یہ نیو یارک کی ایک سنسان، اور کرفیو زدہ سڑک کا منظر ہے، سربفلک عمارتوں اور کھوے سے کھوا چھلتے راستوں پر ویرانی چھائی ہے۔ ایسی ویرانی جس کا تذکرہ غالب نے کیا تھا۔ ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یہ وہی نیو یارک ہے جس کی رنگین راتوں اور مصروف دنوں میں کھو کر انسان ہوش و حواس سے بیگانہ ہوا جایا کرتا تھا، اس عالم مدہوشی میں انسان کو خدا کہاں یاد رہتا ہے۔ اس نیو یارک کی ایک گلی وال سٹریٹ کے نام سے معروف ہے جہاں کے معمولی کاروباری فرد کی دولت کا مقابلہ تیسری دنیا کے بہت سے مالدار ممالک کی معیشت کرنے سے قاصر تھی۔ نیو یارک کی سربفلک عمارتوں، وال سٹریٹ کی مالی چکا چوند، لاس ویگاس کے جوئے خانوں کے طلسم ہوشربا، لاس اینجلس کے نگارخانوں کی رنگینی اور واشنگٹن میں واقع وائٹ ہائوس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان کی سیاسی سفارتی و عسکری قوت و طاقت سے متاثر و مرعوب انسان یہ سوچنے بلکہ برملا کہنے لگا کہ اب مجھے کسی ان دیکھے خدا کی ضرورت ہے نہ آسمانی رہنمائی کی احتیاج۔ ایک دیوانہ اسی نیو یارک کی ویران گلیوں میں صدا لگا رہا ہے، اپنے اپنے گھروں میں دبکے ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب اور طاقتور مگر خوفزدہ انسانوں کو سنا رہا ہے، آئیے سنتے ہیں کیا کہتا ہے۔
نیو یارک! اللہ تجھ سے ناراض ہے، تیرے گناہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے چکے ہیں، اللہ تعالیٰ تجھ سے بہت ناراض ہے۔ نیو یارک تجھے معلوم ہے کہ آپ کے معصوم بچے ضائع کر دیے جاتے ہیں، ایک ہفتے میں چالیس بچے ضائع کر دیے جاتے ہیں، معصوم بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اس عمل سے انہیں کیا راحت پہنچتی ہے، ہماری انا اور تکبر نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔ نیو یارک تجھے آج خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کہہ رہا ہے کہ عاجزی اختیار کرو تاکہ تمہیں عزت ملے یہ جسم اور ہر چیز کی روح اسی کے قبضے میں ہے۔ نیو یارک!خدا تمہیں پکار رہا ہے، تجھے خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کی طاقتور آواز پر لبیک کہو! تاکہ تمہیں عزت ملے، تمہاری ناپاک مجلسیں معصوم بچوں کے خون سے آلودہ ہیں، تم ہاتھوں سے گناہ کرتے اور منہ سے جھوٹ بولتے ہو، تمہاری زبانیں ہر ظلم کی تعریف کرتی ہیں۔ امریکہ!ہم سب سے بُری قوم ہیں ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ نیو یارک! یہ رب کے سامنے عاجزی اور توبہ کا وقت ہے، توبہ اور عاجزی سے عزت مل سکتی ہے۔ بتوں کی عبادت، سرکشی، تکبر، حب مال اور مادیت سے توبہ کرو، ہم یہاں روشنی کی بات کرتے ہیں لیکن تیرے پروگرام پورے ہو چکے ہیں، میڈیا تم سے پوچھ رہا ہے کہ تمہارا کس چیز پر ایمان ہے، تم کس چیز سے ڈرتے ہو، تمہاری پسند و ناپسندکیا ہے، ہم ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے ہیں۔ کالا گورے اور گورا کالے سے نفرت کرتا ہے، میڈیا کے ذریعے نسل پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارا پروگرام مکمل ہو چکا ہے"۔
وائرل ویڈیو میں نیو یارک کا باشندہ اپنے ہی ہم وطنوں سے شکوہ، شکایت کر رہا ہے، ان کے قلب و روح پر دستک دے رہا ہے۔ لیکن اکیلا نیو یارک ہی تو نہیں جہاں ظلم کا بازار گرم ہے، افغانستان، عراق، لیبیا اور دیگر کئی ممالک میں بلا شبہ امریکہ نے وحشت و درندگی کا کھیل کھیلا، بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں، مہلک ہتھیاروں سے تہذیبوں کو کھنڈر بنا دیا مگر کشمیر اور فلسطین، روہنگیا اور سنکیانگ، فلپائن اور یمن میں بھی تو انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، کہیں بحیلۂ مذہب، کہیں بنام وطن، انسانی خون بہہ رہا ہے اور پوری دنیا تماش بین۔ 9/11سے قبل زبانی کلامی سہی، صدائے احتجاج بلند ہوتی اور ہاتھ سے نہ سہی، زبان سے ظلم کو روکنے کا رواج تھا مگر اب دل میں بُرا جاننے کی روایت بھی دم توڑ چکی ہے، معصوم بچے صرف نیو یارک میں پیدائش سے قبل قتل نہیں کئے جاتے بلکہ انسانی وسائل کے متوقع حصہ داروں کو ماں کے پیٹ میں تلف کرنے کا رواج دنیا بھر میں ہے اور پیدائش کے بعد بھی یہ پھول صنفی امتیاز کے بغیر جنسی درندوں کے ہاتھوں مسلے جاتے ہیں۔ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر بنا تھا مگر ہر سال درجنوں بچے اور بچیاں شہوت و لذت پرستی کی بھینٹ چڑھ کر معاشرے کے خلاف فرد جرم میں اضافہ کرتے ہیں۔ شام کے ایک معصوم بچّے نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کرنے کی دھمکی دی مگر کسی نے کان نہ دھرے، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے معلوم نہیں کتنے معصوم بچے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر رنگ، نسل، زبان، مذہب مسلک اور علاقے کے ظالم، جابر، درندہ صفت انسانوں کے خلاف شکایات درج کرا چکے ہیں، جبری آبروریزی کا نشانہ بننے والے عصمت مآب خواتین کی فریاد پایۂ عرش کو ہلا چکی ہے اور محض عقیدے، رنگ و نسل اور زبان کے اختلاف کی بنا پر وحشت ودرندگی کا نشانہ بننے والے مظلوم و بے بس انسان ربّ کائنات کے غیظ وغضب کو پکار رہے ہیں کہ اے خالق و مالک!تیرے سواہماری کوئی سننے والا ہے نہ مدد کرنے والا، تو ہی ظالموں اور ان کے ہمنوائوں کوبے بسی کی موت کی جھلک دکھا، شائد یہ سنبھل جائیں اور تیری خوبصورت تخلیق یعنی حضرت انسان پر مال و دولت، اقتدار و اختیار، قوت و طاقت اور غلبہ و تسلط کو فوقیت دینے کی مکروہ عادت سے باز آ جائیں۔ قاہرہ، ریاض، انقرہ، کوالالمپور میں بھی وہ سب کچھ ہوتا ہے جو نیو یارک میں روا ہے، اسلام آباد کے بارے میں رکن اسمبلی جمشید دستی نے شہادت دی کہ اسمبلی سیشن کے دوران یہاں شراب کی کھپت اور بدکار عورتوں کی اجرت بڑھ جاتی ہے۔ کون سا مکروہ کاروبار ہے جو امریکہ میں ہوتا اور مسلم ریاستوں میں ممنوع و ناپید، جوا، سود، جسم فروشی، مال و دولت، اقتدار و اختیار کے بتوں کی پرستش اور فحاشی و عریانی ہے۔ نیو یارک کے گلی کوچے میں تو ایک دیوانہ پکار رہا ہے۔ اسلام کی نام لیوا ریاستوں میں کوئی پکارنے، جھنجھوڑنے، جگانے والا تک نہیں۔ میڈیا کا قبلہ و کعبہ مختلف ہے نہ ترجیحات میں زیادہ فرق۔
آج امریکہ و یوگنڈا میں کوئی فرق رہا ہے نہ نیو یارک اور پاکستان و افریقہ کی کسی کچی بستی کے شہریوں میں امتیاز باقی، سب کے سب مجبور و بے بس، پریشان و ہراساں اور قدرت کے مقاصدسے لاعلم و بے خبر۔ ایک فرق البتہ ہے کہ جو جتنا زیادہ لاعلم ہے اتنا ہی بے خوف و بے خطر، جبکہ پڑھے لکھے اور زیادہ علم رکھنے والوں کو پریشانی، پشیمانی، خوف اور اضطراب نے ادھ موا کر رکھا ہے۔ نیو یارک کا باشندہ اپنے ہم وطنوں کو جگا رہا ہے یہ آواز ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ، کانوں سے سن رہے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے پر اب بھی تیار نہیں، کیا واقعی رب ہم سے خفا ہے؟ کہ اُس نے سوچنے، سمجھنے اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت ہم سے چھین لی، تیار ہوتے تو حرمین شریفین اور مساجد کی بندش، کاروباری سرگرمیوں میں تعطل، عالمی معیشت کے ہمہ گیر زوال اور اعلیٰ سے ادنیٰ، طاقتور سے کمزور اور سرمایہ دار سے بے مایہ تک ہر ایک انسان کی کورونا کے سامنے بے بسی سے اب تک اپنے آپ کو بدل چکے ہوتے، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، فریب کاری، دھوکہ دہی، گراں فروشی بے راہروی، خدا فراموشی، گناہ آلود زندگی سے تائب ہو کر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑا اور بدلنے کی مہلت دی، اللہ کو ماننے اور محمد رسول ﷺ کی محبت کا دم بھرنے والے کلمہ گو کم از کم دوسروں سے پہلے کورونا کو تا زیانہ عبرت سمجھیں اور اپنے آپ کو بدلیں، ایک ایسی دنیا تعمیر کریں جس میں بسنے والے کسی انسان کے لئے ع
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
کاش ہم اپنے آپ کو بدل سکیں