قفل ٹوٹا خدا خدا کر کےجنوبی پنجاب سیکرٹریٹ منظور ہو گیا، یہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی طرف پہلا قدم ہے سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے مگر ڈنڈی بھی ماری۔ طے پایا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا دفتر بہاولپور میں ہو گا اور ایڈیشنل آئی جی پولیس ملتان میں بیٹھے گا۔ واہگورو کے خالصے یاد آئے۔ خالصہ کالج کے قیام کا فیصلہ ہوا مگر کالج لاہور میں بنے یا امرتسر میں اس پراختلاف ہو گیا، بحث چھڑی توچھڑتی ہی چلی گئی، دونوں فریق بضد کہ ان کی مرضی کے شہر میں کالج نہ بنا تو پھر اس کی ضرورت ہی نہیں، بڑے بوڑھے بیچ میں پڑے اور طے پایا کہ کالج لاہور میں بنا لیتے ہیں، ہاسٹل امرتسر میں، دونوں فریق خوش۔ یہ لطیفہ ہے یا واقعہ راوی خاموش ہے لیکن وسیب کے سیاستدانوں نے یاد تازہ کر دی ہے۔ اہل ملتان اور بہاولپور کو بیک وقت خوش کرنے کی یہ پالیسی مستقبل میں کیا رنگ لائے گی کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کا دارالحکومت بہاولپور میں ہو گا اور بغداد الجدید بار دگر وسیب کا سیاسی، علمی، سماجی اور معاشی مرکز بنے گا۔
پارلیمنٹ کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں حکومت دو تہائی اکثریت اور اپوزیشن کے خوش دلانہ تعاون کے بغیر نیا صوبہ بنانے کی اہلیت سے محروم ہے مگر نئے صوبے کی راہ میں صرف یہی ایک رکاوٹ نہیں، وسیب کے جاگیردار اور وڈیرے زبانی کلامی جو کہیں دل سے وہ خاءف ہیں کہ عوام اور صوبائی دارالحکومت کے مابین فاصلے کم ہونے سے ووٹروں کی ان تک رسائی آسان ہو گی، تخت لاہور کے استحصال کا نعرہ لگا کر بیورو کریسی کو دباءو میں لانا مشکل ہو گا اور الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا کے طفیل اپنے حقوق سے آشنا نوجوان اعلیٰ بیورو کریسی سے براہ راست مراسم قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے مگر حالات ایسے بن گئے ہیں کہ وہ نئے صوبے کی کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے۔ روڑے اٹکانا البتہ دائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری و ایڈیشنل آئی جی کے الگ الگ شہروں میں دفاتر کا قیام مجھے اس سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے، پنجاب کی بیورو کریسی بھی نئے صوبے کے قیام سے خوش ہے نہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار، ورنہ بہاولپور یا ملتان سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد چیف سیکرٹری اور آئی جی کے عہدے تخلیق کرنے میں کون سی آئینی رکاوٹ ہے۔ یہ رولز آف بزنس کا معاملہ ہے جسے پنجاب کابینہ بآسانی طے کر سکتی ہے اور نئے سیکرٹریٹ کو قرار واقعی فعال، با اختیار اور عوام دوست بنانے کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ لاہور کی طرح بہاولپور یا ملتان میں بھی وزیر اعلیٰ کو براہ راست جوابدہ چیف سیکرٹری اور آئی جی بیٹھیں اور محروم عوام کی داد رسی کے لئے ایک بار پھر لاہور کی طرف دیکھنے پر مجبور نہ ہوں۔
تمام تر دعوءوں کے باوجود وسیب کے لائق اور پڑھے لکھے بیورو کریٹس، اساتذہ، پولیس افسروں اور دوسرے شعبوں کے افراد کی صلاحیت کار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے کہ عرصہ دراز تک ان علاقوں کو وسائل سے محروم رکھا گیا اور اختیارات کے علاوہ وسائل کے ارتکاز کی بنا پر جوہر قابل کے لئے ملتان بہاولپور میں کسی قسم کی کشش باقی نہ رہی، ابتدائی مرحلے پر سیکرٹریٹ کے قیام سے نئے صوبہ کو چلانے والے افراد کی صلاحیت کار بڑھانے اور عملی مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی ہے، تاکہ جب قومی اتفاق رائے سے نیا صوبہ بنے تو بلوچستان والا حال نہ ہو کہ مقامی بیورو کریسی پچاس سال گزرنے کے باوجود حقوق کی طلب گار ہے فراءض کی کماحقہ ادائیگی سے غافل ولاچار۔ ، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال برملا اعتراف کرتے ہیں اور صوبے میں کام کرنے والے دیانتدار بیورو کریٹس تائید۔ نئے صوبے کی تشکیل میں سیاسی رکاوٹ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی تائید کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ایک کو صوبے اور قومی اسمبلی میں ویٹو پاور حاصل ہے اور دوسری کو سینٹ میں، پیپلز پارٹی اپنے منشور کے مطابق جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی پابند ہے، یہ اس کی نالائقی ہے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت مسلم لیگ(ن) کی حماءت حاصل نہ کر سکی حالانکہ وزارت عظمیٰ جنوبی پنجاب کے سپوت اور الگ صوبے کے علمبردار مخدوم یوسف رضا گیلانی کے پاس تھی۔ مخدوم شہاب الدین کی سربراہی میں کمیٹی بنی مگر اس کی سفارشات جناب آصف علی زرداری کی میز کی دراز میں پڑی رہیں یا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی فائل میں، جس پر "ناقابل عمل" لکھا تھا، مجھے یاد ہے کہ پیپلز پارٹی نے قومی اور پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کا بل پیش کیا تو میاں نواز شریف نے ماڈل ٹاءون میں چیدہ چیدہ اخبار نویسوں کو طلب کیا اور الگ صوبے کے معاملے پر مشاورت کی، جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاولپور صوبہ بحالی کے موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی، اکثریت نے جنوبی پنجاب صوبہ کے حق میں رائے دی مگر مسلم لیگ نے صوبائی اسمبلی میں دو صوبوں کی قرار داد پیش کر کے پیپلز پارٹی کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں دو تہائیاکثریت ملی، پانچ سال حکمرانی رہی مگر صوبے بنانا تو درکنار، جنوبی پنجاب کے لئے مختص ترقیاتی فنڈز بھی لاہورپرخرچ ہوئے کہ حکمرانوں کے سر پر لاہور کو پیرس، استنبول اور بیجنگ بنانے کاجنون سوار تھا۔
نئے صوبے کی تشکیل کے لئے تحریک انصاف اگر جراَت سے کام لے، اس بات سے خوفزدہ نہ ہو کہ وسطی پنجاب میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے نیا پنجاب اس کے ہاتھ سے نکل کر مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں چلا جائے گا تو وہ بآسانی اپنے وعدے کی تکمیل کر سکتی ہے، پنجاب کی تقسیم سے نہ صرف فیڈریشن توازن و استحکام کی منزل سے آشنا ہو سکتی ہے بلکہ چھوٹے صوبوں کی طرف سے پنجاب پر طعنہ زنی کے لچر کلچر پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، تعصب و تنگ نظری سے کوسوں دور پنجاب محض اپنی آبادی کی بنا پر قوم پرست بلوچوں، پشتونوں اور سرائیکیوں کی طعن و تشنیع کا ہدف ہے۔ تحریک انصاف مرکز اور خیبر پختونخوا میں حکمران ہے جنوبی پنجاب میں بھی وہی حکمران ہو گی، البتہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکومت بنا کر موجودہ نظام کی سٹیک ہولڈر بن سکتی ہے اور پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی نظام کو برقرار رکھنے پر مجبور ہو گی۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ سودا بُرا نہیں، عمران خان کو پنجاب کی بیورو کریسی اور اشرافیہ سے عدم تعاون کا جو گلہ ہے وہ دور ہو گا اور محاذ آرائی کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ مسلم لیگ کو خاندانی تسلط سے نجات دلانے میں بھی یہ نسخہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ گھی اگر سیدھی انگلی سے نکلنا مشکل ہے تو پھر ٹیڑھی انگلیاں موجود ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کے بعد عمران خان کو اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے تیز رفتار اقدامات کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ڈیڑھ دو سال میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ کر سکیں۔ مسلم لیگ (ن) میں شکست و ریخت کے آثار نمایاں ہیں۔ مریم نواز شریف نے باہر نکل کر میاں نواز شریف کے مزاحمتی +مفاہمتی بیانئے کی تصدیق کر دی ہے اور اب اندھوں کو بھی نظر آنے لگا ہے کہ مفاہمتی بیانیہ میاں شہباز شریف نہیں بلکہ میاں نواز شریف کا ہے۔ جسے لے کر شاہد خاقان عباسی گلی گلی نگر نگر جائیں گے۔ مزاحمتی کارڈ صرف اپنے ان سادہ لوح کارکنوں اور میڈیا میں اپنے جانثاروں کو دکھانے کے لئے جو میاں صاحب کو جمہوریت، شہری آزادیوں، عوامی حقوق کا علمبردار سمجھتے اور انہی کے ہاتھوں، غیر جمہوری قوتوں کی شکست و ریخت کا خواب دیکھتے ہیں۔ مریم نواز نے سرعام اپنی زبان بندی کا اعتراف کر کے سب خواب چکنا چور کر دیے ہیں اور شاہد خاقان عباسی کو خاندانی سیاست کا وارث قرار دے کر بتا دیا کہ معاملات طے کرنے کے لئے ایک اور نثار علی خاں دستیاب ہے، اب وہ جانیں، اسٹیبلشمنٹ جانے اور باقی ماندہ مسلم لیگ ع
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں