Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khof Khuda Na Khayal Roz Jaza

Khof Khuda Na Khayal Roz Jaza

عمران خان کو لٹیروں کا دفاع کرنے والوں پر حیرت ہے اور مجھے وزیراعظم کی سادگی پر۔ انہیں آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ پنجابی محاورے کے مطابق بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں اور فارسی میں کہتے ہیں ؎کندہم جنس باہم جنس پروازکبوتر، با کبوتر، باز، با بازاحسان صادق کی سربراہی میں جے آئی ٹی کی ریاضت قابل قدر ہے۔ چند سال پیشتر ذوالفقار مرزا نے جب رمضان المبارک میں قرآن مجید سر پر رکھ کر آصف علی زرداری کی لوٹ مار، قانون شکنی اور مافیا کے انداز میں انداز کار کا پردہ چاک کیا، انور مجید کو زرداری کا فرنٹ مین بتایا تو اسے ایک ناراض سیاسی کارکن کا گلہ شکوہ سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ شاہد حیات اور نجف مرزا نے توجہ دلائی تو ریاست اور ریاستی اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی، پانامہ سکینڈل کیس کی طویل سماعت کے بعد جسٹس آصف سعید نے اپنے فیصلے میں گاڈ فادر کی اصطلاح استعمال کی تو بہت سوں نے ناک بھوں چڑھائی، کسی نے سنجیدگی سے نہ سوچا کہ جن لوگوں کو عوام، اداروں اور مصنوعی جمہوریت کے علمبرداروں نے راج سنگھاسن پر بٹھایا، قوم کا مستقبل سونپا اور ملک کی تقدیر سنوارنے کی توقع وابستہ کی وہ اتنے ندیدے، شہدے اور سنگدل ہیں کہ انہیں اقتدار و اختیار ملا تو اپنی ہوس زر پر قابو پا سکے نہ اپنے خاندان اور بچوں سے آگے سوچ سکے۔ دلوں میں خوف خدا رہا، نہ آنکھ میں شرم و حیا، اور نہ خیال روز جزا۔ یہ دولت کی ہوس نہیں نرا پاگل پن اور موذی مرض ہے کہ اربوں روپے کے بیرون ملک اکائونٹس و اثاثے، درجنوں ملیں کاروبار، پورے ملک کا اقتدار و اختیار، زندہ باد کے نعرے اور سیاسی مقبولیت بھی انسان کو دولت اکٹھی کرنے کے جنون سے نجات نہ دلا سکیں اور وہ قانون، عزت، شہرت اور عوامی توقعات کی پروا کئے بغیر، آخرت میں جوابدہی کے احساس سے عاری ہل من مزید کی صدا لگاتا ذلت کی پاتال میں اُتر جائے۔ شریف خاندان، زرداری خاندان اور بھٹو خاندان پر قدرت مہربان رہی۔ اہلیت و صلاحیت سے کہیں زیادہ خدا نے نوازا مگر بل گیٹس، وارن بفٹ، لکشمی متل سے مسابقت کے شوق نے انہیں استسقاکا مریض بنا دیا۔ ایلوپیتھی کا تو علم نہیں مگر طب یونانی میں استسقا کے مرض کا سراغ ملتا ہے جو کسی کو لاحق ہو تو وہ پیاس کی شدت سے تڑپتا، گیلنوں کے حساب سے پانی پیتا اور العطش العطش پکارتا ہے مگر اس کی پیاس بجھتی نہ پانی پینے کی خواہش کم ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ پانی پانی پکارتا وہ قبر کا چارہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ان چارہ سازوں کو بھی شاید یہی مرض لاحق رہا۔ یہ پیسہ پیسہ پکارتے احتساب کا چارہ بن رہے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان پر مہر تصدیق ثبت ہورہی ہے کہ " اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے"۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ "دولت مٹی کی طرح ہے، اسے پائوں کے نیچے رہنا چاہیے۔ اگر سر پر رکھو گے تو یہ قبر بن جائے گی۔" اور ظاہر ہے کہ قبر زندہ انسانوں کی نہیں ہوتی۔ زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ گروپ کی تکون نے بیرون ملک سرمائے کی غیرقانونی منتقلی کے لیے جس طرح سرکاری اختیارات، وسائل اور مشینری کو استعمال کیا وہ باعث تعجب نہیں شرمناک ضرور ہے کہ یہ کام سرکاری اداروں کی مدد سے ہورہا تھا اور جمہوریت کی آڑ میں۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں شریف خاندان کے کاروبار کے حوالے سے بھی ایسے انکشافات ہوئے ہیں مگر قابل داد ہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنما اور کارکن جو ابھی تک اس مکروہ طریقہ واردات کو جمہوریت کا حسن اور دونوں خاندانوں کی سول بالادستی کے لیے لافانی خدمات ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ شریف و زرداری خاندان کے ازلی وفاداروں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی سیاست، شہرت، دولت اور جاہ و منصب کو انہی کی عطا اور عنایت خسروانہ سمجھتے ہیں۔ قبائلی انداز فکر ان پر حاوی ہے جس میں وفاداری، عقیدے، نظریے اور ریاست سے نہیں صرف اور صرف قبیلے اور سردار سے واجب ہے۔ دیانت، امانت، راست بازی و راست فکری اور رزق حلال ان کے نزدیک ثانوی اور اضافی چیزیں ہیں۔ رضا ربانی کو فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ ڈالتے ہوئے رونا آیا، زرداری کی لوٹ مار پر کبھی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی با اصول اتنے ہیں کہ آئین، قانون اور سول بالادستی کو تج کر فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیدیا۔ سینٹ کی نشست نہ چھوڑی یہی حال آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق و عوامی مفادات کے علمبردار دیگر رہنمائوں بالخصوص قانونی پیشے سے وابستہ افراد کا ہے جو پارلیمانی اداروں کی رکنیت اور بھاری فیسوں کی خاطر پیشہ ورانہ اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے اور مافیاز کی عدالتوں، پارلیمنٹ اور میڈیا میں وکالت کرتے ہیں۔ پڑھا لکھا شخص جے آئی ٹی رپورٹ اور احتساب عدالت کا فیصلہ پڑھ کر بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس قوم کے ساتھ برسوں سے کیا واردات ہو رہی ہے۔ خوف خدا اور شرم و حیا سے عاری کوئی شخص ہی جرم اور سیاست کے ملاپ سے انکار کر سکتا ہے اور اومنی گروپ، بحریہ ٹائون اور زرداری گروپ کی ملی بھگت سے پہنچنے والے نقصان کی وکالت کریگا۔ فلیگ شپ کیس میں میاں نواز شریف کی بریت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے جوڑ کر اعتراض اٹھانے والے بھی اتنے نادان اور ان پڑھ نہیں ہیں کہ کیپٹل ایف زیڈ ای اور فلیگ شپ میں تفریق نہ کر سکیں یا ایک جعلی کمپنی کی چیئرمین شپ، تنخواہ اور اقامے کو چھپانے کے جرم میں دائمی نااہلیت کو فلیگ شپ کیس میں بریت سے ملا کر واقعی یہ سمجھیں کہ احتساب کورٹ کے جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تنسیخ کی۔ جو فن کاربرسوں سے کسی نہ کسی طرح فیضیاب ہوئے اور ایک بار پھر لقمہ تر کی اُمید رکھتے ہیں وہ اب بھی سیاہ کو سفید نہ کہیں ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا، پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُمانہ کہیں، عدل و احتساب کو انتقام نہ لکھیں اور ظالم کومظلوم نہ بولیں تو حق نمک کیسے ادا ہو۔ مُنہ کھائے، آنکھ شرمائے۔ اربوں کی لوٹ مار کا پردہ فاش ہونے اور اہل حکم کے سر اوپر بجلی کڑ کڑ کڑکنے پر مظلوم و محکوم تو لاریب پریشان، پشیمان اور حیران و خورسندہیں لیکن جن کی برسوں تک دیہاڑیاں لگی رہیں، جو چاپلوسی کی صلاحیتیں بروئے کار لا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ان کے مُنہ میں پانی آ رہا ہے کہ سونے کی ان وادیوں سے وہ اتنا کچھ حاصل نہ کر سکے جس کے وہ حقدار تھے، ایک بار پھر لوٹ مار کا یہ بازار گرم ہو تو وہ پہلے سے زیادہ بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ دو خاندانوں کوبار بار محروم اقتدار ہونے اور ریاست کی کمزوری، نظام کے دیوالیہ پن اور بیرونی اثرورسوخ کی بنا پر تخت و تاج مل جانے کے سبب اُمید کا دیا روشن ہے اور اس نے دل کا ساتھ نہیں چھوڑا، ہوس لقمہ تر اب بھی جے آئی ٹی رپورٹ اور عدالتی فیصلے میں کیڑے نکالنے پر مجبور کرتی ہے۔ عمران خان کو حیران ہونے کے بجائے لاہور، کراچی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، حیدر آباد، پشاور اور ملتان کے صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی دلجوئی کرنی چاہیے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ ہم اختیار اور سرمائے کے اکٹوپس کی طرح جکڑے مافیاکی بیخ کنی اور صنعت و تجارت اور مالیاتی اداروں کو ڈان اور گاڈ فادر کی گرفت سے آزاد کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ لوگ اب بے خوف و خطر سرمایہ مارکیٹ میں لائیں، کاروبار پھیلائیں، جائز منافع کمائیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں کوئی رکاوٹ ڈالے گا نہ آپ کی جان، مال، آل اولاد کے لئے خطرہ بنے گا۔ احتساب سے آپ ڈریں نہیں اور مافیاز کا آپ حصہ نہ بنیں کہ یہ اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ سرمایہ کاری، صنعت و تجارت کی وجہ سے نہیں کہ لوٹ مار ان کا کاروبار تھا، سیاست جزوقتی مشغلہ اور جمہوریت صرف اور صرف ڈکیتی واقربا پروری کی ڈھال۔ یقین نہ آئے تو جے آئی ٹی کی رپورٹ اور احتساب عدالت کا فیصلہ پڑھ لیں۔