکستان کا اعزاز ہے سجدہ شکر بجا لانا واجب۔ عمران خان کی دبنگ قیادت میں بری، فضائی، بحری فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دشمنوں کے علاوہ پاکستان میں اس کے نمکخواروں کو دھول چٹائی، جو برسوں سےنوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ زہر انڈیل رہے تھے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر منفی انداز میں اثر اندازہو رہی ہے جبکہ بھارت کی سیاسی معاملات سے لاتعلق، یکسو فوج قوت صلاحیت میں برترو بالا ہے۔ قوم کو پتہ یہ چل رہا ہے کہ حکومت اور پاک فوج میں باہم تال میل مثالی ہو اور قومی قیادت دلیر، دور اندیش اور جرأت مند ہو تو تعداد و مقدار پر ایمان، تربیت، جذبے اور حوصلے کو ہمیشہ برتری حاصل ہوتی ہے۔ او آئی سی وزراء خارجہ اجلاس میں سشما سوراج کی شرکت پر بعض مہربانوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور حکومت کی سفارتی حکمت عملی کے خوب لتے لئے۔ مگر نتیجہ؟ او آئی سی میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور مظالم کی مذمت پر مبنی قرار داد منظور ہوئی اور سشما سوراج کی شرکت رائیگاں گئی۔ چند ماہ پہلے تک اپنی عسکری عظمت، سفارتی بالادستی اوراقتصادی و معاشی برتری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے نریندر مودی کو اندرون ملک تلخ و ترش، ندامت آمیز اور پریشان کن سوالات کا سامنا ہے۔ قوم منقسم ہے اور میڈیا باہم دست و گریباں جبکہ پاکستان کو بھارتی جارحیت نے متحد کر دیا ہے، اپوزیشن بھی حکومت کی سفارتی پیش قدمی اور فوج کی عسکری کامیابیوں کے گن گا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کی طرف سے میزائل حملے کی منصوبہ بندی ناکام رہی، ہمارے سخت اور دو ٹوک ردعمل نے دشمنوں کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا مگر یہ فرض کر لینا سادہ لوحی بلکہ حماقت ہو گی کہ خطرہ مستقلاًٹل گیا۔ آخری فتح ہم نے حاصل کر لی اور راوی اب چین لکھے گا۔ قدرت نے ہمیں مسئلہ کشمیر اجاگر، بھارت کا انتہا پسند، تنگ نظر اور اسلام و پاکستان دشمن چہرہ بے نقاب کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ سیکولر ازم نے بھارت کا کچھ بگاڑا، نہ جمہوریت سے اس نے کچھ سیکھا۔ چھوٹی ذہنیت کی یہ بڑی جمہوریت علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے اور اپنی اقلیتوں کی دشمن۔ جو عناصر بات بات پر بھارت کی مثال دے کر پاکستان میں سیکولرازم کی وکالت کرتے تھے، واہگہ بارڈر پر موم بتیاں لے کر پہنچ جاتے اور شہیدوں کے خون سے کھینچی گئی لکیر کو انگریز کی سازش قرار دے کر مٹانے کی خواہش کرتے، اب منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ڈھیٹ مگر اتنے زیادہ ہیں کہ بدترین جارحیت پربھارت کی مذمت نہیں کرتے، موقع ملے تو پاکستانی قوم کو جنگ کے خطرات سے ڈرا کر ہمیں مونچھ نیچی کرنے کا مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ قدرت کے کھیل نرالے ہیں امریکہ اور بھارت نے برس ہا برس تک پاکستان میں این جی او مافیا کی مالی و اخلاقی سرپرستی کی۔ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کو نوازا اور یہ جانا کہ سرمایہ کاری ثمر آور ہے جوں ہی بھارت پاکستان کو سبق سکھانے نکلے گا، کمیں گاہوں میں چھپے یہ ففتھ کالمسٹ پروپیگنڈے کے محاذ پر دفاع وطن پر کمر بستہ عمران خان کی حکومت، پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناک میں دم کر دیں گے مگر اے بسا آرزد کہ خاک شدہ۔ سب گنگ ہیں یاقومی پالیسی کی تائید پر مجبور۔ یہ آزمائش کی گھڑی ہے اس موقع پر ہم پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے وعدہ پر قائم رہتے ہوئے اس ایجنڈے کی تکمیل کریں توحکومت اور پاک فوج کی سعی و تدبیر میں برکت ہو گی اور نصرت الٰہی شامل حال ؎فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کواُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھیہر مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور اسلام و نظریہ پاکستان بنائے اتحاد ثابت ہوئے۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل جو عناصر اسرائیل پر سفارتی تعلقات قائم کرنے کی وکالت کر رہے تھے، انہیں اب اپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے اور خدا توفیق دے تو ندامت محسوس کریں۔ اقبال و قائد نے قیام پاکستان سے قبل اسرائیل اور بھارت، برہمنیت و صیہونیت کے گٹھ جوڑ کو بھانپ لیا ہم آج بھی بے خبر ہیں۔ جو لوگ سوال کیا کرتے تھے کہ اسرائیل سے پاکستان کی کیا دشمنی ہے؟ اب نیتن یاہو سے پوچھیں "انکل آپ ہمارے دشمن کیوں ہیں؟ " بھارت سے صلح ہو سکتی ہے دوستی اور بھائی چارہ کبھی نہیں۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ نیو کلیر پاکستان امریکہ کو قبول ہے نہ اس کے ناجائز بچے اسرائیل کو اور نہ نریندر مودی کے بھارت کو۔ اب بھی کوئی نہ سمجھ پایا تو کبھی نہیں۔