امریکہ نے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد میں قتل کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایک سپر پاور کے طور پر وہ اپنے اور دوسروں کے نفع نقصان کی پروا کئے بغیر طاقت استعمال کر سکتا ہے، اُسے نتائج کی فکر ہے نہ عالمی ردعمل سے سروکار۔ قاسم سلیمانی ایرانی قوم کا ہیرو تھا اور عراق سے شام، لیبیا سے یمن تک امریکہ کے لئے ڈرائونا خواب۔ شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ اور اس کے یورپی و عرب اتحادیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر قاسم سلیمانی کی حکمت عملی اور روس کی پشت پناہی کے سبب ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ امریکہ کی وہ کھلی ناکامی تھی جس کا ذمہ دار کسی دوسرے کو قرار دینا ممکن نہ تھا۔ بالآخر امریکی صدر نے شام سے پسپائی کا اعلان کر دیا، قاسم سلیمانی بغداد کیوں گیا؟ اور عراق کی حالیہ ہنگامہ آرائی میں اس کا کیا کردار تھا؟ اس حوالے سے امریکی موقف کی تردید مشکل ہے مگر کسی آزاد و خود مختار ریاست کے اعلیٰ عہدیدار کو اپنے اتحادی ملک کی سرزمین پر یوں بھونڈے طریقے سے قتل کرنا اور اسے کامیابی سے تعبیر کرنا دور رس مضمرات کا حامل خطرناک رجحان ہے، امریکی ٹیکنالوجی کسی بھی ناپسندیدہ ریاست کے حکمران و سرکاری عہدیدار کو اعلان جنگ کے بغیر موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور سپر پاور اسے اپنے شہریوں اور مفادات کے تحفظ کے آئینہ دار اقدام سے تعبیر کرے گی۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔
قاسم سلیمانی اپنی تقریروں میں صدر ٹرمپ کو جواری قرار دے کر للکارتے تھے، وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے اس قدر قریب ہیں جس کا تم تصور نہیں کر سکتے مگر فی الحال صدر ٹرمپ نے ایرانی قیادت کو اپنی قربت اور ہیبت کا احساس دلایا ہے اور بالواسطہ طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ واقعی وہ جواری ہیں، افغانستان میں جنگ سے چھٹکارا پانے کی شدید خواہش میں مبتلا ٹرمپ کا شرق اوسط میں نئی جنگ کو دعوت دینا جوا نہیں تو کیا ہے۔؟ ایرانی قیادت نے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے جو بذات خود چیلنج ہے۔ صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی پر حملے کا حکم دیتے ہوئے نتائج و عواقب کے بارے میں سوچا، خطے میں امریکی مفادات اور اتحادیوں کی سلامتی کو درپیش خطرات کا تخمینہ لگایا یا ویت نام، افغانستان، عراق اور شام کی طرح طاقت کے گھمنڈ میں چڑھ دوڑے، یہ ابھی واضح نہیں۔ طاقت اور تکبر کی نفسیات میں سوچ بچار کا عنصر چنداں اہمیت بھی نہیں رکھتا لیکن ایران کی طرف سے بدلہ لینے کا اعلان؟ کیا ایرانی قیادت سخت اور براہ راست جوابی کارروائی کے مضمرات سے آگاہ ہے؟
بلا شبہ امریکہ ایران کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہا ہے، چالیس سال سے ایران کی مذہبی حکومت امریکہ کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ 1979ء میں ایران اکیلا تھا، اب اس کا دائرہ اثر شام، عراق، لبنان، بحرین، یمن تک پھیل چکا ہے، اس کے عرب مخالفین میں سے کوئی صدام حسین کے عراق اور حسنی مبارک کے مصر کی طرح اس کے لئے خطرہ نہیں، روس اب اس کا مخالف نہیں، علاقائی معاملات میں ہمنوا ہے، ترکی، ملائشیا اور قطر کے علاوہ کئی یورپی ممالک بھی امریکی پابندیوں کی پروا کئے بغیر ایران سے تجارتی روابط جاری رکھنے پر مُصر ہیں اور افغانستان میں رسوائی کے بعد امریکی رائے عامہ اپنے حکمرانوں کو ایران کے خلاف کسی نئے ایڈونچر کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خطے میں امریکی مفادات و تنصیبات پر ایرانی حملے کی صورت میں ٹرمپ کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ امریکہ کو تکلیف میں مبتلا کرنے کی قرین قیاس صورت یہ ہے کہ ایران اسرائیل کو ٹارگٹ کرے، ایرانی میزائل ٹیکنالوجی اگر واقعی موثر ہے اور یہ صدام حسین کے سکڈ میزائلوں کی طرح محض دکھاوا نہیں تو وہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے شرق اوسط میں "برائی کی جڑ" کو نشانہ بنا سکتا ہے جسے گزشتہ سال امریکہ نے پیٹریاٹ اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے بیلسٹک میزائلوں، کروز میزائلوں اور جدید طیاروں کے حملے سے محفوظ رکھنے کے قابل کیا تھا۔ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی اس ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں، ایرانی فوجی قیادت کے سوا کسی کو معلوم نہیں، دوسرا اہم ہدف خطے میں موجود امریکی بحری بیڑے اور تنصیبات ہیں جس کا نتیجہ ہولناک جوابی فوجی ردعمل کے ذریعے ممکن ہے اور ممکنہ طور پر تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جبکہ سعودی عرب، یمن، لیبیا اور عراق میں امریکی اتحادیوں کے مفادات و تنصیبات پر حملہ آخری اور انتہائی کمزور آپشن ہے جس سے ایرانی قیادت اور عوام کے انتقامی جذبات کی تسکین تو ہو گی مگر امریکہ نقصان کے بجائے فائدے میں رہے گا۔ یہ امریکہ کی خواہش ہو سکتی ہے کہ ایرانی ردعمل سے عرب ریاستیں عدم استحکام کا شکار ہوں، پاکستان پراکسی وار سے متاثر ہو اور مسلم ممالک میں اختلاف و انتشار بڑھے۔
ایرانی قوم پرستی اور پاکستان سعودی عرب، بحرین، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں ہم مسلکوں کی گہری وابستگی بلکہ عقیدت کے علاوہ جذبہ شہادت ایران کی وہ قوت ہے جس کا احساس امریکہ و یورپ کو ہو نہ ہو ان ممالک کی سمجھدار سیاسی و فوجی قیادت اور اشرافیہ کو ہے، عرب ممالک نے اسرائیل جیسی کھجور کی گٹھلی کے برابر ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیے مگر ایران چالیس سال سے امریکہ کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ امریکہ عراق، مصر، لیبیا اور دیگر ممالک میں بغاوتوں کے ذریعے مرضی کی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب رہا مگر ایران اور شام میں اسے خاک چاٹنا پڑی، اب تیسری جنگ عظیم چھیڑے بغیر ایران سے افغانستان والا سلوک نہیں کر سکتا اس بنا پر چپقلش بڑھنے سے ایران اور امریکہ سے زیادہ ایران کے عرب ممالک اور پاکستان جیسے ہمسایوں کے لئے خطرات میں اضافہ کا امکان ہے۔ طاقت کے گھمنڈ نے برطانیہ اور سوویت یونین کو رسوا کیا اور کسی کو یاد نہیں کہ یہ کبھی دنیا کی سپر پاورز تھیں۔ اسی طاقت کے نشے اور تکبّر میں امریکی قیادت مبتلا ہے اور افغانستان میں رسوائی سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں، میری ناقص رائے میں امریکہ نے افغانستان کی طرح ایک قبرستان کا انتخاب کیا ہے اور تباہی پہلے اسرائیل کا مقدر بنے گی بالآخر امریکہ کی، موقع سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ بھی سکتا ہے کہ ایک جعلی اور مصنوعی ریاست امریکی بیساکھیوں پر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کر کے صورتحال کو سدھارنے کے بجائے بگاڑنے کی دانستہ کوشش کی ہے، اپنے ہم منصب کے بجائے آرمی چیف سے تبادلہ خیال کے ذریعے سیکرٹری آف سٹیٹ نے ایران اور اس کے خیر خواہوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستان کی منتخب حکومت سے زیادہ فوج اہم ہے اور اسے ہم نے مطمئن کر دیا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے دو مواقع پر امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا، عراق ایران جنگ میں ہم غیر جانبدار رہے مگر صدام کے عراق کے مقابلے میں ہمارا جھکائو ایران کی طرف رہا، عراق پر امریکی حملے کے وقت ہم نے فوج بھیجنے سے انکار کیا جبکہ یمن میں فوج نہ بھیجنے کی قیمت بھی ہمیں چکانی پڑی۔ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر کے موجودہ حکومت نے سفارتی کم ہمتی کا مظاہرہ کیا جس کا سبب ہماری کمزور اور مقروض معیشت اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات پر غیر معمولی انحصار ہے۔ ایران سے چپقلش مزید بڑھی تو ہمیں دبائو میں لانے اور ایران کے خلاف کسی مہم جوئی کی صورت میں امریکہ افغان جنگ کی طرح غیر معمولی فوجی و مواصلاتی تعاون مانگ سکتا ہے اور سعودی عرب کے ذریعے دبائو ڈالے گا لہٰذا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو قبل از وقت اپنی حکمت عملی طے کر لینی چاہیے کہ صورت حال خراب ہو تو ہم جلد بازی میں خدانخواستہ کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم ایک جنگ سے نکل نہیں پائے کہ دوسری دروازے پر دستک دینے لگی ہے۔ خدا خیر کرے۔