افغانستان کے کٹھ پتلی صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کرنے سے یہ کہہ کرانکار کر دیا ہے کہ انہوں نے ان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ نہیں کیا، ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں اشرف غنی شریک تھے نہ فریق، کابل میں ان کی حیثیت وہی ہے جوہمارے دیہاتوں میں سردار کے کسی گماشتے کی، تین لاکھ سے زائد افغان فوج وجود میں آ چکی ہے مگر موصوف اپنی سکیورٹی کے لئے امریکیوں کے محتاج ہیں، حالیہ صدارتی الیکشن کے نتائج کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حکمت یار نے مسترد کر دیاہے اور عبدالرشید دوستم بھی الگ تھلگ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ دھمکی سعودی فرمانروا کو دی تھی "ہماری پشت پناہی کے بغیر آپ ایک ہفتہ حکومت میں نہیں رہ سکتے "مگر صادق اشرف غنی پر آتی ہے ایک ہفتہ کیا، ایک دن نکالنا مشکل۔ معاہدے کے بعد افغان امور کے ماہرین اور دانشور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی انخلا کے بعد اشرف غنی حکومت اور افغانستان کا کیا بنے گا؟ جواب واضح ہے کہ حامد کرزئی، اشرف غنی اور دوسرے افغان کٹھ پتلی حکمرانوں کو امریکہ یورپ اور تمام ہمسایہ ممالک کی تائید و حمائت حاصل تھی، کرزئی کے دور میں غیر ملکی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی مگر پورے افغانستان درکنار کابل میں یہ ناہنجار رٹ آف سٹیٹ قائم نہ کر سکے۔ اب جنگجو طالبان کے سامنے کس برتے پر ٹھہریں گے۔
امریکی حکمرانوں نے اپنے شہریوں کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں ڈالر خرچ کر کے تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل افغان فوج قائم کی۔ اسے مہنگی ٹریننگ دی، جدید ہتھیار فراہم کئے مگر نالائقوں کا یہ ٹولہ چند ہزار طالبان سے مقابلہ کی اہلیت نہیں رکھتا، فضائی کمک کے باوجود، ہر معرکے میں ناکام ٹھہرا اور اپنے سرپرستوں کا جانی، مالی نقصان کرایا، یہ نالائق اگر اپنے بل بوتے پر ریاست اور حکومت کا دفاع کرنے کے قابل ہوتے، اتحادی افواج کے باعزت انخلا کو یقینی بنا سکتے اور امریکہ و یورپ کو یہ یقین دہانی کرانے کے قابل ہوتے کہ آئندہ افغانستان القاعدہ اور داعش کے لئے محفوظ جنت بنے گا نہ یہاں سے اتحادیوں پر حملے ہوں گے تو صدر ٹرمپ کو ملا عمر کے جانشینوں سے ہاتھ ملانے، یقین دہانیاں حاصل کرنے اور برابری کی سطح پر معاہدے کی تقریب سجانے کی ضرورت کیا تھی؟ ۔ امریکہ اپنے قومی مفادات پر شاہ ایران رضا شاہ پہلوی، فلپائن کے آمر مطلق فرڈیننڈ مارکوس اور مصر کے حسنی مبارک کی قربانی دینے کا عادی ہے۔ اشرف غنی کس باغ کی مولی ہے، عبداللہ اور عبدالرشید دوستم کسی نہ کسی لسانی و نسلی گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں، سیاسی قوت کے علاوہ گروہی عصبیت کے حامل بھی ہیں، اشرف غنی بے چارہ تین میں نہ تیرہ میں، کبھی افغانستان میں رہا نہ 1979ء سے اب تک کسی جدوجہد میں حصہ لیا۔ امریکہ نے اپنا پالتو سمجھ کر تخت کابل پر لا بٹھایا، جب لاد چلا بنجارہ تو اشرف غنی کی کیا مجال کہ وہ ان قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ ڈالے جنہیں امریکہ رہا کرنے کا پابند ہے۔ یہ بنیادی طور پر طالبان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بچگانہ خواہش ہے کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ اشرف غنی شائد ڈاکٹر نجیب اللہ کا حشر بھول گیا ہے اور اُسے برہان الدین ربانی و احمد شاہ مسعود بھی یاد نہیں۔ جنہیں طالبان نے قصٔہ ماضی بنایا۔
برسوں قبل کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک عالی مرتبت سفارت کار نے مجھے بتایا کہ احمد شاہ مسعود نے طالبان کے حملوں سے بچنے کے لئے سالانگ سرنگ کے آگے روس کے تعمیر کردہ آہنی پُلوں کو مسمار کیا، کنکریٹ کی دیواریں تعمیر کیں اور چھ سال تک سنگ وآہن کی مضبوط فصیلوں کے پیچھے چھپ کر زندگی گزاری، جوان جری گدڑی پوشوں کے خوف کی علامت تھی، اشرف غنی، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود ہے نہ حکمت یار اور نجیب اللہ، جو امریکی انخلا کے بعد طالبان کے مقابلے میں ڈٹا رہے جبکہ اسے اب کسی ہمسائے مثلاً تاجکستان، ایران، ازبکستان اور پاکستان کی حمائت بھی حاصل نہیں۔ بھارت خود اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کے پاکستانی کارندے بھی مایوس و مضطرب ہیں یہی قنوطی اب نیا بیانیہ دے رہے ہیں کہ امریکہ اپنے فوجی بچا کر لے گیا، طالبان افغانستان کے حکمران ہوں گے، پاکستان کے ہاتھ کیا آیا؟ کچھ لال بجھکڑ امریکہ کی شکست اور افغان طالبان کی کامیابی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں کہ افغانستان تباہ ہو گیا، امریکہ مضبوط تر ہے، طالبان نے بالآخر امریکہ کا یہ مطالبہ مان لیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے نہیں ہوں گے وغیرہ وغیرہ، جشن فتح کیوں؟ دل و دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنے والے یہ دانشور آزادی کی قدرو قیمت سے واقف ہیں نہ عزیمت و استقامت کے مفہوم سے آشنا۔ 9/11سے پہلے افغانستان میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں اور طالبان نے کب یہ کہا تھا کہ افغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، پناہ گاہ رہے گا۔ 9/11کے بعد طاقت کے نشے میں چورامریکہ کا مطالبہ تھا اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کیا جائے، ملا محمد عمر نے جواب دیا، ہم اُسامہ کو بین الاقوامی عدالت انصاف یا کوئی نئی عدالت جس میں غیر جانبدار مسلم ممالک کی نمائندگی ہو کے حوالے کر سکتے ہیں ایک ایسے ملک کے سپرد نہیں جو خود ہی مدعی، گواہ، منصف بننے پر تلا ہے۔ طاقت کو حق ہم نہیں مانتے نہ مانیں گے۔ اپنا تھوکا امریکہ نے چاٹا، ناکامی اور پسپائی اس کا مقدر بنی۔ امریکہ طالبان کی عزیمت اور پاکستان کے مثبت کردار کا معترف ہے، مائیک پومپیو نے برملا اظہار کیا مگر کچھ لوگوں کی سوئی ابھی تک 9/11پر اٹکی ہے۔ طالبان کی کامیابی سے خائف دوستوں کے پاس اس سوال کا جواب بھی نہیں کہ صدام حسین اور معمر قذافی نے تو امریکی شرائط پر سمجھوتہ کر لیا تھا، معقولیت کا ثبوت دیا۔ عراق اور لیبیا اس حشر سے دوچار کیوں ہوئے؟ عوام کا قصور کیا تھا؟
میری اطلاع کے مطابق امریکہ نے مثبت یقین دہانیوں کی بنا پر افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا ہے ؎
سپردم بہ تومایہ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
معاہدہ بھی امریکہ اور امارات اسلامی افغانستان کے مابین طے پایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی فیس سیونگ کے لئے معاہدے میں یہ الفاظ ڈالنے پر اصرار کیا کہ امریکہ اسے تسلیم نہیں کرتا اور الگ ڈیکلریشن کا مقصد بھی اپنے افغان اتحادیوں اور سیاسی مخالفین کو مطمئن کرنا تھا، چودہ ماہ تک طالبان انتظار کریں گے، طالبان کا مشہور مقولہ ہے "گھڑی آپ کے پاس ہے وقت ہماری مٹھی میں "افغان فوج دل برداشتہ ہے اور اپنے بچائو کے لئے اہم طالبان کمانڈروں سے رابطوں میں مصروف، اشرف غنی بھی ان دنوں ہاتھی کا دانت ہے کھانے کا اور دکھانے کا اور۔ امریکہ سے برہم اور اپنے ساتھیوں سے نالاں۔ طالبان کے سربراہ نے عام معافی کا جو اعلان کیا وہ افغانستان کے بعض سرکردہ اور اہم افراد اور گروہوں سے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ افغان فوج اور بیورو کریسی بھر پور فائدہ اٹھائے گی تاکہ 1990ء کے عشرے کی طرح ایک بار پھر خانہ جنگی نہ ہو۔ طالبان اور ان کے حامیوں کو جشن منانے کا حق حاصل ہے انہوں نے جینوا معاہدے کی غلطی نہیں دہرائی۔ امریکہ طالبان معاہدے میں کچھ مبہم نہیں، فوجی انخلا کی آخری تاریخ مقرر ہے اور طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کے سوا کسی اور جگہ کی حفاظتی ذمہ داری کا بوجھ امارات اسلامی افغانستان پر نہیں ڈالا گیا۔ پاکستانی لال بجھکڑ نہیں جانتے، طالبان کو بخوبی علم ہے کہ جب سپر پاور پسپائی اختیار کرتی ہے تو اس کے چیلوں چانٹوں کی ہمت خود بخود جواب دے جاتی ہے۔ افغانستان میں طاقت کا سکہ چلتا ہے زبانی کلامی بلند بانگ دعوئوں اور لفظی گورکھ دھندے کا نہیں۔ جن کی طاقت کا اعتراف امریکہ نے کیا، ان سے پنگا کوئی احمق ہی لے سکتا ہے، اشرف غنی ٹولے کو میں احمق نہیں سمجھتا۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔