Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khud Ko Tabah Kar Liya Aur Malal Bhi Nahi

Khud Ko Tabah Kar Liya Aur Malal Bhi Nahi

خزاں میں چاک گریباں تھا میں، بہار میں تومگر یہ فصل ستم آشنا، کسی کی نہیں نیوزی لینڈ میں نشانہ مسلمان تھے، دہشت گرد غیر مسلم تھا اور بیانیہ یہ مضبوط ہوا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہے نہ دہشت گردی سے محفوظ کوئی ملک اور معاشرہ۔ نیوزی لینڈ کثیرالقومی پرامن ملک ہے اور یہاں آسٹریلیا، فرانس اور کئی دگر ممالک کی نسبت مذہبی و نسلی ہم آہنگی بہت ہے۔ دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کی گن پر لکھے جملوں اور چند نکاتی پروگرام سے ہرگز نہیں لگتا کہ یہ اکیلا شخص ہے اور محض نفسیاتی عدم توازن کی بنا پر وہ مساجد میں اللہ کے حضور جھکنے والے کلمہ گو انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کے پروگرام میں لندن کا میئر محمد صادق ہدف ہے اور وہ برطانیہ میں حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ظاہر ہے اکیلا شخص یہ کام نہیں کرسکتا کوئی نہ کوئی گروہ اور تنظیم شریک جرم ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کا ہیرو ہے کہ موصوف نے کالوں کو گوروں کے برابر لانے والے ابراہام لنکن کے دیس میں ایک بار پھر گوروں کی نسلی برتری کو انتخابی موضوع بنایا اور ڈیموکریٹس کے علاوہ گرینڈ اولڈ پارٹی (ری پبلکن) کے سینئرز، مین سٹریم میڈیا اور اعتدال پسندانہ سوچ کو شکست دے کر انتخاب جیت لیا۔ اس وحشیانہ عمل کو دنیا بھر میں دہشت گردی قرار دیا گیا مگر برینٹن کے ہیرو ٹرمپ نے Terrorist یا Terrorism کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا اور اس کے ٹویٹ میں جذبات کی وہ درشتگی و شدت نظر نہیں آئی جوپلوامہ میں بھارتی فوجیوں کو نشانہ بنانے والے کشمیری نوجوان عادل ڈار کے خلاف بیان کا طرۂ امتیاز تھی، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ٹرمپ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی تو جیسنڈرا آرڈرن نے جواب دیا کہ "آپ امریکہ میں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، ہم اپنے شہریوں کی حفاظت اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام قومی وسائل سے کر لیں گے"۔ نیوزی لینڈ نے تین دن کے اندر جو اقدامات کئے، وہ "ریاست ہوگی ماں کے جیسی" والے اس نعرے کی عملی تعبیر تھی عدلیہ تحریک کے دوران پاکستان میں جو گونجتا رہا مگر ریاست مدینہ کے علمبردار عمران خان کے دور میں بھی محض کھوکھلا نعرہ ہے۔ ساہیوال میں ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بے قصور اور پرامن شہری خلیل کا خاندان شہید ہوا، مگر تین ماہ گزر جانے کے باوجود ماں باپ اور بہن سے محروم ہونے والے تین کم سن بچوں کو انصاف نہیں ملا۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے ملزم کو گرفتار کیا، تین مشکوک افراد کو ثبوت نہ ملنے پر رہا کردیا اور گن پالیسی تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی شروع کردی جبکہ ہمارے ہاں ستر ہزار افراد کی شہادت کے بعد بننے والا نیشنل ایکشن پلان ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ دہشت گردی کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے والی فوجی عدالتوں کی معیاد میں توسیع کے لیے کئی ماہ سے مسودہ قانون پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی کے باعث منظوری کے مراحل طے نہیں کرسکا اور کئی ہائی پروفائل مقدمات معرض التوا میں ہیں۔ نیوزی لینڈ سے پہلے کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات ہو چکے۔ مسجدوں پر حملے اور نمازیوں کو نشانہ بنانے والے ان واقعات کے علی الرغم نیوزی لینڈ کے واقعہ نے امریکہ و یورپ میں پائے جانے والے اسلاموفوبیا پر سنجیدہ سوالات اٹھائے، مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی روش کے خلاف جذبات ابھارے اور پہلی بار نام نہاد عالمی برادری کو مسلمان معصوم و مظلوم نظر آئے۔ مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کیوی وزیراعظم نے تو کمال کردیا، موم بتیاں جلا کر گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے بجائے شلوار قمیض اور دوپٹہ اوڑھ کر وہ شہداء کے گھروں میں گئیں اور ایک ہمدرد و غمگسار خاتون کی طرح نہ صرف انہیں گلے سے لگایا، آنسو پونچھے بلکہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، یہ حکمرانی کا وہ نادر نمونہ ہے جو ہم قرون اولیٰ کے مسلم حکمرانوں کے حوالے سے پڑھتے، سنتے اور دہراتے چلے جا رہے ہیں مگر کسی مسلمان حکمران کو اس انداز میں اقلیتوں، اپنے ہم مذہبوں کی دلجوئی کی توفیق نہیں ہوئی، اس واقعہ میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں مگر یہاں اندوہناک واقعات سے سبق سیکھنے کی مضبوط روایت نہ خود احتسابی کا رواج ہے۔ کتنے بڑے بڑے واقعات ہم نے ہفتوں میں بھلائے اور نئے واقعات کا انتظار کرنے لگے۔ ہماری بے حسی اور زود فراموشی کا عالم یہ ہے کہ دنیا بھر میں سانحہ نیوزی لینڈ کا سوگ منایا جارہا تھا مگر ہم پی ایس ایل میچ کے دوران کراچی کے سٹیڈیم کا رخ کرنے والے لاکھوں شائقین کا دل آئمہ بیگ اور جنون گروپ کی اچھل کود سے بہلا رہے تھے۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ نیوزی لینڈ کے حکمران اور عوام کیا سوچتے ہوں گے کہ 9 پاکستانی شہید ہو چکے، ان میں سے بعض کی ابھی تدفین نہیں ہوئی مگر یہ قوم رقص و سرود میں مشغول ہے، خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔ شائقین سٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئے تھے، موسیقی سننے اور اچھل کود سے محظوظ ہونے نہیں۔ میری اطلاع کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی آمد پر باقی ماندہ میوزک شو منسوخ کر دیا گیا مگر تب تک بے حسی اور زودفراموشی کا پیغام جا چکا تھا۔ دہشت گردی خواہ نیوزی لینڈ میں ہو، کسی مسلم ریاست میں، ہر جگہ افسوس ناک، قابل نفرت ہے۔ نسلی، لسانی، مسلکی، مذہبی اور علاقائی سوچ کے تحت ہو یا اپنے معاشی حقوق کے نام پر، لائق مذمت ہے لیکن بطور مسلمان ہمیں اپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے کہ ہر جگہ مسلمان ہی کیوں نشانہ بن رہے ہیں، صرف بیگانوں کے ہاتھوں نہیں، اپنوں کی بندوقوں اور خودکش جیکٹوں کے بھی، نیوزی لینڈ میں تو پھر بھی، ریاست اور حکومت شہداء کے لواحقین اور باقی ماندہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور آنسو پوچھنے والی ہے ہماری اپنی ریاستوں میں تو یہ تکلف کم ہوتا ہے۔ روہنگیا میں برما، کشمیر میں بھارت، فلسطین میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی ہم حسب توفیق مذمت کرتے ہیں اور انصاف پسند عالمی ضمیر کو جگانے کی سعی بھی۔ لیکن ہمارے اپنے حکمرانوں، وڈیروں، جاگیرداروں اور غاصب گروہوں نے مظلوم، بے بس، بے آسرا مرد و خواتین کا جینا حرام کر رکھا ہے، انہیں بھیڑ بکریوں کے برابر حقوق بھی حاصل نہیں، ان کی عزت و آبرو، مال و اولاد کا تحفظ یقینی، نہ حق رسی کا کوئی اہتمام۔ شام، عراق، افغانستان میں غیروں نے تو جو کیا سو کیا مگر حافظ الاسد، ظاہر شاہ، صدام حسین ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا اور بشارالاسد، اشرف غنی اور عادل عبدالمہدی اپنے عوام سے جو حسن سلوک کر رہے ہیں وہ کس سے مخفی ہے؟ پاکستان میں تھر اور دوسرے علاقوں میں غذائی قلت، علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں اور غیر انسانی طرززندگی کی وجہ سے جو اموات ہوئی ہیں ان کے ذمہ دار کون ہیں؟ کوئی بیگانہ، نسلی تعصب کا شکار دہشت گرد، مسلمانوں سے نفرت کرنے والا کوئی برینٹن۔ تعصب کی کون سی قسم ہے جو مسلم معاشروں میں فروغ پذیر نہیں۔ زبان، نسل، علاقے، ملک مذہب کی بنیاد پر تعصب و نفرت کی آبیاری ہمارے اپنے سیاستدان، مذہبی پیشوا، حکمران، دانشور اور اہل قلم وغیرہ کرتے ہیں۔ جا بجا اپنے اپنوں کا گلا کاٹ رہے ہیں کہیں بحیلہ مذہب، کہیں بنام وطن۔ جب ہمارے اپنوں نے ایک دوسرے سے غیر انسانی سلوک روا رکھا، ریاست ظالم نسل کی سوتیلی ماں بن گئی، بچوں کو تلاش روزگار، اپنی شناخت اور باعزت زندگی گزارنے کے لیے دیار غیر میں پناہ لینی پڑی تو کسی غیر سے گلہ کیا؟ جن مسلم ریاستوں کے پاس وسائل ہیں وہ عیش و عشرت اور طاقتور آقائوں کی خوشنودی پر لٹا رہی ہیں اور جو تہی دست ہیں وہ انہی "نسل پرستوں "، "اسلام دشمنوں " اور "اسلاموفوبیا کے مریضوں " کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہیں، جنہیں ہم دن رات برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ گریباں میں جھانکنا تو ہمیں چاہیے، مگر سینہ کوبی اور طعنہ زنی سے نجات پائیں تو؟ میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بسخود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں