لاہور کی مصروف بازاروں میں خریداروں کا ہجوم ہے اور حکومت کے طے کردہ ایس او پیز کی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ یہ خلاف توقع ہے نہ غیر معمولی واقعہ! مایوسی صرف ان خوش فہموں کو ہوئی جن کا خیال تھا کہ کاروباراور بازار کھلے کے بعد دکاندار اور خریدار احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھیں گے صرف نوجوان اور ادھیڑ عمر کے دستانے اور ماسک پہنے، سینائٹزر کی شیشیاں ہاتھ میں پکڑے مرد و خواتین بازاروں کا رخ کریں گے، عجلت میں انتہائی ضرورت کی اشیا خرید کر گھروں کو لوٹ جائیں گے، کوئی بزرگ ان کے ساتھ ہو گا نہ کم عمر بچہ کہ کورونا ان کے لئے دوسروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، موت کا پیامبر۔ لاک ڈائون ختم ہوا تو دو ماہ سے گھروں اور گلی محلوں میں مقید شہریوں نے یوں دکانوں پر دھاوا بولا جیسے ان میں کپڑا، لتا، جوتے، جیولری، سامان آرائش و زیبائش وغیرہ مفت بٹ رہا ہے۔ احساس پروگرام سے بارہ ہزار روپے کی وصولی کے لئے قطاروں میں لگی غریب خواتین کا مذاق اڑانے والے مرد و خواتین بھی یوں ایک دوسرے کو پھلانگ کر خریداری میں مصروف تھے جیسے یہ ان کی زندگی کا آخری دن ہے آج اگر خریداری نہ ہوئی تو معلوم نہیں پھر موقع ملے گا یا نہیں۔ کسی کو کورونا کا خوف نہ احتیاطی تدابیر کا خیال اور نہ صحت و سلامتی کی فکر۔ معصوم بچوں کو ساتھ لے کر گھومنے والے والدین کو ٹی وی کیمروں کے سامنے دیکھ کر، گھروں اور دفتروں میں بیٹھے لوگ پریشان ہوئے مگر وہ نہیں، جو اپنے ساتھ اپنے معصوم بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالے بے فکری سے لاہور کے انارکلی بازار، اچھرہ بازار اور شاہ عالمی و چوک یتیم خانہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک دکان سے دوسری دکان، میں سر گرداں تھے۔
میاں اسلم اقبال اب جتنا شور مچائیں، عمران خان لاکھ احتیاط کا تقاضا کریں بازار کھل چکے، حکومتی احکامات احتیاطی تدابیر کی طرح ہوا میں اڑگئے اور بے قابو ہجوم سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں میں کورونا کو گلے سے لگانے، اُسے خوشی خوشی اپنے گھروں میں لے جانے کے لے بے تاب ہے۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی خواہش دیوانے کا خواب بن گئی ہے البتہ حکومت کا مقصد اگر (اجتماعی مدافعت) Hard immunity کے تصوّر کو عملی جامہ پہنانا تو وہ شائد حاصل ہو جائے۔
Hard immunity کا مفہوم یہ ہے کہ بھینسوں یا بھیڑوں کے ایک بڑے گلے یا ریوڑ پر کسی وائرس کا حملہ ہو جائے تو اس ریوڑ کی اجتماعی قوت مدافعت بیماری کے نقصان کا دائرہ محدود کر دیتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن فروری کے اواخر اور مارچ کے اوائل میں پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے یہی راگ الاپتے رہے کہ بیماری جب تمام شہریوں پر حملہ آور ہو گی تو ہماری اجتماعی قوت مدافعت اس کا راستہ روک دے گی البتہ بوڑھوں اور بیماروں سے معذرت کہ وہ اس کا آسان شکار ہوں گے۔ اجتماعی قوت مدافعت تو بروئے کار نہ آئی البتہ برطانیہ دنیا بھر میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانے والا ملک بن گیا۔ پاکستان فی الحال آٹھویں پوزیشن پر ہے۔ خدا خیر کرے!
ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اور طبی مشوروں کو بالائے طاق رکھ کر عید کی خوشیاں دوبالا کرنے کے لئے بازاروں اور دکانوں میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا، سانس سے سانس ملا کر خریداری میں مشغول مرد و خواتین کو کیا علم کہ ان کے نزدیک کھڑے گاہک، سیلز مین، مہندی فروش، گول گپے، قلفیاں اور پاپڑ بیچنے والا کورونا بردار ہے اور ہم اپنے گھروں میں صرف خوبصورت پارچات، سامان آرائش و زیبائش نہیں مہلک اور موذی مرض بھی لے جا رہے ہیں جس کا سماجی فاصلے اور احتیاط کے سوا کوئی علاج دریافت ہوا نہ جس کا پتہ پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور دماغ پر اثر انداز ہونے سے پہلے چلتا ہے، عید کی خریداری شوق ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن کی خوشی اور خوش لباسی جبکہ مہلک مرض سے بچائو انسانی زندگی کا بنیادی تقاضا۔ جان ہے تو جہان ہے، عید تو انشاء اللہ پھر بھی آئے گی لیکن اگر کورونا امریکہ، اٹلی اوربرطانیہ کی طرح ہماری بے تدبیری اور بے احتیاطی سے پھیل گیا، ہمارے پیاروں کے لئے ہمارے ہمسایوں کے لئے، جان لیوا خطرہ بن گیا تو کون سی عید اور کہاں کی خوشی۔ باجماعت نمازوں، تراویح اور عمرے پر پابندی لگ گئی ہم نے برداشت کر لیا، دو ماہ کے لاک ڈائون سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہم نے صبر کیا، سات سو شہری جان سے گئے اور ہزاروں اس موذی مرض سے نبردآزما ہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر دکانیں کھلیں تو ہم دیوانہ وار گھروں سے نکل کر ہجوم بلکہ ریوڑ میں بدل گئے، دکانداروں نے دو ماہ کی بے روزگاری سے سبق سیکھا نہ خریداروں نے جان کی پروا کی، اطلاعات یہ گشت کر رہی ہیں کہ حکومت دوبارہ سخت قسم کے لاک ڈائون پر غور کر رہی ہے علاج یہی ہے لیکن ان تین چار دنوں میں کورونا کے مریضوں نے جن ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں میں جراثیم منتقل کئے اور جن عجلت پسندوں نے خود کو ہلاکت میں ڈالا ان کا پتہ کیسے چلے گا؟ تیر سے نکلا ہوا کمان واپس آ سکتا ہے نہ ان تین چار دنوں میں پھیلے مرض کا موذی پتہ چل سکتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ عید کے دن بھی ہمیں سعودی عرب کی طرح گھروں میں بند رہنا پڑے کہ ذمہ دار اب حکومت نہیں وہ جلد باز اور بے فکرے عوام ہوں گے جن کی مہربانی سے یہ مرض پھیلنے کا اندیشہ ہے، گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران مریضوں اور اموات میں کئی گنا اضافہ اس اندیشے کو حقیقت میں بدل رہا ہے کہ کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اور لاک ڈائون میں نرمی اس کا سبب ہے بازاروں میں رش پھیلائو میں مددگار ہے اور مزید چشم پوشی خطرناک۔ حکومت نے غریب پروری کی، خزانہ لٹایا، مخیر خواتین و حضرات نے راشن تقسیم کیا اور عمران خان نے یہ سوچ کر لاکھ ڈائون نرم کیا کہ دو ماہ سے بیکار بیٹھے تاجر کچھ کما لیں، شہری ضرورت کی اشیاء خرید لیں کسی نے مگر یہ نہ سوچا تھا کہ غریب اور متوسط طبقہ جمع پونجی شاپنگ پر لٹانے کے لئے بے تاب ہے اور خریداری کے شوق میں کورونا کو گلے لگانے پر آمادہ۔ اللہ کرے کہ ہوش ہمارے شوق خریداری اور جوش آوارگی پر غالب آئے اور ہماری عید بخیر گزرے، ڈاکٹر غلط ثابت ہوں اورر حکمران درست کہ یہ قوم واقعی اپنا بُرا بھلا خوب جانتی ہے۔ بظاہر امکانات گرچہ کم ہی نظر آتے ہیں۔