اللہ تعالیٰ عمران خان کے حال پر رحم فرمائے، سولہ ماہ بعد بھی وہ وسیم اکرم پلس کے قصیدہ خواں ہیں، تحریک انصاف کے کارکن، لیڈر اور ارکان اسمبلی جس سے نالاں ہیں اور عوام بیزار۔ پولیس و انتظامیہ میں تین بار وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ملک کے سب سے بڑے، دنیا کے کئی ممالک سے رقبے اور آبادی میں بڑے صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں، سیاسی اور انتظامی ابتری سے وفاقی حکومت متاثر ہو رہی ہے اور پنجاب میں بُری حکمرانی سے تبدیلی کا نعرہ مذاق بن گیا ہے مگر عمران خان بضد ہیں کہ جب تک میں وزیر اعظم ہوں، سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے، گویا اب لوگ سردار عثمان بزدار کے بجائے عمران کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔
بذات خود سردار عثمان بزدار بھلے آدمی ہیں ابھی تک کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل ان کی ذات سے منسوب نہیں اور اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق وہ ڈیرہ غازی خاں، تونسہ شریف اور جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں مگر میاں شہباز شریف کے بعد پنجاب کو جس طرح کے متحرک و فعال، منصوبہ ساز، کائیاں وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے بزدار وہ ضرورت پوری نہیں کرتے، سولہ ماہ میں انہوں نے کوشش بھی نہیں کی، آٹے کا بحران تازہ ترین ثبوت ہے، پورے صوبے میں آٹے کی قیمت دوگنی ہو گئی تو وزیر اعلیٰ کو پتہ چلااور انہوں نے محکمہ خوراک کی خبر لی، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب محکمہ خوراک کے افسران نے ایک ماہ قبل جی ہاں ایک ماہ قبل آٹے کی کمی اور قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا فلور ملز کا کوٹہ بڑھانے کی تجویز پیش کی تو کون تھا جس نے کان نہ دھرے، یہ نہ سوچا کہ گوشت، دودھ، دہی چینی، سبزیوں دالوں اور گھی کی مہنگائی سے تنگ عوام کو اگر آٹا نہ ملا یا دوگنی قیمتوں پر ملنے لگا تو گالیاں کسے پڑیں گی؟ اور نایابی و مہنگائی کاجواز کیا پیش کریں گے؟ یہ صرف نااہلی و نالائقی نہیں، ناعاقبت اندیشی ہے۔ خان صاحب کی طرح عثمان بزدار بھی خوش قسمت ہیں کہ پنجاب کے عوام نے صبرو شکر کی عادت اپنا لی ہے، مصائب، مشکلات سہنے کے اس قدر عادی ہو گئے کہ گلی محلے سے بچے اغوا ہوں، ہسپتال اور ڈسپنسری میں دوائی ناپید، پولیس اہلکار اور دیگر سرکاری کارندے ان کی بوٹیاں نوچ کھائیں، بے روزگاری اور مہنگائی کے سبب نوبت فاقہ کشی و خودکشی تک پہنچے، آٹے کی قیمت میں اچانک چھ روپے فی کلو اضافہ ہو جائے اور قطاروں میں لگ کر بھی نہ ملے صابر شاکر عوام، سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر بھلے وقتوں کا انتظار کرتے ہیں، بہت تنگ آئے تو بددعا دے دی یا جگت لڑھکا دی، اپوزیشن، حکومت سے زیادہ نااہل و ناکارہ ہے، کرپشن کے الزامات اس کے پائوں کی زنجیر ہیں اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے معافی تلافی کی اُمید اس کا کل اثاثہ، روٹی کپڑا اور مکان کی طرح "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ سراب نکلا اور عوام مسلم لیگ(ن) و پیپلز پارٹی کی کسی بات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں کہ آخر کتنی بار دھوکہ کھائیں، ورنہ بھلے وقتوں میں چینی کی قیمتوں میں صرف چار آنے اضافے پر احتجاجی تحریکیں حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا کرتی تھیں، فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تاشقند معاہدے کی فرد جرم لے کر ذوالفقار علی بھٹو، ڈیڑھ سال تک شور مچاتے رہے کسی نے کان نہ دھرے مگر چینی کی قیمت میں چار آنے اضافے پر عوام سڑکوں پر نکلے اور طاقتور حکومت ختم ہو گئی، اب مگر عوام کی قوت برداشت مثالی ہے۔
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط، اس کا تخت دہلی ہر خطرے سے محفوظ، اب پنجاب مضبوط نہ ہو تو مرکز میں دو تہائی اکثریت بھی بے معنی ہے، میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت 1993ء میں اس وقت دھڑام سے گری جب میاں منظور احمد خان وٹو نے غلام حیدر وائیں مرحوم کی پنجاب حکومت کوچلتا کیا۔ پیپلز پارٹی 1988ء، 1993ء اور 2008ء میں وفاقی حکومت بنا کر بھی محض اس بنا پر اپنا ووٹ بنک قائم رکھ سکی نہ عبرت ناک زوال سے بچ سکی کہ پنجاب اس کے ہاتھ سے نکل گیا، عمران خان کی خوش قسمتی کہ میاں شہباز شریف اپنے برادر بزرگ کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہٹاتے ہٹاتے شل ہو گئے، پنجاب میں آزاد اُمیدواروں کو ساتھ ملا کر پنجاب میں حکومت نہ بنا سکے، تحریک انصاف کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت مل گئی مگر پنجاب وسیم اکرم پلس کے حوالے کر کے اُس نے جو تجربہ کیا، وہ وفاقی حکومت کے گلے کا طوق ثابت ہوا۔ فواد چودھری نے جرأت دکھائی، کور کمیٹی کے اجلاس میں کھل کر بات کی اور خط بھی لکھا عمران خان خفیہ ووٹنگ کرائیں تو پنجاب کابینہ کے علاوہ وفاقی کابینہ کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیروں اور ارکان اسمبلی کی اکثریت فواد چودھری سے اتفاق کرے گی کہ یہ تجربہ صرف ناکام ہی نہیں عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے تباہ کن ہے مگر اطلاع یہی ہے کہ خان صاحب کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں، بزدار صاحب کے فیض یافتہ مشیروں کی رائے یہی ہے کہ سولہ ماہ میں پنجاب حکومت کی کارگزاری مثالی رہی اور وزیر اعلیٰ کے خلاف شور و غوغا رقیبوں کی کارستانی ہیں۔
سردار عثمان بزدار اس لحاظ سے کامیاب وزیر اعلیٰ ہیں کہ سولہ ماہ کے دوران انہوں نے تحریک انصاف کی عددی قوت میں اضافہ ہونے دیا نہ اتحادیوں بالخصوص چودھری برادران پر انحصار کم، چار چھ ووٹوں کی بیساکھی پر قائم حکومت کی پہلی ترجیح مسلم لیگ(ن) میں فارورڈ بلاک کی تشکیل اور باقی ماندہ آزاد اُمیدواروں کی تحریک انصاف میں شمولیت ہونی چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہر وقت گرنے کا دھڑکا نہ لگا رہے مگر مجال ہے کہ کسی نے سوچا ہو، تحریک انصاف کے کارکنوں کو گلے لگا کر گلی محلے میں متحرک کرنے اور ان کے ذریعے اشیائے خورو و نوش کی قیمتوں پر قابورکھنے کی ضرورت تھی مگر خیال نہ آیا پولیس و انتظامیہ کے ذریعے گراں فروش، ذخیرہ اندوزی اور قانون شکنی کا سدباب ہونا تھا نہ ہوا کہ بیورو کریسی پر گرفت مضبوط ہے نہ معاملات کا ادراک۔ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے، سبزی دو سو روپے کلو بکے، آٹا ستر روپے کلو یا دودھ سوا سو روپے کلو کسی کو پروا نہیں، بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے، ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو احساس ہے کہ اس فردعمل کے ساتھ ہم عوام کا سامنا نہیں کر سکتے کہ ترقیاتی منصوبے ٹھپ پڑے ہیں، مہنگائی عوام کا جینا حرام کر رہی ہے اور صوبائی حکومت کی مجموعی کارگزاری دلکش نعروں تک محدود۔ بار بار ترجمان وُزرائے اطلاعات بدلنے کا سبب اس کے سوا کیا ہے؟ سولہ ماہ میں حکومت سے دودھ شہد کی نہریں بہانے کی توقع کی جا سکتی ہے نہ ماضی کا ملبہ صاف کرنا ممکن مگر اس عرصے میں معاملات پٹڑی پہ چڑھتے اور ٹیم کے ارکان درست سمت میں گامزن ہوتے تو نظر آنے چاہئیں، عمران خان نے کبھی سوچا کہ آخر ہر چار چھ ماہ بعد اتحادی بلیک میلنگ پر کیوں اُتر آتے ہیں اور نئے انتخابات، ان ہائوس تبدیلی اور مائنس ون کے فارمولے کیوں گشت کرنے لگتے ہیں؟ انسان غلطی سے نہیں، غلطی پر ڈٹے رہنے سے نقصان اٹھاتا ہے۔ پنجاب میں ناقص طرز حکمرانی وفاقی حکومت کے لئے تباہ کن ہے، اگر عمران خان کو اس کا ادراک نہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حال پر رحم فرمائے جس کا پنجاب کمزور اس کا مرکز کبھی مضبوط نہیں ہو سکتا، تجربہ تو یہی ہے، مگر کسی کو ادراک ہو تو!